• news
  • image

کتابوں کی دنیا سلامت رہے

نیشنل بک فاؤنڈیشن کا قومی کتاب میلہ بظاہر اکادمی ادبیات پاکستان کی کل پاکستان رائٹرز کانفرنس جیسا تھا۔ مگر زیادہ اہم دلچسپ بارونق اور بامقصد تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے چیئرمین ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہیں۔ وہ کتاب کی اہمیت کو کتاب کی محبت میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے قومی ترانے کے بعد کتاب کا ترانہ بھی گایا گیا۔ مجھے قومی ترانے کی طرح لطف آیا۔ جذبوں کا ایک طوفان دل میں امڈ آیا۔ میں سرشار ہو گیا۔ یہ گیت طارق نسیم نے لکھا ہے۔
کتابوں کی دنیا سلامت رہے
روشنی دوستی کی علامت رہے
برادرم ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے شاندار آغاز کیا۔ کتاب تعلیمی ترقی کی ضامن ہے۔ انعام کی شخصیت ایک دوستانہ انعام کی طرح ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تعلیمی ترقی قومی ترقی کی ضامن ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم برادرم شفقت محمود نے مختصر مگر جامع تقریر کی۔ ان کی طبیعت بھی کچھ خراب تھی۔
جب صدر پاکستان عارف علوی سٹیج پر آئے تو انہوں نے یہ خوشخبری پہلے سنا دی کہ میری طبیعت شفقت محمود کی طرح زیادہ خراب نہیں ہے۔ کمپیئر محبوب ظفر نے کہا کہ کتابیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ خاتون کمپیئر نے کہا کہ لوگ صدر محفل صدر پاکستان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوئے۔ اس محفل کا اعزاز یہ بھی ہے کہ صدر محفل صدر پاکستان بھی ہیں۔ وفاقی سیکرٹری انجینئر عامر حسن نے بھی خطاب کیا۔ صدر نے کہا کہ ایوان صدر میں میرے پاس وقت ہوتا ہے۔ میں سات آٹھ کتابیں پڑھ چکا ہوں ورنہ اکثر حکمران لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایک کتاب بھی پوری نہیں پڑھی ہوتی۔ صدر کے سامعین میں اکثریت ایسے ہی لوگوں کی تھی۔ کہا گیا کہ کتاب اہم ہوتی ہے مگر اصل چیز علم ہے۔ صدر محترم کی خدمت میں عرض ہے کہ علم کتابوں سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کتاب پڑھنا ایک نشہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب نشئی ہیں۔
برادرم ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایک مقابلہ کروائیں کہ کس آدمی کو سب سے زیادہ کتابوں کے نام یاد ہیں۔ کچھ منتظمین زیادہ سرگرم ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس رویئے کے خلاف معروف شاعر اور کالم نگار ناصر بشیر سر گرم ہو گئے۔ یہ کتاب میلہ اہل قلم کے لئے ہے۔ تمہارے ’’مخصوص‘‘ لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ ’’مخصوص‘‘ لوگ یقیناً بے ادب لوگ ہونگے۔ انہیں آخری صف میں بٹھاؤ۔ ایک ’’مخصوص‘‘ آدمی سے پوچھا گیا کہ آپ کو ادب سے دلچسپی ہے۔ اس نے کہا کہ میں اپنے سینئر افسران کا بڑا ادب کرتا ہوں۔ پہلی صف میں افتخار عارف میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ میرے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ پھر ریاض مجید اور انور مسعود آ گئے وہ ان کے ساتھ باتوں میں مبتلا ہو گئے۔
قومی کتاب میلہ تین دن تک چلتا رہا۔ یہ ایک بھرپور سرگرمی تھی بچے بڑے عورتیں گھوم پھر رہے تھے۔ انجوائے بھی کر رہے تھے۔ یہاں واقعی ایک میلے کا سماں تھا۔ چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ ہم نے لڑکپن میں اپنے گھر کے اندر صرف کتابیں دیکھی تھیں۔ ابا مرحوم بڑے ذوق شوق والے آدمی تھے۔ نئی کتاب خرید کر لاتے ہم سب بہن بھائیوں کو اکٹھا کرتے۔ امی کو بھی بلا لیتے اور پڑھ کر سناتے۔ وہ بہت جذبے والے آدمی تھے۔ امی ان پڑھ تھیں مگر سب سے زیادہ متوجہ وہی ہوتیں۔ اب تو امی ابا بھی چلے گئے۔ بڑے بھائی جان اکبر نیازی اور میرے ساتھی بھائی اصغر نیازی بھی چلے گئے۔ ہم صرف انتظار کرنے کے لئے رہ گئے ہیں۔
