ڈومیسٹک کرکٹ کا نیا نظام، سابق ہیروز وزیراعظم کیخلاف میدان میں آگئے
لاہور(سپورٹس رپورٹر)سابق کپتان اورپی سی بی کرکٹ کمیٹی کے رکن وسیم اکرم نے وزیر اعظم کے نئے ڈومیسٹک کرکٹ ماڈل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے ابھی پی سی بی کا نیا ماڈل نہیں دیکھا ۔ میڈیا ہی میں سن رہے ہیں کہ چھ ٹیموں کا ٹورنامنٹ کرانے کی تجویز ہے۔ میں کرکٹ کمیٹی کا رکن ہوں، کئی ہفتوں سے کرکٹ کمیٹی کی میٹنگ ہی نہیں ہوئی لیکن وہی فیصلہ ہونا چاہیے جو کھیل کے مفاد میں ہو۔ سابق صدرآئی سی سی اور سابق کپتان ظہیر عباس نے کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کا نظام عبدالحفیظ کاردار لائے تھے۔ اس نظام سے پاکستان کرکٹ کو بڑے کھلاڑی ملے اور بہت فائدہ ہوا ہے اس لیے سوچ وبچار کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کی ضرورت ہے۔سابق کپتان راشد لطیف خود پورٹ قاسم میں سپورٹس کے سربراہ رہ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹ کی کرکٹ ضرور ہونی چاہیے لیکن اس وقت جس انداز میں یہ کرکٹ ہورہی ہے اس سے مجھے سخت اختلاف ہے۔ اس وقت کوئی بھی ڈپارٹمنٹ کھلاڑیوں کو مستقل ملازمت نہیں دیتا جس کی وجہ سے کسی بھی وقت کھلاڑی کو ملازمت سے فارغ کردیا جاتا ہے۔ الائیڈ بینک میں تھا اس نے اچانک ٹیم بند کردی۔ حال ہی میں یوبی ایل اور حبیب بینک جیسے اداروں نے بھی اپنی ٹیمیں ختم کردیں۔14-2013 میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر نرگس سیٹھی کے دستخط سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا کہ کھلاڑیوں کو افسر گریڈ میں مستقل ملازمت دی جائے لیکن کسی بھی ڈپارٹمنٹ نے اس پر عمل نہیں کیا۔ کنٹریکٹ ملازمت کا نقصان یہ ہے کہ ڈپارٹمنٹس جب چاہتے ہیں کھلاڑیوں کو نوکریوں سے نکال دیتے ہیں۔سابق کپتان، کوچ اور وکٹ کیپر معین خان کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹس کی کرکٹ سے پاکستان کرکٹ کو فروغ مل رہا ہے اس لیے اس نظام کو بند کرنا دانشمندی نہیں، میں نے وزیراعظم عمران خان کو ان کے سامنے بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ نہ کریں، اس نظام میں خامیوں کو دور کیا جائے نظام کو ختم کردینا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے فوائد بہت ہیں اور اس سے کھلاڑیوں کو ملازمت کے علاوہ اچھے ماحول میں مقابلے والی کرکٹ ملتی ہے۔سابق کپتان سلمان بٹ کا کہنا ہے کہ اگر ریجن بڑی تعداد میں کھلاڑیوں کو اچھی تنخواہیں دے سکتے ہیں اور اس نئے سسٹم سے کھیل کو فائدہ ہوتا ہے تو اس پر ضرور عمل کیا جائے۔ ہم آسٹریلیا کا نظام لانے کیلئے چھ ٹیمیں بنارہے ہیں آسٹریلیا کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے لیکن پاکستان 23 کروڑ آبادی والا ملک ہے۔ آسٹریلیا ایک ویلفیئر سٹیٹ ہے جہاں بے روزگاروں کو حکومت سپورٹ کرتی ہے پاکستان میں بے روزگاروں کی مدد کون کرے گا۔ ریجنل کرکٹ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہاں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں جبکہ ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں میرٹ پر بنتی ہیں۔ کرکٹ کے فروغ کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے، پہلے بھی پینٹاگولر کے نام سے چھ ٹیموں کا ایک ٹورنامنٹ ہوتا تھا، تجرباتی طور پر پی سی بی نئے نظام کو متعارف کرائے اس کے ثمرات دیکھ کر مستقبل کی پلاننگ کی جائے۔پی سی بی گورننگ بورڈ کے سابق رکن اور ملک کے سب سے بڑے ریجن کراچی کے سابق صدر پروفیسر اعجاز فاروقی کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹس کو ختم کرنے اور فرسٹ کلاس ٹیمیں 8 کے بجائے 6 کرنے جیسے فیصلوں کیلئے وقت دینا ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کا کرکٹ میں بے پناہ تجربہ ہے، وہ ملک کے وزیر اعظم اور ہمارے ہیرو بھی ہیں لیکن اس طرح کے فیصلے نہیں ہونے چاہئیں کہ آگے چل کر مسائل پیدا ہوں۔ ڈپارٹمنٹس اور ریجنز کو الگ رکھا جا سکتا ہے، پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے، عمران خان اور ورلڈکپ جیتنے والے کئی کرکٹرز اسی دور کی پیداوار ہیں، ڈپارٹمنٹس کے پاس بھی کھلاڑی آتے تو ریجنز سے ہی ہیں لیکن وہاں انھیں مالی آسودگی حاصل ہوتی اور کھیل نکھارنے کا موقع ملتا ہے۔