بے موسمی کاشت کاری ا ور بے موسمی کابینہ تبدیلی
ایک بڑے ٹی وی چینل پر ایک بڑا اینکر، جو بڑا دانشور، بڑا ایڈیٹر اور بڑا کالم کار بھی ہے۔ اپنے میزبان سے پوچھ رہا تھا کہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم موسموں کی غیر متوقع تبدیلی کے پیش نظر اپنی فصلوں کی کاشت ا ور برداشت آگے پیچھے کر لیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس اینکر کو دیسی مہینے بھول گئے ہیں جن میں گندم کی کٹائی ہوتی ہے۔ ان مہینوں سے پہلے گندم کی کٹائی کا مطلب یہ ہے کہ ہم چھ ماہ کے بچے کو ماں کے پیٹ سے نکال لیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ادھر محکمہ موسمیات اعلان کرے کہ ایران سے بارش برسانے والا ایک سلسلہ پاکستان میں داخل ہونے کو ہے تو ادھر ہمارے کسان راتوں رات بھاگم بھاگ اپنی کچی پکی فصلوں کو کاٹ کر ڈھیر لگا دیں ، یہ ڈھیر تو لگ جائے گا مگر محض چارے کا۔ گندم کا دانہ بھی ان میںنہیں ہو گا،میں اس مہا ن دانشور کی تجویز پر قہقہے لگاتا رہا۔ اور لگاتا چلا گیا۔
مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ ان کی تجویز ملک کے وزیر اعظم نے بھی سن لی ہے اور انہوں نے اپنی سیاسی فصل کی کاشت اور برداشت میں تیزی دکھا دی مبادا کہ بارشوں کا کوئی اور بے چین سلسلہ کہیںسے آ جائے اور سب کچھ بہا لے جائے۔
سو ادھر نئے بجٹ کی آمد آمد تھی کہ وفاقی وزیر خزانہ نے اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا، پتہ چلا کہ تبدیلی کا سونامی آ گیا۔ کئی وزیروں کے قلم دان ادھر ادھر ہو گئے۔ ایسی تبدیلی کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا مگر صاحبو! اصول یہ ہے کہ وزیراعظم کا اختیار ہے کہ جب چاہے اپنی ٹیم میں ردو بدل کرے۔ کھیل کے میدان کا کپتان بھی اپنی صوابدید استعمال کرتا ہے اور جس کھلاڑی کا جہاں چاہے،۔ جب چاہے کھلانے کا مجاز و مختار ہوتا ہے۔
یاروں کی یہ بات سچ نکلی کہ ملک کی معیشت سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی ۔ اس میں بے چارے وزیر خزانہ بھی کرتے تو کیا کرتے۔ انہیں خالی خزانہ ملا۔ قوم پر ٹریلین کا قرض چڑھا ہوا تھا،۔ سارا معاشی نظام زمین بوس تھا،۔ چلئے پچھلے وزیر خزانہ اس نظام کی اصلاح نہیں کر سکے، اسے پٹری پر نہیں لا سکے تو نئے مشیر خزانہ شاید کامیاب کوشش کر سکیں، وہ میدان میںنئے نئے اترے ہیں اور معیشت کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان کو ڈھیروں دعائوں کی حاجت رہے گی۔
مگر یہ کیا کہ اطلاعات کا محکمہ بھی اتھل پتھل کر دیا گیا۔ پٹرولیم کی وزارت کا رنگ ڈھنگ بدل گیاا ور نجانے کیا کیا تبدیل ہو گیا اور کیوں تبدیل ہو گیا،۔ اس سوال کا جواب ایک ہی ہے کہ کپتان کی مرضی کہ اپنے کھلاڑیوںکوجیسے مرضی کھیلنے کا حکم دے۔
یہ تو ہو گیا، آگے کیا ہو گا۔ مہنگائی تو ویسے کی ویسے رہے گی بلکہ اس میں اضافہ ہو گا، ڈالر کی قدر اور بڑھے گی اور ڈھیروں کے حساب سے بڑھے گی۔ درآمدات بڑھتی چلی جائیں گی اور بر آمدات سکڑتی چلی جائیں گی۔ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار تجوریاں کھولنے پر ذہنی طور پر تیار نہیں ہو پائیں گے۔ ملک میں امن وا مان کی حالت مخدوش ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے لئے نئے وزیر داخلہ کیا کر پائیں گے اور ادھر بھارت کے تیور بگڑے بگڑے سے ہیں ۔ کیا پتہ کب وزیر دفاع بھی نیا لانا پڑ جائے ۔ مگر وزیر دفاع کے بس میں بھارت کو نکیل ڈالنا نہیں۔ْ بھارت کو ڈھیل ملی ہوئی ہے اور بڑی طاقتوں کی ا سے شہہ حاصل ہے۔ہمارے اپنے وزیر خارجہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ سولہ اور بیس اپریل کے درمیان بھارت کوئی نئی شرارت کر سکتا ہے۔ اس شرارت کی مدت تو ا ٓج ختم ہو گئی مگر بھارت تو وہیں موجود ہے اور ا سکے مذموم ارادے بھی ویسے کے ویسے ہیں۔ وزیر خارجہ کوئی نئی تاریخ دے سکتے ہیں تاکہ ہم ہمہ وقت چوکس رہیں۔
