خواجہ آصف کی بجائے مراد سعید کو مائیک دینے پر اپوزیشن کا شدید ہنگامہ: سپیکر کا گھیراؤ
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے بلاول بھٹو زر داری کی تقریر کے بعد خواجہ آصف کی بجائے وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کو مائیک دینے پر شدید ہنگامہ کرتے ہوئے سپیکر ڈائس کا گھیرائو کرلیا ،اپوزیشن ارکان شدید نعرے بازی کرتے رہے ،سپیکر کی بار بار ہدایات کے باوجود ارکان باز نہ آئے اور سپیکر ڈائس کے سامنے ہٹنے سے انکار کر دیا،اپوزیشن کے شدید شور شرابہ سے بچنے کیلئے مراد سعید کو ہیڈ فون لگا کر تقریر کر نا پڑی ،ایوان" گو بے بی گو ـــ"کے نعروں سے گونج اٹھا ،اپوزیشن نے سپیکر کی رولنگ بھی نہ سنی جس پر سپیکر نے اجلاس دس منٹ کیلئے ملتوی کر دیا جبکہ مسلم لیگ (ن)پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دھمکی دی ہے کہ ہمیں موقع دیں ورنہ ہاؤس نہیں چلنے دیں گے۔ بلاول بھٹو زر داری کی تقریر کے دور ان حکومتی بنچوںسے حیا کرو ، حساب دو کے نعرے لگائے گئے جس پر سپیکر نے ارکان کو کراس ٹاک سے منع کیا تاہم ارکان بار بار بلاول بھٹو زر داری کی تقریر کے دور ان نعرے بازی کرتے رہے جبکہ وفاقی وزیر مرادسعید بلاول بھٹو کی تقریر پر نوٹس لیتے رہے ۔اس موقع پر حکومت اور اپوزیشن بینچوں سے ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائے گئے ۔بلاول بھٹو زر داری کی تقریر کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے جواب کیلئے وفاقی وزیر مراد سعید کو بولنے کا موقع دیا جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے سپیکر ڈائس کا گھیرائو کرلیا اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے گو نیازی گو اور نو نو کے نعرے لگائے ۔اپوزیشن ارکان نے سپیکر سے خواجہ محمد آصف کو تقریر کا موقع دینے کا مطالبہ کیا اور سپیکر کی ایک نہ سنی ۔احتجاج کے دوران وزیر دفاع پرویز خٹک اور وفاقی وزیرپارلیمانی امور محمد اعظم سواتی نے خواجہ سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی سے بات چیت کی تاہم معاملہ حل نہ ہوسکا ۔اجلاس کے دور ان وفاقی وزیر مراد سعید نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ابھی لاڑکانہ سے رکن قومی اسمبلی نے اظہار خیال کیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن خود بات کرتی ہے بعد میں سننے کی ہمت نہیں ہوتی۔انہوںنے کہاکہ بلاول سے امید تھی کہ وہ اپنے حلقے کے ایڈز کے کیسز پر بات کریں گے۔اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے ایوان میں احتجاج اور شور شرابہ جاری رکھا جس پر مراد سعید نے کہاکہ ان میں سننے کی ہمت نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ سندھ میں صاف پینے کے پانی خے مسائل موجود ہیں۔انہوںنے کہاکہ فالودے اور پکوڑے والوں کے اکائونٹس سے پیسے ٹرانسفر ہوتے ہیں۔اپوزیشن کے شدید شور شرابہ سے بچنے کیلئے مراد سعید نے ہیڈ فون لگا کر تقریر جاری رکھی۔مراد سعید نے کہاکہ فالودے والے کے اکائونٹ سے اربوں نکل آتے ہیں ،رائوانوار کی کہانی سب کے سامنے ہے۔ انہوںنے کہاکہ ان میں سننے کی ہمت ہی نہیں۔ مراد سعید نے کہاکہ قرض چھ ہزار اب سے بڑھ گیا،شّور شرابہ اس لیے کیا ان کو پتہ ہے انکی کارکردگی کچھ نہیں ۔انہوںنے کہاکہ یہ اپنی کرپشن کا این آر او مانگ رہے ہیں انہوںنے کہاکہ عمران خان ملک میں ریفارمز لا رہا ہے ۔انہوںنے کہاکہ ہم اپنی بات کر لیں گے ان کو نہیں بولنے دیتے۔ انہوںنے کہاکہ بلاول اور ایان علی کا پیسہ ایک ہی اکائونٹ سے آتا ہے ۔ اجلاس کے دور ان مراد سعید کی تقریر طویل ہونے پر شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف کی دھمکی دی کہ ہمیں موقع دیں ورنہ ہاؤس نہیں چلنے دیں گے۔خواجہ آصف نے کہاکہ ہم اس طرح ایوان نہیں چلنے دیں گے۔ جس پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے خواجہ آصف کو اپنی نشست پر جا کر بات کرنے ہدایت کی خواجہ آصف نے اپنی نشست پر جانے سے انکار کر دیا۔ سپیکر نے کہاکہ خواجہ صاحب آپ کو یہ سب زیب نہیں دیتا۔ اجلاس کے دوران پرویز خٹک نے خواجہ آصف کو منانے کی کوشش کی لیکن خواجہ آصف نے پرویز خٹک کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باعث سپیکر نے اجلاس کو نماز عصر کی ادائیگی کیلئے 10 منٹ کا وقفہ کر دیا۔ نماز عصر کے وقفہ کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو سپیکر اسد قیصر فلور خواجہ آصف کو دیا حکومتی ارکان نے نو ، نو کے نعرے لگائے۔ جس پر اجلاس جمعہ کی صبح 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان مسلم لیگ ن کے خوجہ آصف، شاہد حاقان عباسی اور دیگر رہنمائوں کو مناتے رہے مگر وہ نہیں مانے۔ سپیکر نے اپوزیشن ارکان کو اپنی سیٹوں پر جانے کی ہدایت کی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں بولنے دیا جائے ورنہ ایوان کی کاررورائی نہیں چلنے دیں گے۔ پی ٹی آئی رکن اسمبلی مراد سعید نے بلاول کی تقریر کے جواب میں کہا کہ ان کو سیاست کا کیا پتہ؟ ایک پرچی پکڑ کر آ گئے اور حادثاتی چیئرمین بن گئے۔ لاڑکانہ سے رکن اسمبلی بات کر رہے تھے مجھے اندازہ تھا کہ بلاول اپنے حلقے لاڑکانہ میں ایڈز کے کیس پر بات کریں گے یہ کیا بات کرتے، ان کی قابلیت کیا ہے؟ میں ایوان میں بلاول کی باتیں سننے نہیں آیا۔ سندھ میں سب سے زیادہ صاف پانی کا مسئلہ ہے، تھر میں بھوک اور افلاس کی وجہ سے 1500 بچے مر گئے، حساب لیا جائے تو پیسے پکوڑے والے کے اکائونٹ سے نکلتے ہیں۔ عمران خان پہلی بار نیشنل ایکشن پروگرام پر عملدرآمد کرا رہے ہیں ۔ سابق ایس ایس پی رائو نوار کس کا بہادر بچہ ہے بلاول جواب دیں۔دو ہزار ارب سندھ کو دیئے، پیسہ کہاں گیا؟ پاکستان میں سب سے زیادہ غربت سندھ میں ہیں۔ آصف زرداری نے بیرون ملک محلات بنائے،ان کے بیرون ملک پڑے مال کا جواب کون دے گا۔ عمران خان نے 4 ماہ میں فاٹا کی محرومیاں دور کی ہیں۔ انہوںنے کسی چور کو این آر او نہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بلاول بھٹو این آر او مانگ رہے ہیں، نہیں دیں گے۔ اگر یہ ہماری نہیں سنیں گے تو ہم ان کو بولنے نہیں دیں گے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرا اس میں کیا قصور ہے کہ ایان علی اور بلاول کے پیسے ایک ہی اکائونٹ سے آئے۔ کراچی میں غلط انجکشن سے بچی کی موت کا سوال کرنا تھا شور مچانا شروع کر دیا۔اے پی پی کے مطابق صوبہ خیبر پی کے میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے ازسرنو تعین کرنے کے حوالے سے دستور (ترمیمی) بل 2019ء قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کردیا گیا۔ محسن داوڑ نے تحریک پیش کی کہ دستور (ترمیمی) بل 2019ء زیر غور لایا جائے۔ قومی اسمبلی نے تحریک کی منظوری دے دی۔دریں اثناء مسلم لیگ نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت ایوان کے چلنے سے خائف ہے ہم نے کسی کو گالی نہیں دی ہم بجلی گیس مہنگائی معیشت اور بے روزگار پر بات کرنا چاہتے ہیں آئی ایم ایف کے پاس پاکستان کو گروی رکھا گیا ہم اس پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ سپیکر اپنے رویئے سے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ ہم بھیک نہیں اپنا حق مانگ رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ سپیکر نے بلاول کو تین بار ٹوکا اور ان کے الفاظ حذف کئے خوجہ آصف کو بھی بات نہیں کرنے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کس نے سپیکر کو خواجہ آصف کو بات نہ کرنے ینے کا اختیار دیا سپیکر سے درخواست ہے کہ آپ پر پریشر ہے۔ اس لئے استعفیٰ دے دیں آپ پر وزیراعظم دباؤ ڈالتا ہے تو آپ مستعفی ہو جائیں یہ ٹریلر ہے اگر بات نہ کرنے دی گئی تو فلم چلے گی۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے حکومت سے 15 دنوں میں فحاشی پھیلانے والی ویب سائٹس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی ویب سائٹس کو بند ہونا چاہئے۔
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز، نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران حکومت کی معاشی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی نااہلی کے باعث آئی ایم ایف عملی طور پر اس ملک پر حکمرانی کر رہی ہیبغیر کسی وارننگ کے ملک کے وزیر خزانہ کو ہٹا دیا گیا، اس کے بعد سٹیٹ بنک کے گورنر اور پھر ایف بی آر کے چیئرمین کو برطرف کر دیا گیا۔ اس حوالے سے اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ آئی ایم ایف اس ملک کے اہم فیصلے کر رہا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان تھے۔ اس پر 9 روپے فی لٹر اضافہ کرکے پیٹرول بم گرا دیا گیا۔ ، پیٹرول مہنگا، گیس مہنگی، بجلی مہنگی، ملک میں مہنگائی آسما ن سے باتیں کررہی ہے، ملک کی یہ معاشی صورتحال حکومت کی نااہلی کے باعث ہوئی ہے،آئی ایم ایف سے حکومت نے جو بھی ڈیل کی ہے ہم اسے نہیں مانیں گے، اس وقت ملک کے عوام مہنگائی کے سونامی کا سامنا کر رہے ہیں، مزدوروں ، کسانوں اورعوام کا معاشی قتل ہو رہا ہے اور یہ سب کچھ ان حکمرانوں کی نااہلی کے باعث ہو رہا ہے، یہ کس قسم کا نیا پاکستان ہے، میں تو یہ کہوں گا کہ ملک میںپی ٹی آئی آئی ایم ایف کی حکومت بن گئی ہے، آئی ایم ایف نے ہمارے ملک کے سٹیٹ بنک پر قبضہ کر لیا ہے، ہمناری خود مختاری چھین لی گئی ہے۔ ہم بھی آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے مگر عوام کے مفاد پر سودے بازی نہیں کی تھی۔ ہمارے دور میں پنشنروں کی پنشن میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ ہم نے6.8ملیئن جاب دیئے ۔حکومت ملک کے صنعتکاروں اور بڑے بزنس مینوں سے لے کر چھوٹے تاجروں کو نیب اور ایف آئی اے کے ہاتھوں ہراساں کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں،نیب گردی، اور سیاسی مخالفت کا نقصان ملک کو ہو رہا ہے۔ ملک میں دو ملیئن لوگ ٹیکس دیتے ہیں، باقی198ملیئن کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ہراساں اور پریشان کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے کہ رہی ہے کہ ملک میں ریونیو بڑھانے کیلئے ٹیکس ریفارمز لانا ہوں گی مگر یہ سب کچھ یہ ناہل حکمرانوں کے بس کی بات نہیں۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق بلاول نے کہا ہے کہ وزیراعظم تعیناتی سے پہلے نہ وزیر خزانہ سے ملتے ہیں نہ ہی گورنر سٹیٹ بینک سے۔عوام مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری پارلیمنٹ سے نہیں لی گئی تو ہم یہ ڈیل نہیں مانیں گے۔ وہ وزراء جن کا کالعدم جماعتوں سے تعلق ہے انہیں فوری فارغ کیا جائے۔ حکومت کے پاس کوئی وژن ہے نہ پلان۔ عوام کی جیب اور پیٹ خالی ہے۔ حکومت مارتی بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتی۔ بلاول کی طرف سے ظالم حکومت کا لفظ استعمال کرنے پر سپیکر نے اعتراض کیا۔ بلاول نے کہا کہ سپیکر صاحب آپ کو سچ حذف نہیں کرنا چاہئے یہ پرانا پاکستان ہے ضیا والا پاکستان ہے، یہ کس قسم کی منافق حکومت ہے۔ بلاول نے حکومتی ارکان کو مخاطب کرکے جملہ کسا کہ آپ لوگ اتنے ڈھیٹ کیوں ہیں؟ سپیکر نے کہا کہ منافق اور ڈھیٹ لفظ حذف کرتا ہوں،بلاول نے کہا آپ سندھ حکومت سے ٹیکس کلیکشن سکیمیں سندھ واحد صوبہ ہے جہاں ٹیکس کلیکشن ہو رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ صوبے وفاقی حکومت کی وجہ سے دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ خیبر پی کے میں اربوں روپے حکومت نے قبضے میں لے رکھے ہیں، آپ پنجاب کے اربوں روپے کھا گئے ہو، شکر ہے سندھ واحد صوبہ ہے جو ٹیکس کے لحاظ سے کارکردگی دکھا رہا ہے۔ نیب گردی اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ آج ہم سب جاتنے ہیں کہ ملک میں نہ کوئی بزنس مین کام کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ بیوروکریٹ۔ پرویز خٹک صاحب آپ میری تقریر سنیں آپ کے کام آئے گی۔ پروفیسر ڈاکٹرز کے ساتھ نیب کا سلوک سب نے دیکھا۔
