چین کے سامنے ایک اور دیوار چین
چین میں پہلے سے ایک دیوار چین موجود ہے اور اسے دنیا کے عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ مگر اب چین کے سامنے ایک اور دیوار کھڑی کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ دیوار چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو کو روکنے کے لئے کھڑی کی جا رہی ہے۔ چین کی پلاننگ یہ ہے کہ وہ دنیا کے تین براعظموں کو باہم تجارتی روابط میں منسلک کرے مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ چین کی اس آرزو کو پورا نہ ہونے دینے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا تا رہا ہے۔ مگر جب یہ ساری سازشیں ناکام ہوتی نظر آئیں تو اب حربہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ادھر چین میں اس کے عالمی تجارتی منصوبے پر ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں پاکستان سے وزیراعظم عمران خان نے نمائندگی کی۔ اس کانفرنس کی گونج ابھی سنائی دے رہی تھی کہ سری لنکا سے دھماکوں کی گونج سنائی دی۔ اور سینکڑوں لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ سری لنکا کی بندر گاہوں تک چین رسائی حاصل کر رہا ہے۔ اس لئے اس دہشت گردی کی وجوہات سمجھنے میں ذہن پر زیادہ زور نہیں لگانا پڑا۔ چین کا ایک تجارتی روٹ برما سے گزرتا ہے، سری لنکا کے بعد اس ملک کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ ابھی دنیا سوچ ہی رہی تھی کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ پاکستان میں تواتر کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات رونما ہو نے لگے۔ ہم لوگ تو دہشت گردی کو قصہ پارینہ سمجھ بیٹھے تھے اور سکون کی نیند کے مزے لے رہے تھے کہ افغانستان سے دہشت گردوں نے پاک فوج کے ایک دستے پر ہلہ بول دیا۔ یہ ایک خونیں واردات تھی۔ ابھی اس خون کے دھبے صاف نہیں ہوئے تھے کہ پاکستان کے دل میں داتا دربار کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، اس درگاہ پر پہلے بھی دہشت گردی کا ارتکاب کیا جا چکا ہے مگر یہ زخم پرانے ہو گئے تھے بلکہ مندمل ہو گئے تھے اور لوگ پاک فوج کو دعائیں دے رہے تھے جس کی بے مثال قربانیوں کے طفیل پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
چین بھی سوچ رہا ہو گا کہ وہ تو تین بر اعظموں کو ملانا چاہتا ہے مگر یہ کون ہیںجو رکاوٹیں کھڑی کرر ہے ہیں۔ ان سازشی عناصر تک پہنچنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے۔ اسوقت عالمی تجارت پر صرف امریکہ ا ور یورپ کی اجارہ داری ہے، یہ کیسے برداشت کریں گے کہ ان کی اجارہ داری کو چیلنج کیا جائے۔ چین تو اس اجارہ داری کا خاتمہ چاہتا ہے تو اس کا گناہ بہت بڑا ہے اور اس کی سزا ابھی بہت بڑی دی جا رہی ہے اور بے گناہ لوگوں کو دی جا رہی ہے۔
روک سکتے ہو تو روک لو ۔ چین آ رہا ہے۔
اور چین کو روکنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ سب کچھ کیا گیا۔ ہاتھ سے۔ زبان سے۔ قلم سے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔
پاکستانیوں کو چین سے متنفر کرنے کے لئے کہا گیا کہ گوادر کی بندر گاہ کاسودا بہت سستا کیا گیا ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ گوادر پر چین کا مکمل کنٹرول ہو گا۔ پاکستانی کرنسی وہاںنہیں چلے گی۔ صرف چینی کرنسی چلے گی۔ پاکستان کے صوبوں کو بھڑکایا گیا کہ سی پیک سے سب کچھ پنجاب کو مل رہا ہے۔ باقی صوبے محروم رکھے گئے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ملک کے تین صوبوں کے وزرائے اعلی نے کھل کر سی پیک کی مخالفت میں بیانات دینے شروع کردیئے۔ چین سمجھدار تھا۔ اس نے نواز شریف سے کہا کہ سبھی وزرائے اعلی کو ایک جہاز میں بٹھائو اور ہمارے پاس لے آئو، خیبر پی کے۔ سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ساتھ چینیوں کے سامنے بیٹھے اور جس نے جو مانگا۔ چین نے دینے کا اعلان کر دیا۔ اب نئی حکومت آئی ہے ۔ اس کے ایک مشیر نے کہہ دیا کہ سی پیک کو چند برسوں کے لئے ملتوی کر دیں گے۔ چین سمجھ گیا اور اس نے کہا کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ تمام معاہدوں پر نظرثانی کرنے کو تیار ہے۔ ممکنہ طور پر یہ کام ہو چکا ہے۔ اس لئے ملک میں سی پیک کے خلاف زبانی کلامی شور شرابہ ختم ہے مگر نئے ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں بلوچستان میں خون خرابہ بڑھ گیا ہے۔ سی پیک کا مغربی روٹ قبائلی علاقوں سے گزرے گا۔ اس لئے وہاں پی ٹی ایم نے شورش برپا کر دی ہے۔ ملک میں امن و امان کی حالت اطمینان بخش تھی۔ اب اسے تہہ و بالا کرنے کے لئے دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا گیا ہے۔
مگر چین پھر بھی کہتا ہے کہ روکنا ہے تو روک لو، چین آ رہا ہے۔اب اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ پہلے یہ بلیم گیم صرف سوشل میڈیا تک محدود تھی۔چینیوں کو بلیم کیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ شادی رچاتے ہیں۔ اور انہیں چین لے جا کر ان سے دھندا کراتے ہیں۔ چینیوں پر اس سے زیادہ گھٹیا الزام نہیں لگایا جا سکتا تھا سو ہم نے لگا دیا ، اسے خوب پھیلا دیا۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک شخص شادی کرتا ہے تو اسے ہم کس طرح انسانی سمگلنگ کے لیے موردا لزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ دوسرے یہ بتایا جائے کہ ہماری بچیاں چین کے علاوہ بھی درجنوں ممالک میں بیاہ کر لے جائی جاتی ہیں۔ اور ان میں سے بعض کو شکایات بھی پیدا ہوتی ہیں اور وہ بھی پاکستانی اور مسلمان لڑکوں ہی سے۔ اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ذرا ہم اپنے گریبان میں تو جھانکیں کہ خود ہمارے گھروں میں جو دلہنیں آتی ہیں، کیا ان سب سے ہم انصاف کا سلوک کرتے ہیں، کیا ان میں سے اکثر کی زندگیاں اجیرن نہیں کی جاتیں۔ مجھے چین کی کوئی صفائی پیش نہیں کرنی مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوںکی چین کو پاکستان سے بھگانے کے لئے ہر گھٹیا حرکت کی جا سکتی ہے۔ ہمیں تو حکم تھا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے اور ادھر خود چین ہمارے پاس آ رہا ہے تو ہمیں تکلیف لاحق ہے۔ دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ۔ پردے کے پیچھے چھپے ہوئے دشمن کوپہچاننے کی کوشش کریں، چین کو وہی الزام دیں جس کا وہ قصور وار ہے ورنہ ہمارے بزرگوںنے ایسٹ اینڈیا کمپنی بھی بھگتی اور بڑے بوڑھے آج بھی کہتے ہیں کہ انگریز کا دور سنہری تھا۔ تو اب آزما لیجئے کہ چین کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا تجربہ کیسا رہا۔ آزمانے میںہرج کیا ہے۔
ورنہ چین تو آ رہا ہے۔ روک سکتے ہو تو روک لو۔ چین آ رہا ہے۔