عمران خا ن نے بائیس برس تک جدو جہد کی، یہ بڑی لمبی جدو جہد ہے۔ اس عرصے میںانہوںنے کچھ تو حکومت چلانے کی پلاننگ کی ہو گی، کچھ ماہرین کو تو اپنے گرد اکٹھا کیا ہو گا، ملک کے مسائل جیسے راتوں رات حل نہیں ہو سکتے۔ ایسے ہی ملک کے مسائل راتوں رات پیدا بھی نہیں ہوئے۔ مسائل نے تو پاکستان بنتے ہی سر اٹھانا شروع کر دیا تھا ۔ پہلے مہاجرین کا سیلاب۔ پھر متروکہ املاک پر قبضے ا ور کرپشن کی گرم بازاری ، پھر جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور پھر ملک دو لخت ہو گیا، اب سیاستدانوں کے پا س ایک لٹا پٹا پاکستان تھا، روٹی کپڑے مکان کے خوش نما نعرے ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتے تھے جبکہ سیاست دانوں کا قلع قمع بھی ہونے لگا ،۔پہلے بھٹو پھانسی لگے۔ پھر ان کی بیٹی بے نظیر کو گولی لگی اور درمیان میں نواز شریف کے لئے جلا وطنی کی سزا۔ ملکوں کوٹھیک کرنے والے ماڈل سنگا پور ، ملائیشیا اور جنوبی کوریا کے تھے،۔ یہاں سیاست دان حکمرانوںنے جم کر حکومت چلائی اور جم کر پلاننگ کی اورجم کر انہیں عملی جامہ پہنایا۔ ہمارے ہاں تو ایک بھی وزیر اعظم اپنی آئینی ٹرم مکمل نہیں کر پایا تو تسلسل کیسے قائم رہتا۔ اب ایک بار پھر سیاست دانوں کو موقع ملا ہے۔ زرداری‘ نواز شریف نے ٹک کر حکومت کی اور ٹک کر کام کیا ،۔ زرداری نے سرکاری ملازموں کی حالت ہی بدل ڈالی ڈیڑھ سو فیصد تنخواہوںمیں اضافہ ۔ نواز شریف نے بجلی کے منصوبوں کا جال بچھایا۔ میٹروٹرینیں چلائیں اور موٹر ویز بنائیں مگر اب پتہ چلا کہ یہ سب کچھ کرپشن کا بہانہ تھا، انہوںنے خزانہ خالی کر دیا، ملک میںجو کچھ نظرا ٓ رہا ہے ، وہ تو کاٹھ کباڑ ہے اوراس صورت حال کو سدھارنیء کا چیلنج عمران خان نے قبول کیا، پہلا سال تو پلک جھپکنے میں گزر گیا، اس دوران جن لوگوںنے کچھ تجربہ حاصل کیا ،۔ انہیں اب ادھر سے ادھر کر دیا گیا ، اب ایک نئی ٹیم میدان میں اتری ہے، یہ تازہ دم ضرور ہے مگر ا سکی لیاقت کیا ہے۔ صلاحیت کیا ہے۔ اس کا اندازہ توو قت گزرنے پر ہوگا بلکہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔ نیا بجٹ ہی سب راز کھول دے گا،۔ اس میں کیا جہت متعین کی جاتی ہے۔ آگے کے سفر کا انحصار اس بجٹ پر ہو گا۔ لوگ تو روکھی سوکھی کھا لیں گے۔ مہنگائی میں پستے رہیں گے۔ ٹیکسوں کے نوٹس بھرتے رہیں گے۔مگر کیا ملک کی حالت بھی تبدیل ہو گی، معیشت میں سدھار پیدا ہو گا۔ تعلیم۔ صحت۔ امن و امان میں کوئی انقلاب آئے گا۔ اس کے لئے قوم سانس روکے انتظار کرے گی، وہ اپنے نئے مسیحائوں کے دم درود کی تاثیر دیکھے گی۔
پاکستان بلا شبہہ قدرت کا بے بہا عطیہ ہے۔ اسے ہم نے چچوڑ کر رکھ دیا۔ اب یہ وطن رحم کی بھیک مانگتا ہے اور اپنے حکمرانوں کی دانش اور حکمت اور تدبر کا منتظر ہے ۔ پاکستان کے دشمن پہلے ہی کم نہیں،۔ انہوںنے اس کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے ۔ اور اگر اندرونی دشمنوںنے بھی اپنی نیت ، اپنے ارادے اور اپنے منصوبے نہ بدلے تو پھر ہم ایک چومکھی جنگ میں الجھ جائیں گے۔دعا تو پھر بھی یہی ہے کہ ہم اس چو مکھی جنگ میںبھی جیتیں ۔ اور اگر کوئی ایسی تدبیر کاگر ثابت ہو کہ بے موسمی کاشت اور برداشت ہو سکے تو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ کاش! بے موسمی کاشت کا مشورہ دینے و الے اسی اسکریں پر بیٹھ کر قوم سے معافی مانگیں کہ وہ کاشت کاری کے علم سے بے بہرہ ہیں اور کاش ! ہمارے وزیر خزانہ کی طرح ہر وزیر یہ تسلیم کرے کہ وہ اپنے منصب کا ہل نہیں، صرف حلف کے لئے حلف نہ لے۔ کچھ کر کے دکھا سکتا ہوتو حلف لے۔ اس حلف میں وہ خدا اور اس کے رسولؐ کو بھی گواہ بناتا ہے۔
اب تبدیلی کا رخ پنجاب کی طرف ہے مگر میںنے تو کہا تھا کہ بزدار صاحب بہت کامیاب جا رہے ہیں۔ ان کے ریوینیو بورڈ نے لاکھوں کسانوں کو کروڑوں کے واجبات کے نوٹس ایسے موسم میں بھجوا دیئے جب گندم ابھی کٹی نہیں، حکومت نے ایک دانہ تک خریدا نہیں مگر منگل کو واجبات جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے اور پنجاب کا خزانہ بھر جائے گا۔ ایسے وزیراعلیٰ کے خلاف پخت و پز بلا جواز ہے۔ مگر ہو گا وہ جو پیا چاہے۔