اسلام آباد ( محمد فہیم انور /نوائے وقت نیوز) ایک طویل عرصے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن ) نے اپنی موجودگی کا احساس اس وقت دلایا جب سپیکرکی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے نامزد پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کو نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت نہ دینے پر لیگی ارکان نے ایوان سر پر اٹھا لیا۔ گو نیازی گو اور گو بے بی گو کے نعروں سے ایوان گونج اٹھا۔ حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی سے ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔سپیکر،وفاقی وزراء اور حکومتی ارکان بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے ۔ اس دوران اگر چہ سپیکر نے حالت کو کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی اور وہ بار بار خواجہ آصف اور دیگر ارکان کو اپنی نشست پر جانے کی ہدایت کرتے رہے مگرانہوں نے سپیکر کی ایک نہ سنی اور اپنا احتجاج جاری رکھا ۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے رہے مگر ان کی جانب سے کوئی نعرہ بازی نہیں ہوئی۔ دوسری جانب لیگی ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر مسلسل احتجاج کرتے رہے۔ اس احتجاج میںخواجہ آصف اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پیش پیش رہے،سپیکر نے جب وفاقی وزیر مراد سعید کو ہدایت کی وہ اپنی تقریر جاری رکھیں تو لیگی ارکان خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں سپیکر ڈائس کے گرد کھڑے ہو گئے اور مسلسل نعرے بازی کرتے رہے۔جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران توجہ دلائو نوٹس اور قانون سازی کے مراحل کے بعد جب بلاول بھٹو زرداری نے نکتہ اعتراض پر کھڑے ہوکر حکومت کی معاشی پالیسیوں سمیت حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تو اپوزیشن ارکان نے بار بار ڈیسک بجائے۔ ایک مرحلے پر انہوں نے ظالم حکومت کہا تو سپیکر اسد قیصر نے" ظالم" کا لفظ حذف کرا دیا۔ ایک اور مرحلے پر بلاول بھٹو نے جب حکومت کے حوالے سے کہا کہ حکومت منافقت سے کام لے رہی ہے تو بھی سپیکر نے منافقت کا لفظ ہذف کرا دیا۔ جس پر بلاول بولے جناب سپیکر یہ تو اردو کالفظ ہے، یہ تو کوئی غیر پارلیمانی لفظ نہیں اس پر ایوان کشت زعفران بن گیا۔بلاول نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا کہ اسے انگریزی میں ہیپو کریسی کہتے ہیں ، ۔ حکومت …… کریسی سے کام لے رہی ہے۔کیا یہ نیا پاکستان ہے، بلاول کی تقریر کے دوران حکومتی بنچوں سے بار بار مداخلت ہونے پر سپیکر نے متعدد بار حکومتی ارکان کو"نو کراس ٹاک" کہتے ہوئے منع کیا۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نیا پاکستان نہیں جس میں تنقید برداشت سے باہر ہے ، ہمیں تو یہ وہی پرانا آمرانہ پاکستان دکھائی دے رہا ہے جو ہم نے ضیا دور میں دیکھا تھا۔بلاول کی تقریر کے دوران ایک بار پھر حکومتی بنچوں سے مداخلت اور کراس ٹاک ہونے پر بلاول نے ان کی طرف رخ کرکے کہا کہ "آپ لوگ اتنے ڈھیٹ کیوں ہو"۔ جس پر سپیکر نے بلاول سے کہا کہ آپ چیئر کو ایڈریس کرو۔جب سپیکر نے بلاول سے کہا کہ وہ اپنی تقریر سمیٹیں تو بلاول نے بے ساختہ کہا کہ برائے کرم آپ سنیں اور کچھ سیکھ لیں۔ اور کچھ نہیں تو سندھ حکومت کی گورنس سے ہی سیکھ لیں کہ امور حکومت کس طرح چلائے جاتے ہیں ۔ بلاول کے ان ریمارکس پر اپوزیشن ارکان نے زوردار ڈیسک بجائے۔