قومی کتاب میلے میں کسی نے کہا کہ آدمی عورت کو پسند کرتا ہے اسے کوئی زیادتی بھی عورت کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے۔ یہ بات میں سچے دل سے کہہ رہا ہوں کہ اسلام آباد میں نامور ادبی شخصیت اور شاعرہ عائشہ مسعود میری لیڈر اور بہت محترم ہے۔ میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے تین چیزیں پسند ہیں۔ سب سے پہلے جو نام لیا وہ عورت ہے۔ پھر فرمایا۔ خوشبو اور نماز ۔ یہ تینوں چیزیں اپنی اصل میں ایک چیز ہیں۔ یہ تینوں مؤنث ہیں۔ ہمیں عورت کی مدد کرنا چاہئے اور اس کا ذکر ہر لحاظ سے پازیٹو ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے یہ کیسی حقیقت ہے کہ کتاب بھی مؤنثہے۔
کتابوں کے سٹالوں پر بہت ہجوم تھا۔ زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کو دعوت بھی نہیں دی گئی تھی۔ آج سب کے لئے دعوت تھی۔ یہ لوگ جو یہاں تھے وہ مجھے صدر پاکستان سے زیادہ خوش قسمت لگے۔ ان کو سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ جو آئے جس کا جی چاہے۔ جب چاہے جب تک چاہے۔ گھومے پھرے۔
کتابوں کے انعامات بھی جاری تھے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے جس کا نام نکلتا وہ کتابیں لے کر چلا جاتا۔ بے مثال گلوکار اور دوست عدیل برکی نے خوب قرعہ اندازی کی۔ اس کی کوشش اور خواہش تھی کہ وہ پرچی نکل آئے جس پر میرا نام لکھا ہوا ہو۔ میں نے بھی قرعہ اندازی کی۔ اس آدمی کے نام کی پرچی نکل آئی جس نے مجھے سلام کیا تھا۔ میں اسے جانتا بھی نہ تھا۔
یہ بحث نجانے کس کتاب دشمن نے چلائی ہے کہ کتاب پڑھی نہیں جاتی۔ کتاب بکتی ہے تو چھپتی ہے۔ ورنہ ناشرین یہ کاروبار ہی کیوں کریں۔ افتتاحی اجلاس کے بعد تقریباً ایک سو کے قریب مختلف موضوعات کے لئے پروگرام تھے۔ کئی کمروں میں رونقیں لگی ہوئی تھیں۔
ہم نے زیادہ تر وہ پروگرام دیکھے جن میں عائشہ مسعود ہمیں لے گئیں۔ کتاب خوانی والے پروگرام میں ڈاکٹر صغرا صدف بھی تھیں۔ اس نے چند جملے بولے مگر خوب بولے۔ نجانے کونسا پروگرام تھا جہاں کسی نے عیش و عشرت کے لئے کیش و عشرت کی اصطلاح استعمال کی۔ بڑا مزا آیا۔ کچھ اچھی لڑکیاں جن کے نام مجھے یاد رہ گئے۔ میرے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔ کتاب کی کشش انہیں یہاں تک لے آئی تھی۔ یٰسین زہرا‘ دردانہ ‘ شہزادی‘ ماریہ کنول مجھے وہ لوگ زیادہ اچھے لگے جو کسی کے کہنے پر نہ آئے تھے خود بخود اپنے شوق میں آ گئے تھے۔
کشمیر کے لئے بھی پروگرام تھا۔ عائشہ مسعود کی کتاب اس حوالے سے قابل ذکر رہی۔ ’’کشمیر 2014 ء ‘‘ اس پروگرام کا موضوع ’’مسئلہ کشمیر تاریخی مناظر میں۔ عائشہ مسعود سٹیج پر موجود تھیں۔ ان کے ساتھ پروفیسر مقصود جعفری تھے۔ وہ گارڈن کالج راولپنڈی میں میرے کولیگ تھے۔ ان کا مضمون انگیزیہے۔ وہ دانشور آدمی ہیں۔ کمپیئرنگ کشمیری خاتون ادیب ساجدہ بہار نے کی۔ اس کی بہن آمنہ بہار نے خوبصورت گفتگو کی۔ میرپور سے پروفیسر نرجس افتخار نے بہت سلیقے سے مدثر اسلوب میں گفتگو کی۔ کم کم لوگوں کی باتیں میں اتنی گہرائی ہوتی ہے۔ دردمندی اور ہنر مندی کا ایک اشتراک سامعین کو مسحور کر رہا تھا۔ برادرم مقصود جعفری نے اچھی باتیں کیں۔ عائشہ مسعود نے اپنی کتاب ’’کشمیر۔ 2014 ئ‘‘ کے حوالے سے بڑے مدبرانہ انداز میں دل سے باتیں کیں۔ چناروں کی آگ سرد نہیں ہوتی۔ لفظ و خیال کے ذریعے جو آگ لگتی ہے وہ سرد نہیں ہوتی۔ اس میں جلنے کا مزا آتا ہے۔ ایک جملے میں سب کچھ ہے۔ کشمیر اور ضمیر ہم قافیہ ہیں اس زبردست محفل کے صدر آزاد کشمیر کے صدر تھے وہ نہ آئے۔ یہ سوال ہر کسی نے ہر کسی سے پوچھا۔ ہم صدر محفل پروفیسر مقصود جعفری کے شکر گزار ہیں۔ وہ آخری مقرر تھے کہ وہ ہمارے صدر تھے۔ یہ جملہ غالباً شہزاد ملک ظفر مغل یا آمنہ بہار نے کہا۔ کچھ لوگ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہونے دیتے۔ وہاں وردی والی لڑکی اچھی لگی تھی۔ وہ جلدی چلی گئی۔ باوردی لوگوں کو زیادہ ٹرسٹ ورزی ہونا چاہئے۔ یہ میرے گارڈن کالج پنڈی کے ساتھی دوست عبدالودود بھی محفل میں موجود تھے۔ محترم سردار خان نیازی چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان اسلام آباد بھی تھوڑی دیر کے لئے نظر آئے۔ اس شاندار پروگرام کے لئے ہم برادرم ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے شکرگزار ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن