مہنگائی روکنے کیلئے تمام محکموں کو ملکر کام کرنا ہو گا، خسارے والے ادارں کی نجکاری کردینگے: مشیر تجارت
لاہور (کامرس رپورٹر) وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت ،ٹیکسٹائل، انڈسٹری، پیداوار وسرمایہ کاری عبد الرزاق دائود نے کہا ہے کہ قوی امکان ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین طے پانے والے آزادانہ تجارتی معاہدے پر جولائی 2019ء سے عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ بجٹ میں تیار مصنوعات کی درآمد پر ڈیوٹیز اور ریگولیٹری ڈیوٹی میں ہرگز کمی نہیں کی جائے گی تاہم صنعتی ترقی کیلئے آئندہ بجٹ میں خام مال کی درآمد پر ڈیوٹیز کم کرانے کیلئے منگل کے روز ایف بی آرحکام سے ملاقات ہو گی ، چین نے آزادانہ تجارتی معاہدے میں اپنی مارکیٹوں تک آسیان ممالک کی طرز پر رسائی دی ہے جس کا ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، خسارے میں چلنے والے اداروں کو فعال بنانا ہوگا، خسارے والے اداروں کا بوجھ اب نہیں اٹھائیں گے بلکہ انکی نجکاری کردی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایکسپو سنٹر میں پاکستان اور چین کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدے کے موضوع پر سیمینار سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں کیا۔ وفاقی سیکرٹری تجارت احمد نواز سکھیرا ،وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام ،چیمبرز اور مختلف ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔ عبد الرزاق دائود نے کہا کہ جاپان اور کوریا کی مارکیٹوں تک رسائی کیلئے بھی بات چیت کریں گے۔ 17جولائی کو جاپان جائوں گا اور اس کے بعد کوریا کا دورہ ہوگا۔ اگر پاک چین آزادانہ تجارتی معاہدے سے پاکستان کی کسی صنعت کو نقصان پہنچے گا تو ہم اس معاہدے کے تحت سیف گارڈز کو استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحتچین کو برآمد کی جانے والی لسٹ میں 313 مصنوعات کی چین کی سالانہ 64ارب ڈالر کی درآمدات ہیں ،اگر ہم اس میں سے 10فیصد شیئرز بھی حاصل کر لیں تو پاکستان کی برآمدات میں اچھا ضاصا اضافہ ہو سکتا ہے ۔اس وقت چین کی مجموعی درآمدات کا حجم 2.1ٹریلین ڈالرز ہے اور چین کے صدر کے مطابق 2023ء تک چین کی درآمدات کا حجم سالانہ 5ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ پاکستان کے پاس چین کو ٹیکسٹائل، لیدر ، سی فوڈ اور الیکٹرانکس سمیت دیگر سیکٹرز میں اپنی برآمدات بڑھانے کیلئے بہت بڑا موقع ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران ڈی انڈسٹرلائزیشن ہوئی جس کے نتیجے میں انڈسٹری بند ہو گئی اوربرآمدات میں کمی ہوئی لیکن سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس کا نوٹس ہی نہیںلیا ۔ ہم نے صرف باہر سے درآمد کرنے والی قوموںمیںشامل نہیں ہونا بلکہ ہمیں اپنی صنعتوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا ۔ پاکستان کو درآمدات کی بجائے اپنے ملک میں ہی ان اشیاء کی پیداوار شروع کرنی چاہیے ۔ٹریکٹر کی انڈسٹری کی مثال ہمارے سامنے ہے جو پاکستان میں تیار ہو رہا ہے اور پاکستان افریقی ممالک کو اس کی برآمد بھی کر رہا ہے جبکہ موٹر سائیکلز سمیت دیگر کئی اشیاء بھی پاکستان میں تیار ہوتی ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ خام مال کی قیمت نیچے لارہے ہیں۔ خام مال کی درآمد پر ڈیوٹیز پر کتنی کمی ہو گی ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ صنعتی الیسی پر کام ہو رہا ہے، مجھے کہا گیا تھاکہ 100روز میں صنعتی پالیسی بنا سکتے ہیں جس پر میں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ سی پیک منصوبے جو ’’جی ٹو جی ‘‘تھا وہ اب ’’بی ٹو بی ‘‘بن گیا ہے ،چین نے مختلف ممالک میں انڈسٹری قائم کی ہے اور اب اگلے مرحلے پر وہ پاکستان آئیں گے ، پاکستان میں سپیشل اکنامک زون ابھی تک مکمل نہیں ہیں تاہم چائنہ کے سرمایہ کار پاکستان میں جہاں بھی فیکٹری لگائیں گے انکی فیکٹری کو سپیشل اکنامک زون کا درجہ دوں گا۔ انجینئرنگ اور آئی ٹی سیکٹر میں پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے استعداد کار موجود ہے۔ عالمی مارکیٹ میں انجینئرنگ سیکٹر کا حجم 4.1ٹریلین ڈالر جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کا حجم 880ارب ڈالر ہے۔ عبدالرزاق دائود نے کہا کہ مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی بڑھ رہی ہے،مہنگائی کو روکنے کے لئے تمام محکموں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ حکومت ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس سے عوام کو فائدہ نہ پہنچے، عمران خان کا وژن عوام کو آسانیاں دینا ہے تاہم اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