مولانا سراج الحق کی دوسری ٹرم
لگتا ہے کہ جناب لیاقت بلوچ آج کی تقریب کو ایک یادگار تقریب بنانا چاہتے ہیں۔ دو دعوت نامے آ چکے ہیں۔ ایک دفتر میں، ایک گھر میں اور ٹیلی فون پر یاد دہانی الگ۔ یہ تقریب جماعت اسلامی کے لئے یقینی طور پر افتخار کا باعث ہے اور اسے تاریخ میں یادگار ہی ہونا چاہئے کہ پاکستان میں صرف ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جس میں مکمل جمہوری نظام موجود ہے۔ جہاں امیر ابن امیر ابن امیر کی روائت موجود نہیں۔بلکہ ہر پانچ برس بعد نئے امیر کا باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے۔ کسی کو بار بار بار منتخب کیا جاتا ہے مگر منور حسن ہی صرف ایک ٹرم حاصل کر پائے، اس میں ان کی کارکردگی کا کوئی قصور نہ تھا بلکہ ان کی ستر برس کی عمر آڑے آئی۔ جماعت میں عام طور پر امارت کا منصب نوجوانوں کے حصے میں آتا ہے۔ امیرالعظیم نے ماضی میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ مولانا مودودی سینتیس برس کے تھے جب پہلی بار امارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ان کی ضعیف العمری میں میاں طفیل محمد کو اٹھاون برس کی عمر میںمنتخب کیا گیا۔ ان کے بعد جب عام لوگ قیافے لگا رہے تھے کہ اب پروفیسر خورشید یا جان محمد عباسی یا پروفیسر غفور احمد میں سے کسی کو چنا جائے گا تو پشاور کے افق سے قاضی حسین احمد کا چاند طلوع ہوا۔ ان کی عمر صرف اڑتالیس سال کی تھی۔ منور حسن امیر چنے گئے تو ان کی عمر پینسٹھ برس کی تھی۔ ان کے بعد ایک بار پھر جوان خون کی ضرورت محسوس کی گئی۔ یوں لوئی دیر سے تعلق رکھنے والے مولانا سراج الحق کی عمر باون برس کی تھی جب پہلی بار ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ اب دوسری ٹرم کے آغاز میں ان کی عمر ستاون برس کی ہے اور یہ بات ایک دعوے کے ساتھ کی جا سکتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں میں وہ کم عمر سربراہ ہیں۔ عمران خان سے تو دس برس چھوٹے ہیں اور ان کے سامنے سیاست کی ایک طویل اننگز کھیلنے کے لئے باقی ہے۔ کوئی ان کا تقابل بلاول بھٹو سے نہ کرے۔ وہ تو پیپلز پارٹی کی مسند پر سونے کا چمچہ منہ میں لئے براجمان ہوا۔
جماعت کے سلسلے میں ایک بات جو عام طور پر کسی کے علم میں نہیں بلکہ نیب کو تو بالکل علم نہیں کہ یہ غریبوں یا متوسط طبقے کی جماعت نہیں بلکہ اس میں امیروں کا ایک مجمع لگا ہوا ہے، یونین کونسل، تحصیل، ضلع اور صوبے کا امیر۔ یوں جماعت میں امیر ہی امیر ہیں۔ نیب کو امیروں کے اس چھابے پر چھاپہ مارنا چاہئے۔ جماعت اسلامی نئی دہلی، بیجنگ، ماسکو اور واشنگٹن کو ہمہ وقت کھٹکتی ہے۔ پتہ نہیں اسلام آباد نے اسے کیوں ڈھیل دے رکھی ہے، ایک زمانے میں اسلام آباد نے بھی جماعت پر غضب ڈھایا اور مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ یہ تو اللہ نے ان کی جان بچائی۔ شاید کسی کو اس دور میں سید قطب اور حسن البنا کے ادھورے مشن کی تکمیل کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق اسلام کی تشریح کرنا تھی۔ یہ کام اقبال اور قائد نہیں کر سکے تھے۔ مگر اس ضروت کی طرف انہوں نے اشارہ ضرور کیا تھا۔ یہ فریضہ مسلم لیگ اورا س کے اکابرین کو ادا کرنا چاہئے تھا مگر جاگیرداروں کی یہ جماعت حرص و ہوس کا شکار تھی۔ یہ پہاڑ جیسا فرض وہ کیسے ادا کرتی، اب اس جماعت کی قیادت صنعت کار تاجر طبقے کے ہاتھ میں ہے، جس کی سفلی خواہشات کی راہ میں نظریہ پاکستان تو سراسر ایک رکاوٹ ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس کچھ گنوانے کو نہیں ہے۔ نہ بیرون ملک اس کے لوگوں کے فلیٹس‘ نہ بنک بیلنس‘ نہ منی لانڈرنگ، نہ پانامہ میںکسی کا نام، نہ نیب کے ایجنڈے پر کسی جماعت کا نام‘ نہ کوئی کسی کا اے ٹی ایم، یہ فقیروں کی پارٹی ہے یا فقی مشن کہہ لیں۔ مگر اسلام کی جو تشریح اس جماعت نے کر دی ہے، وہ آئندہ کئی نسلوں کی راہنمائی کرتی رہے گی۔
میں بھی جماعت سے حسن ظن رکھنے والوں میں شامل ہوں۔ مولانا مودودی کی اچھرہ کی محفلوں میں مجھے شرکت کا موقع ملا۔ مولانا کے دو قریبی رفقا ہمارے قصور سے تعلق رکھتے تھے۔ آج بھی جماعت کے ایک سینئر راہنما مولانا اسلم سلیمی میرے گائوں سے ملحقہ برج کلاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور جاوید قصوری میرے خالہ زاد بھائی ہیں۔ قاضی حسین احمد جب پشاور کے امیر تھے تو میں ان سے پہلی بار وہیں ملا۔ یہ انیس سو چوہتر کی بات ہے جب بشام اور پتن میں زلزلہ آیا تھا اور میں اس کی کوریج کے لئے لاہور سے وہاں پہنچا تھا۔ ایک رات میںنے پشاور میں بسر کی تھی اور قاضی صاحب نے بڑی محبت سے مجھے شام کی ضیافت پر مدعو کیا تھا۔ تب ان کے گھر میں دو پھول جیسے بچے تھے جو مہمان داری کے فرائض اد اکر رہے تھے۔ سمیحہ راحیل اورآصف لقمان۔ اتفاقات زمانہ دیکھئے کہ پانچ برس قبل میری بیگم صاحبہ کا انتقال ہوا تو سمیحہ راحیل نے انہیں غسل دیا اور کفن پہنایا۔ جماعت میں چودھری رحمت الٰہی سے بھی خصوصی قربت استوار ہوئی۔ پروفیسر غفور تو اس قدر میزبان تھے کہ جب بھی کراچی سے لاہور تشریف لاتے تو خصوصی انٹرویو کے لئے مجھے منصورہ مدعو کرتے۔ ان کا قیام وہیں مہمان خانے میں ہوا کرتا تھا۔ قاضی حسین احمد کے بارے میں کئی یادیں ہیں مگر ایک کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے انتقال سے قبل ان کی زندگی کا آخری ویڈیو انٹرویو میں نے کیا تھا۔سراج الحق صاحب دو بار میرے غریب خانے میں تشریف لا چکے ہیں۔ اب وہ دوبارہ امیر بنے ہیں تو سوچتا ہوں کہ ایک محفل اور ہو جائے۔ جماعت کے ایک اعلیٰ عہدیدار حافظ محمد ادریس میرے اور میری بیگم صاحبہ دونوں کے کلاس فیلو ہیں۔ میرے ساتھ گورنمنٹ کالج میں تھے اور یونیورسٹی میں میری بیگم صاحبہ کے ساتھ۔ اب میری اکثر ملاقاتیں امیرالعظیم صاحب سے ہوتی ہیں جو جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے، آج کل صوبہ پنجاب کے امیر ہیں۔ ان سے قربت کی ایک وجہ تو ان کی دلکش شخصیت ہے اور دوسرے ان کے و الد گرامی فضل عظیم سے بیس برس کا تعلق تھا۔ لیاقت بلوچ سے تب سے آشنائی ہے جب ان کے بھائی کی ملتان میں وفات ہوئی اور میں تعزیت کے لئے لیاقت صاحب کے گھر کلفٹن کالونی حاضر ہوا تھا،۔ اب وہ مسلم ٹائون میں رہائش پذیر ہیں جہاں ان کے پہلو میں کرنل امجد حسین رہائش پذیر رہے۔ وہ مشاہد حسین کے والد ہیں اور میرے مرشد نظامی کے قریبی رفیق۔ لیاقت صاحب کے گھر کے سامنے ڈاکٹر عمر سیف رہتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں ان کا بڑا نام اور وسیع کام ہے۔
میں مولانا سراج الحق کو دوبارہ امیر منتخب ہونے پر دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ وہ ایک ایسے دور میں جماعت کے سربراہ ہیں جب ہر سو اسلامو فوبیا کا راج ہے۔ پاکستان میں بھی بھارت اور امریکہ کے اشارے پر دینی اور سیاسی جماعتوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی جس میں ذرا بھی جمہوریت نام کی شے نہیں پائی جاتی، وہ بھی ان جماعتوں سے بیر رکھتی ہے اور ملک کی دولت کو لوٹنے والے بھی جماعت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں، سراج الحق کو ایک چومکھی جنگ کا سامنا ہے تو ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ میرے بازو اور میرا قلم بھی ان کے لئے حاضر باش!