• news

ریاست تعلیم فراہمی میں مکمل ناکام، خود لوگوں کو نجی اداروں میں داخلوں پر مجبور کرتی ہے: چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، خود لوگوں کو نجی سکولز میں داخلوں پر مجبور کرتی ہے، ہمارے سامنے لاہور اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں ہیں، سندھ اور پنجاب میں الگ الگ قوانین رائج ہیں، سرکاری سکول نہ ہونے کی وجہ سے بچے مدارس میں جاتے ہیں، حکومت ہر مدرسے کے ساتھ سرکاری سکول تعمیر کرے، مفت سہولیات دیکر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ سکول جانا ہے یا مدارس، پہلے گلی محلوں میں سرکاری تعلیمی ادارے ہوتے تھے، اب وہ پرائمری سکول بھی نظر نہیں آتے۔ سکولز فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں ہائی کورٹس نے متعلقہ قوانین کے تحت فیصلے کیے۔ وکیل نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے سے والدین مطمئن ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ والدین مطمئن ہیں تو آپ عدالت میں کیا کر رہے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا سکول فیس مقرر کرنے کیلئے رولز موجود ہیں؟ کیا فیس کا تعین کرنے والی کمیٹی سہولیات کا بھی جائزہ لیتی ہے؟۔ وکیل والدین فیصل صدیقی نے کہاکہ فیس کے تعین کیلئے باضابطہ رولز موجود نہیں۔ انہوں نے کہاکہ سندھ کے رولز میں پانچ فیصد تک فیس بڑھانے کی اجازت ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ رولز میں واضح نہیں فیس میں اضافہ سال میں کتنی بار ہو سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سکولز کسی نہ کسی مد میں فیس بڑھاتے ہی رہتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کبھی کلب ، کبھی ڈیبیٹ سوسائٹی کے نام پر فیس لی جاتی ہے۔ وکیل والدین نے کہاکہ سندھ ہائیکورٹ نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ریگولیشن کے قواعد کو کالعدم قرار دیا۔ وکیل والدین نے کہاکہ سندھ ہائیکورٹ نے ایک اور فیصلے میں ریگولیشن کے قوائد کو قانونی قرار دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قواعد کالعدم قرار دینے کے بعد سندھ ہائیکورٹ کیسے بحال کر سکتی ہے،؟آئین کا آرٹیکل 18 کاروبار اور تجارت کی بات کرتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا سکولنگ تجارت ہے؟ کیا سکولنگ کاروبار ہے،؟۔چیف جسٹس نے کہاکہ سمجھنا ہے کہ تعلیم تجارت میں آتی ہے کہ کاروبار میں۔ نجی سکولز کیساتھ حکومت سے بھی پوچھیں گے وہ کیا کر رہی ہے، میں نے خود سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے گلی محلوں میں سرکاری تعلیمی ادارے ہوتے تھے، سرکاری سکول اور ان کا پہلے والا معیار آخر کہاں گیا؟ بھاری فیس ادا نہ کر سکنے والا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سرکاری سکولز نہ ہونے کی وجہ سے بچے مدارس میں جاتے ہیں ۔ سرکاری سکول تعمیر کرے۔چیف جسٹس نے کہاکہ سرکاری سکول میں مفت کتابیں ، یونیفارم اور دودھ کا گلاس دیا جائے۔چیف جسٹس نے کہاکہ مفت سہولیات دیکر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ سکول جانا ہے یا مدارس ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عوام کے پاس آپشنز نہ ہونے کی وجہ سے مقدمہ عدالت پہنچا۔جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ ماضی میں سرمایہ کار بورڈ کی پابندیوں سے صنعتوں کی ترقی رکی،پابندیوں سے ہمیشہ ترقی رکنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کسی نجی ادارے پر قدغن کیسے لگائی جا سکتی ہے؟ آکسفورڈ کیساتھ منسلک سکول کا معیار دیگر سے بلند ہوگا۔ سہولیات کے عوض فیس وصول کرنا سکولز کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ شہریوں کی مرضی ہے وہ بچوں کو کس سکول میں پڑھانا چاہتے ہیں، روپے کی قدر گری تو اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ریاست کی ناکامی سے پیدا خلاء نجی سکولز پورا کر رہے، نجی سکولز کو مادر پدر آزادی بھی نہیں دے سکتے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت آئندہ سوموار تک ملتوی کر دی گئی ۔دورانِ سماعت عدالت نے حکومتوں سے مفت تعلیم کی فراہمی کیلئے کیے گئے اقدامات پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کردیا جب کہ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اعداد و شمار بھی پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اور کیس کی روزانہ سماعت کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن