شہباز شریف دو پارلیمانی عہدوں سے دستبردار
مسلم لیگ (ن) کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی نے پی اے سی کا چیئرمین اور پارلیمانی لیڈر تبدیل کرنے کی منظوری دے دی۔میاں محمد نواز شریف نے رانا تنویر حسین کو پی اے سی کا چیئرمین اور خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر نامزد کر دیا۔
شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کے لیے مسلم لیگ ن نے حکومت پر زور ڈالا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی اس کے شانہ بشانہ تھی۔ حکومت شہباز شریف کو یہ عہدہ دینے پر قطعی تیار نہیں تھی۔ان کوکسی بھی صورت پی اے سی کا سربراہ نہ بنانے کا متعدد بار اعلان کیا گیا مگر پارلیمان کو چلانے کے لیے شہباز شریف کو یہ عہدہ دینے پر بالآخرآمادگی ظاہر کرنا پڑی۔ اس کے بعد حکومت اس عہدہ سے شہباز شریف کو ہٹانے کے لیے بھی سرگرم نظر آئی۔ پارلیمانی پارٹی کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف شروع سے ہی پی اے سی کا چیئرمین بننے کے خواہاں نہیں تھے، شہباز شریف نے متحدہ اپوزیشن اور پارلیمانی ایڈوائزی گروپ کے اصرار پر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ قبول کیا تھا، اس وقت کے معروضی حالات کی بنا پہ تمام اپوزیشن جماعتوں اور پارلیمانی ایڈوائزی گروپ کا اصرار تھا کہ قائد حزب اختلاف کو ہی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ ہونا چاہئے۔ یہ بیان حقائق سے لگا کھاتا نظر نہیں آتا۔ شہباز شریف اس عہدہ پر آنے کے بعد پروڈکشن آرڈرز پر جیل سے اجلاسوں میں شریک ہوتے اور منسٹرز انکلیو میں رہائش پذیر رہے۔کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اس عہدے کا حصول اسی مقصد کے لیے تھا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے اعتماد میں نہ لینے پر تحفظات کا اظہار کیا گیاہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین سیاسی اختلافات دشمنی کی حد تک بڑھے ہوئے تھے، حالات دونوں کو قریب لے آئے تو ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا ہر صورت برقرار رہنی چاہئے۔ پی پی کی مشاورت کے بغیر مسلم لیگ ن کے پارلیمان کے اندر کے فیصلے ایک بار پھر دو پارٹیوں میں کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن خود بھی ان فیصلوں سے کمزور ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن 2000ء کی تاریخ دہراتی نظر آ رہی ہے جب پورا خاندان چپکے سے جدہ چلا گیا تھا۔ لیڈر شپ کا کام ورکرز کے درمیان رہ کر مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ شہباز شریف طبی معائنے کے لیے لندن گئے ہیں، ان کی غیر موجودگی میں ورکر گومگو کا شکار ہیں۔ انہوں نے دو عہدے سرنڈر کر کے ورکرز کو مایوس کیا۔ وہ یہ عہدے شروع میں قبول نہ کرتے تو بہتر تھا۔ اگر وہ جلد واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں تو اتنے بڑے فیصلوں کی کیا ضرورت تھی۔ بہرحال عوام و خواص کی زبان پر کئی سوالات ہیں۔ شہباز شریف کی جلد واپسی ہی پارٹی کے مفاد میں ہے۔