وزیراعظم کالا باغ ڈیم کو سیاست کی نذر کرنے والوں کو بھی نہ چھوڑنے کا عزم باندھیں
عمران خاں کے ہاتھوں مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد ملک کی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کی جانب اہم پیش رفت
وزیراعظم عمران خان نے آٹھ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے مہمند ڈیم کا گزشتہ روز سنگ بنیاد رکھ دیا۔ دریائے سوات پر منڈا ہیڈ ورکس کے مقام پر واقع مہمند ڈیم کے سنگ بنیاد کی تقریب میں سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا سمیت متعدد حکومتی ، سیاسی اور عسکری شخصیات نے شرکت کی۔ پشاور سے 37 کلومیٹر شمال کی جانب ضلع مہمند میں شروع کئے جانے والے مہمند ڈیم میں مجموعی طور پر 12 لاکھ 93 ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی جس کے باعث سیلاب کے نقصانات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ڈیم کی تعمیر پر مجموعی 291 ، ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ اس ڈیم کی اونچائی 213 میٹر ہو گی اور اس سے روزانہ آٹھ سو میگاواٹ اور سالانہ 2662 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ ڈیم سے دائیں اور بائیں جانب نکلنے والے نہری نظام سے ضلع مہمند کی مجموعی طور پر 16 ہزار 667 ایکڑ بنجر اراضی کا شت کے قابل ہو سکے گی۔ اس ڈیم کی تعمیر کے باعث ضلع چارسدہ اور نوشہرہ کے زیادہ ترعلاقے موسمی سیلاب سے محفوظ ہو جائیں گے۔ مہمند ڈیم کی تعمیر 2024 ء تک مکمل ہو جائے گی۔
وزیراعظم عمران خاں نے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو ڈیمز کی تعمیر کا بیڑہ اٹھانے پر زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ڈیم بنانا عدلیہ کا نہیں ، حکومت کا کام ہوتا ہے۔ مگر ماضی کی حکومتوں کی غفلتوں کو دیکھتے ہوئے ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اٹھایا اور پانی کی قلت دور کرنے کے لیے ڈیمز بنانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہاکہ ملک تباہ ہی تب ہوتا ہے جب ملک کا سربراہ چوری کرتا ہے ۔آج چوری کر کے ملک کو نقصان پہنچانے والا کہتا ہے کہ مجھے علاج کے لیے بیرون ملک جانا ہے۔ ان کا ایک ہی مقصد این آر او لینے کا ہے لیکن اگر ہم نے این آر او دیا تو یہ قوم سے غداری اور اللہ سے بے وفائی ہو گی۔ یہ اپنی چوری بچانے کے لیے پارلیمنٹ اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہونے کی بات کرتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ مہمند ڈیم کی تعمیر مقررہ وقت پر اور مقررہ لاگت میں مکمل ہو جائے گی۔ ان کے بقول ڈیم کی تعمیر میں سب سے بڑی مشکل شفافیت کی ہے۔ ڈیم پر خرچ ہونے والی رقم کا عوام کو علم ہونا چاہئے۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا یہ مہمند ڈیم 54 سال پہلے بن جانا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اب ہم داسو اور بھاشا ڈیم کا پھر بہت جلد افتتاح کریں گے۔
بلاشبہ کسی قوم کی ترقی کا دار و مدار اس کی معیشت و زراعت کی ترقی پر ہوتا ہے جس کے لیے بنیادی ترجیح اپنے دستیاب وسائل کو بروئے کار لا کر خود کفالت کی منزل حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ خدا وند کریم نے بانی ٔ پاکستان قائد اعظم کو قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قوم کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی فہم و بصیرت بھی عطا کی تھی چنانچہ انہوں نے ہندو اور انگریز کی ملی بھگت سے وسائل سے محروم کر کے تشکیل دئیے گئے پاکستان کو اپنے پائوں پرکھڑا کرنے اور اس کی معیشت کو خودانحصاری سے ہمکنار کرنے کے لیے شروع دن سے ہی بطور گورنر جنرل اپنی حکومت کی ترجیحات متعین کر دیں۔ ان میں آبی ذخائر بڑھانے کی ترجیحات بھی شامل تھیں جس کے لیے انہوں نے ڈیمز کی تعمیر کے مقام کا آبی ماہرین اور انجینئروں کی معاونت سے خود انتخاب کیا جس میں کالا باغ کا مقام بھی شامل تھا۔ اس تناظر میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے خود بانی ٔ پاکستان نے پیش رفت کی تھی، بدقسمتی سے قائد اعظم کے انتقال کے بعد انگریز کے ٹو ڈی مفاد پرستوں نے ملکی سیاست پر غلبہ حاصل کر لیا اور تعمیر وطن کے لیے بانی ٔ پاکستان کی وضع کردہ ترجیحات بھی الٹا دیں۔ اس طرح قائد اعظم کی وفات کے بعد ملکی اور قومی ترقی کے بجائے تنزلی کا سفر شروع ہو گیا۔ ہمارے دشمن بھارت کو تو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت ایسی ہی صورتحال سوٹ کرتی تھی چنانچہ اس نے پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنے سازشی منصوبہ پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا۔ اس کی سازش زرخیز پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کر کے بھوکا پیاسا مارنے کی تھی اور اس مقصد کے تحت ہی اس نے کشمیر پر تسلط جمایا تاکہ اس کے راستے سے پاکستان آنے والے دریائوں کا پانی اپنے مقاصد کے تحت استعمال کرنے کی اسے کھلی چھوٹ مل سکے، اسی سازشی منصوبہ کے تحت بھارت سیلاب کے دنوں میں سارا پانی پاکستان کی جانب چھوڑ کر اسے سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے کرتا رہا جبکہ خشک موسم میں پاکستان آنے والے دریائوں کا پانی روک کر اس نے پاکستان کی زراعت کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی طے کر لی۔
ایسی بھارتی سازشوں کے توڑ کے لیے ہمیں اپنے دریائوں پر زیادہ سے زیادہ ڈیمز کی تعمیر کی ضرورت تھی مگر بھارت نے اپنے سازشی منصوبہ کے تحت پاکستان میں اپنے پروردہ ایجنٹوں کے ذریعے علاقائی اور قوم پرستی کے تعصبات کو ہوا دے کر انہیں ڈیمز اور پاکستان کی ترقی کے حامل دیگر منصوبوں کی مخالفت پر مامور کر دیا، چنانچہ اس بھارتی سازش کا پہلا شکار کالا باغ ڈیم ہوا جبکہ ملک کی معیشت کی ترقی اور توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اس ڈیم کی اشد ضرورت تھی۔ جنرل ایوب خاں کے دور حکومت میں اس ڈیم کے لیے ہوم ورک مکمل ہو چکا تھا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا سنگ بنیاد رکھا مگر اس کی تعمیر کا خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا کیونکہ بھارتی ایماء پر اے این پی نے صوبہ سرحد اور دوسرے نام نہاد قوم پرستوں نے سندھ میں اس کی مخالفت کا بیڑہ اٹھا لیا، اسے ڈائنامائیٹ سے اڑانے اور ’’ہماری‘‘ لاشوں سے گزر کر ہی یہ ڈیم تعمیر کرنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں چنانچہ منتخب جمہوری ادوار تو کیا جرنیلی آمروں کو بھی اس ڈیم کی تعمیر کے لیے پیش رفت کرنے کی جرأت نہ ہو سکی جبکہ پیپلز پارٹی نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں 18 ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کی خاطر اے این پی کے ساتھ کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے دینے کا سودا کر لیا، اس ہتھیار پر اے این پی کے لیڈران نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے آج کالا باغ ڈیم کی فائل دریائے سندھ میں بہا دی ہے۔
ہمارے لیے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایوب خاں کے دور حکومت تک ملک میں صرف سات ڈیم تعمیر ہو پائے تھے جن میں صرف دو بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا تھے مگر ان کی بھی مناسب دیکھ بھال نہ کی گئی چنانچہ ان میں جمع ہونے والی سلٹ نے ان کی پیداواری صلاحیت بھی بتدریج کم کرنا شروع کر دی جس کے باعث ملک میں ہائیڈل بجلی کی سخت سلٹ پیدا ہوئی اور توانائی کے سنگین بحران کا آغاز ہو گیا۔ یہ المیہ صرف ہمارے ساتھ ہی وابستہ ہے کہ یہاں ملک کے ترقیاتی منصوبوں پر سیاست کر کے انہیں متنازعہ بنایا جاتا رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم پر تو اتفاق رائے کا شوشہ ایسی ہی سیاست کی خاطرچھوڑا گیا حالانکہ ملک اور قوم کی ترقی کے حامل کسی منصوبے کو قومی اتفاق رائے کیساتھ مشروط کرنا عملاً ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ بھارت تو کالا باغ ڈیم کو متنازعہ بنانے کی سازش میں کامیاب ہو گیا جبکہ ہم توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران کے باعث اندھیروں میں ڈوب گئے اور بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ نے ملک کی صنعت بھی برباد کر دی۔ معمار نوائے وقت مجید نظامی نے اس فکر مندی کی بنیاد پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کیلئے قومی اتفاق رائے کی خاطر اس پر قومی ریفرنڈم کرایا جس میں خیبر پی کے کے عوام سمیت ملک کے 99-90 فیصد عوام نے کالا باغ کے حق میں ووٹ دیا مگر اس کے باوجود ہمارے حکمران اپنے پائوں پر کھڑے نہ ہو سکے جو ہماری مفاد پرستی کی سیاست کی نادر مثال ہے۔
جب 2011ء کے سیلاب میں نوشہرہ ڈوبا تو کالا باغ ڈیم کے مخالفین نے بھی اعتراف کیا کہ آج کالا باغ ڈیم موجود ہوتا تو نوشہرہ کے ڈوبنے کی کبھی نوبت نہ آتی، اس کے باوجود انہیں کالا باغ کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی جبکہ ملک میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے گرنے کے باعث آبی ماہرین یہ رپورٹیں دے چکے تھے کہ ہم نے پانی کے ذخائر نہ بڑھائے تو 2025ء تک ملک سخت آبی قلت کا شکار ہو کر قحط زدہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ یہی رپورٹ جب چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کے روبرو ایک ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پیش ہوئی تو انہوں نے اپنے ریمارکس میں آبی ذخائر کی عدم تعمیر پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا عزم باندھ لیا مگر مفاد پرستوں نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ نتیجتاً وہ بھی کالا باغ ڈیم سے دستکش ہو گئے اور اس کی جگہ دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھا لیا جس کے لیے انہوں نے سپریم کورٹ کا فنڈ قائم کر کے عوام بالخصوص سمندر پار پاکستانیوں سے اس فنڈ میں زیادہ سے زیادہ رقوم جمع کرانے کی اپیل کی اور پھر عطیات کی وصولی کیلے انہوں نے بیرون ملک کے دورے بھی کئے، ڈیمز کی تعمیر کے لیے ان کی شروع کی گئی اس مہم کے دوران ہی جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجہ میں ملک اور صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہو گئیں چنانچہ عمران خاں نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ کے قائم کئے گئے ڈیمز تعمیر فنڈ پر حکومت کا حصہ بھی ڈال دیا اور اوورسیز پاکستانیوں سے اس فنڈ میں ایک ایک ہزار ڈالر جمع کرانے کی اپیل کی چنانچہ اس فنڈ میں پاکستانیوں کے عطیات کی ریل پیل ہو گئی اور آج بالآخر مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا جس کے بعد یقیناً بھاشا ڈیم کی تعمیر کی بھی نوبت آ جائے گی تاہم اصل کرنے کا کام کالا باغ ڈیم سمیت ملک کی ضرورت کے مطابق ہر مطلوبہ ڈیم کی تعمیر کا ہے اور یہ کارنامہ بلاشبہ ملک کو ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست سے ہمکنار کرنے کا عزم رکھنے والے وزیر اعظم عمران خاں کے ہاتھوں ہی سرانجام پا سکتا ہے۔
انہوں نے گزشتہ روز اپنی تقریر میں ملک کی توانائی اور آبی ضروریات سے عہدہ براء ہونے کے لیے چین کی مثال دی اور بتایا کہ وہاں ملک کی ضرورت کے مطابق ہزاروں ڈیم تعمیر کئے گئے ہیں جن میں مہمند ڈیم کے حجم جیسے بھی سینکڑوں ڈیم ہیں۔ ہماری سلامتی کے خلاف سازشیں کرنے والے بھارت نے بھی زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرکے اپنی توانائی کی ضرورتیں پوری کی ہیں اور یہ کام تبھی ہو سکتا ہے جب قومی ترقی کے حامل کسی منصوبے کو سیاست کی نذر سے ہونے دیا جائے، وزیر اعظم عمران خاں کو یقیناً اس حقیقت کا ادراک ہے اس لیے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ آج کسی کرپٹ کو نہ چھوڑنے کا عزم باندھے ہوئے ہیں تو وہ قومی ترقی کے منصوبوں پر سیاست کرنے والوں کو پھر نہیں چھوڑیں گے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا پھر آغاز کر دیں گے۔ اس سے جہاں ملک شاہراہ ترقی پر گامزن ہو جائے گا وہیں عمران خاں کا قومی قائد کا تشخص بھی مزید مستحکم ہو جائے گا۔ آج پوری قوم ان کے لیے دعاگو ہے کہ انہوں نے مہمند ڈیم سے ملک کی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے منصوبوں کا آغاز کر دیا ہے۔ مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد کالا باغ ڈیم کے لیے سنگ میل بن سکتا ہے۔