• news

نجی سکولز کو منافع کمانے کے کار خانے نہیں بننے دینگے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے نجی سکولوں کی فیسوں میں اضافہ کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میںکہا ہے کہ قانون بنانے والے حقائق سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں، افراط زر کی وجہ سے والدین کی آمدن پر بھی فرق پڑتا ہے، عدالت نے قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ناجائزقرار دے دیا تو اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بھی کنٹرول نہیں ہوسکیں گی، سکولوں کی فیسوں میں اضافہ کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں بہت سی غلطیاں ہیں، لگتا ہے غلطیوں میں سارا قصور انگریزی کا ہے۔ نجی سکولوں کے وکیل نے کہاکہ عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے ایگزیکٹو اقدامات کی نہیں، فیسوں میں پانچ فیصد سالانہ اضافے کو مناسب ثابت کرنا حکومت کا کام ہے، مجاز اتھارٹی معیشت کی بدحالی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی، کبھی افراط زر کی شرح پانچ فیصد رہی ہے؟ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ نجی سکولز سکولز کو منافع کے کارخانے نہیں بننے دینگے۔ آمدن پر بھی فرق پڑتا ہے، قانون بنانے والے حقائق سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ فیسوں میں قانونی اضافہ کمیٹی کی سفارشات کی بنیادپرہی ہوسکتاہے۔آرٹیکل 10اے کا اطلاق صرف ٹرائل کیلیے ہوتا ہے ہر جگہ نہیں،فیس میں 5فیصد سے زائد اضافہ لائسنس کی تجدید کے وقت ہوگا،مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ 2020 میں گیس کی قیمت 80 فیصد تک بڑھ جائے گی،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ گیس کی قیمت بڑھنے سے سکول فیس میں80فیصد اضافہ نہیں ہوتا،مخدوم علی خان نے کہاکہ افراط زرکومدنظر رکھتے ہوئے 5 فیصد سے زیادہ اضافے کی اجازت ہے۔ فیس میں اضافے کی شرح کم سے کم ہونی چاہیے،5فیصد سے زیادہ اضافہ چاہیے تومجازاتھارٹی کو جواز پیش کریں،آڈٹ رپورٹ کے مطابق نجی سکولز بہت زیادہ منافع لیتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن