• news

سینٹ: وزرا کے نہ آنے پر اپوزیشن کا احتجاج، واک آؤٹ: حکومتی ارکان سے تلخ کلامی

اسلام آباد (نیوز رپورٹر) ایوان بالا میں وزیرداخلہ کی عدم موجودگی پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کر دیا۔ واک آئوٹ کے بعد کورم کی نشاندہی کر کے اجلاس ملتوی کرانے کی اپوزیشن کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ وزیر مملکت اپوزیشن کو منا کر لائے۔ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ وقفہ سوالات کے آغاز پر نکتہ اعتراض پربات کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ دس سوال وزارت داخلہ سے متعلق ہیں جن میں سے 9 سوالوں کے جواب نہیں آئے، اب ایک مکمل وفاقی وزیر داخلہ ہیں جو چھترول کرنا چاہ رہے ہیں، شاید سارے سوالوں کا چھترول ہوگیا ہے۔ بعد ازاں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر بہرہ مند تنگی نے دوبارہ وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ کی غیر موجودگی کا معاملہ اٹھایا جس پر قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ یہ ہر دو منٹ بعد کھڑے ہو جاتے ہیں، وزرا یہاں موجود ہیں آپ کو جواب سے مطلب ہے، آپ مسئلہ بنا لیتے ہیں، چیئرمین سینٹ نے کہا کہ وزیر کو بلائیں اور انہیں کہیں کہ آئندہ اجلاس میں آیا کریں۔ اس موقع پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان میں تلخ کلامی ہوئی جبکہ سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر شبلی فراز کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد اپوزیشن ارکان نے ایوان سے واک آٹ کر دیا۔ تاہم اس دوران حکومتی ارکان اپوزیشن کو منا کر واپس لے آئے۔ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا ہے کہ وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے سوالات کے جواب دینا کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہائوس بزنس ایڈوائزری میں سینٹ کو فعال بنانے پر اتفاق ہوا تھا۔ افسوس ہے کہ سابق چیئرمین سینٹ ہی اس سلسلے میں سب سے زیادہ اپوزیشن کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ کابینہ کا اجلاس جاری ہے لیکن ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے یہاں جواب دینے کے لئے موجود ہیں۔ جس کام کے لئے اپوزیشن یہاں آئی ہے وہ نہیں کر رہی اور نمبر بنانے اور میڈیا کو دکھانے کے لئے خواہ مخواہ اس معاملے کو اچھالا جا رہا ہے۔ سینٹ میں قائد ایوان شبلی فراز نے کہا ہے کہ اپوزیشن ایوان کی کارروائی کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ پچھلے دور میں بھی وقفہ سوالات کے دوران ہم نے دیکھا کہ ایک وزیر ہی جواب دینے کے لئے یہاں موجود ہوتے تھے۔ خواہ مخواہ ایک بات کو ایشو بنا لیا جاتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ملک ون یونٹ کی طرف جا رہا اور نہ ہی صدارتی نظام آ رہا ہے۔ سی پیک کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مہنگائی اور معاشی بحران کے ذمہ دار سابق حکمران ہیں۔ انہوں نے ملک کو لوٹا، بربادی چھوڑ گئے، دس سال میں معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی، معیشت کا جنازہ انہوں نے نکالا، آئی ایم ایف کے پاس پہلی بار نہیں جا رہے، سابق حکمران بھی 16 بار آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں، سی پیک اور نیوکلیئر پروگرام پر قومی اتفاق رائے ہے، انہیں کوئی خطرہ نہیں ۔ 18 ویں ترمیم رول بیک نہیں ہوگی۔ بہترین این ایف سی ایوارڈ آئے گا، وسائل کی تقسیم کی ذمہ داری ہم نبھائیں گے۔ ایوان بالا میں این ایف سی ایوارڈ کے اعلان میں تاخیر سے متعلق تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ دینا ہماری آئینی ذمہ داری ہے اور ہر پانچ سال بعد این ایف سی ایوارڈ آنا چاہئے لیکن سابق حکمرانوں نے اس کے لئے کچھ نہیں کیا، اسحاق ڈار کی سربراہی میں کمیٹی بھی بنائی گئی تھی لیکن اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، صوبائی حکومتوں سے کئی بار نامزدگیاں مانگی گئیں جن میں تاخیر ہوئی اور سب سے زیادہ تاخیر سندھ حکومت نے کی جو نامزدگی کرنے میں ناکام رہی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی طرف کیوں گیا ہے، گردشی قرضہ 1300 ارب روپے ورثہ میں ملے تو یقینی طور پر تشویش ہونی چاہئے، سرکاری اداروں کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے دور میں چند ایک کے سوا تمام سرکاری ادارے خسارے میں تھے۔ کیا شرح نمو صرف ہمارے سات ماہ میں کم ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے دوستوں نے ہماری مدد کی ہے لیکن اس کے باوجود گیپ تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جو این ایف سی ایوارڈ دیا تھا، اس میں صوبوں کے وسائل بہت بڑھائے گئے تھے۔ آخر کب تک ہم سمجھیں گے کہ اقتصادی معاملات پر پارٹی سیاست سے بالاتر ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں بھی کیا آئی ایم ایف کے کہنے پر وزیر لگائے گئے تھے۔ نئے گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر پاکستانی شہری ہیں اور اپنی اہلیت سے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں، زیادہ تنخواہ چھوڑ کر وہ کم تنخواہ پر یہاں آئے ہیں، اپوزیشن کو حب الوطنی کی ٹھیکیداری نہیں کرنی چاہئے۔ دوہری شہریت پر پابندی کا معاملہ پارلیمنٹ کا ہے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سینٹرز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فضل الرحمان کا مکمل تحفظ یقینی بنایا جائے۔ حکومت کی جانب سے ان کی سیکورٹی واپس لئے جانے کا فیصلہ قابل مذمت ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے سینٹ کو بتایا گیا کہ تین سالوں کے دوران ایف آئی اے میں 22736 مقدمات درج کئے گئے ہیں 15 کے قریب سائبر کرائم کے پولیس اسٹیشن ملک میں بن چکے ہیں۔ سینٹ کو بتایا گیا کہ سول آرمڈ فورسز کو تنخواہیں نہ ملنے کی اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں، ہرنائی ریلوے سیکشن مکمل طور پر تیار ہے، سیکورٹی کی وجہ سے ٹرینیں نہیں چلائی جا رہیں 1800 کلو میٹر ایم ایل ون منصوبے پر پیشرفت ہوئی ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پشاور سے کراچی تک ریلوے پھاٹک ختم ہو جائیں گے۔ خیبر پی کے میں بڑے بڑے بااثر افراد سے ریلوے کی زمینیں خالی کرائی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن