• news

نو مسلم لڑکیوں کو شوہروں کیساتھ جانے کی اجازت، زبردستی مذہب تبدیل نہیں کیا: اسلام آباد ہائکیوٹ

اسلام آباد (صباح نیوز + آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے نو مسلم لڑکیوں کو شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے کہا سیکرٹری داخلہ لڑکیوں اور ان کے شوہروں کی حفاظت کے پابند ہوں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں گھوٹکی کی 2 بہنوں کی تحفظ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے کہا انکوائری کمشن 14 مئی تک رپورٹ اور حتمی سفارشات پیش کرے، دونوں لڑکیاں بالغ ہیں۔ مجسٹریٹ کو بیان سے صورتحال واضح ہو گئی۔ آسیہ اور نادیہ نے زبردستی مذہب تبدیل نہیں کیا۔ ہندو کونسل کے رہنما اورایم این اے رمیش کمار عدالت میں پیش ہوئے اور کہا عدالت نے جو کچھ کیا اس کیلئے مشکور ہیں۔ جس پر عدالت نے کہاشکریہ ادا نہ کریں۔ ہر شہری کے حقوق کا تحفظ ہو گا۔ آپ کا تعلق تو حکمران جماعت سے ہے۔ رمیش کمار نے کہا اسمبلی میں بھی بل پیش کئے مگر لگتا ہے کچھ نہیں ہو گا۔ عدالت نے کہا اکثریتی جماعت کا رکن یہ کہے گا کہ کچھ نہیں کر سکتا؟ کوئی رکن پارلیمنٹ عدالت آ کر مدد مانگے تو شرمندگی ہوتی ہے۔ اب حکمران جماعت یہ کہے گی کہ پارلیمنٹ بے بس ہے؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ بتائیں ابھی تک کیا کیا ہے؟ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے جواب دیا عدالتی حکم کے مطابق لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ عدالت نے ہمیں کمشن ممبران کو اکٹھا کرنے کا بھی کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کے 2 ممبران ملک میں نہیں تھے، باقی سب سے رابطہ ہو گیا ہے، میں اور آئی آر رحمان صاحب دونوں لڑکوں سے مل کران کی رائے جانیں گے۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے مزید کہا کہ شیریں مزاری دوسری خاتون ممبر سمیت لڑکیوں سے ملیں گی، بظاہر یہ زبردستی مذہب تبدیلی کا کیس نہیں لگتا۔ میڈیکل بورڈ کے مطابق آسیہ کی عمر 19 اور نادیہ کی 18 سال ہے۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کر دی۔ انکوائری کمشن کے رکن آئی اے رحمان بھی عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہماری انکوائری کے مطابق لڑکیوں نیمذہب زبردستی تبدیل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا یہ تاثر ضرور ہے کہ ایک منظم گروپ گھوٹکی میں لوگوں کو تبدیلی مذہب کی ترغیب دیتا ہے، عدالت اگر اس گروپ سے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ سندھ اس عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اقلیتوں کے حقوق کا نہ صرف تحفظ ہونا چاہئے بلکہ تحفظ نظر بھی آنا چاہئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ لڑکیاں بالغ ہیں اور انہوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا، لڑکیوں کو اجازت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ رہ سکیں۔

ای پیپر-دی نیشن