کراچی‘ لاہور اور فیصل آباد کو معاشی خودمختاری دی جائے‘ مصطفی کمال
کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان کے تین شہروں کراچی، لاہور ا ورفیصل آباد کوصوبے میں رہتے ہوئے انتظامی اور معاشی خود مختاری دی جائے،اگر کراچی کو انتظامی اور معاشی خود مختاری دے دی جائے، کراچی 8 ہزار ارب روپے اکٹھا کر سکتا ہے یہ پاکستان کو معاشی بد حالی سے نکالنے کا واحد حل ہے۔ان خیالات کا اظہار پی ایس پی کے چیئر مین سید مصطفی کما ل نے کراچی میں منعقد جنرل ورکرز اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پی ایس پی کے صدر انیس قائم خانی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور نیشنل کونسل کے زمہ داران بھی موجود تھے انہوں نے اس بات زور دیا کہ سینٹ کی طرز پر تمام صوبوں کی قومی نشستوں کی تعداد بر ابر ہونی چاہیے تاکہ ہرصوبہ وفاقی حکومت میں اپنے حصہ کا رول ادا کرسکے جس سے پاکستان کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔پی ایس پی نے 21جولائی کو باغ جناح کو جلسے کرنے کاا علان کر دیا ہے اس کے بعد اس شہر کسی کو جلسے کی کرنے کی ضروروت نہیں پڑے گی۔،عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے عوام کو ورغلہ کر نفرت و تعصب کے ساتھ صوبہ بنانے کی بات کی جاتی ہے۔ جب کہ یہ دونوں سیاسی بازی گیر جھوٹ اور مکر کرتے رہے ہیں پچھلے تیس سالوں سے۔جب جب صوبے کی بات کر تے پی پی والے اسمبلی میں مہاجروں کوگالیاں بکتے ہیں پھر ایم کیوایم والے مہاجروں کے پاس جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ سندھی مہاجروں کو گالیاں دے رہیں،اسی طرح پی پی پی والے بھی اندورن سندھ جاکر یہی کہتی ہے کہ مہاجر صو بہ بنا کر سندھ توڑنا چاہتے ہے وقت گواہ ہے میں پاکستان کو مسائل سے نکالنے کا حل بتا رہاہے، بہت برے حالات ہیں، پاکستان کا بجٹ نہیں بلکہ یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔ ہمارا وزیر خزانہ صرف اس کو پڑھے گا، آنے والے دن بجلی اور گیس کی سبسڈی غائب ہونے جارہے ہیں۔ ابھی تو مہنگائی کا ٹیلر تھا پوری فلم آنا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں لوٹی ہوئی رقم سے نہ ایک روپیہ واپس آیا ہے نہ آنے کی امید ہے، ملک کی جو دولت اب لوٹی جا رہی ہے وزیراعظم اس کرپشن کو روک لیں، ملک میں رشوت بڑھ گئی ہے، پاکستان کا خرچہ ساڑھے چھ ہزار ارب ہے جبکہ آمدنی چار ہزار ارب ہے، ہمارا بجٹ ہمیشہ خسارے میں ہوتا ہے، دنیا کب تک ہمیں قرضہ دیتی رہے گی۔ ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے ہونگے تاکہ خسارے پر قابو پایا جا سکے لیکن یہ بھینسیں یا وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں بیچنے سے ممکن نہیں ہوگا۔ ہماری درآمدات 55 ارب ڈالر کی ہیں جبکہ برآمدات 25 ارب ڈالر کی ہیں۔ 30 ارب ڈالر کی ادائیگیوں کا منفی توازن ہے جسے کم کرنے کیلئے 650 اشیاء جو کہ درآمد کی جاتی ہیں ان میں سے غیر ضروری چیزوں کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے جو تقریباً 500 کے قریب ہیں جس سے ملک کو 20 سے 25 ارب ڈالر تک کی بچت ہو سکتی ہے جبکہ دنیا بھر سے قرضے مانگ کر ہم زیادہ سے زیادہ 7 ارب ڈالر لا سکے، پھر ان میں سے ضروری اشیاء کی انڈسٹری ملک میں لگے گی جس سے زرمبادلہ بھی بچے گا اور لوگوں کو روزگار بھی ملے گا لیکن جب سابق وزیر خزانہ نے کوشش کی کہ ان اشیاء پر پابندی لگائی جائے تو مرکزی کابینہ کے لوگوں کے کاروبار اور فرمائشیں ہی آڑے آگئیں،جو ملک اپنے اخراجات پورے نہ کر سکے اور صرف قرضوں پر انحصار کرے اسکی عالمی برادری میں کیا عزت ہوگی۔