شاہ دوست کا پاکستان اور احسان مانی کا پاکستان اور!!!!!
چند روز قبل برادرم اکرم چودھری نے انہی صفحات پر پٹرول کی قیمت میں اضافے، مہنگائی، مالدار اور کم قوت خرید رکھنے والوں کے حوالے سے بہت عمدہ کالم لکھا۔ انہوں نے وزیراعظم کے وژن "دو نہیں ایک پاکستان" کے موضوع پر خیالات کا اظہار کیا۔ کالم نگار نے وزیراعظم کو محدود وسائل کے حامل پاکستانیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا مشورہ دیا تھا۔ کیونکہ حقیقی معنوں میں یہی لوگ پاکستان کے حقیقی نمائندے ہیں اور انہوں نے تبدیلی کے سفر میں عمران خان کا بہت ساتھ دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا وژن ایک پاکستان ہے۔ جہاں ہر پاکستانی کو یکساں صلاحیتوں کے اظہار کے یکساں مواقع، انصاف، صحت اور تعلیم سمیت تمام سہولیات کی یکساں فراہمی نظر آتی ہے۔ کیا حکومت اس وزیراعظم کے اس خواب کو تعبیر دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کو اس مقصد میں ابھی تک نمایاں کامیابی نہیں مل سکی۔ آج بھی دو پاکستان نظر آتے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں سترہ اپریل کی گورننگ بورڈ میٹنگ کے بعد حالات معمول پر نہیں رہے۔ کرکٹ بورڈ کی راہداریوں میں ہر کوئی پریشان پریشان نظر آتا ہے۔ سب اپنا آپ بچا رہے ہیں، ہر کوئی دوسرے کی جاسوسی میں لگا ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کرکٹ کا ہیڈ کوارٹر نہیں کسی حساس ایجنسی کا دفتر ہے۔ جب سے مختلف ریجنز سے تعلق رکھنے والے منتخب افراد نے بادشاہ سلامت کے حکم کو ماننے سے انکار کیا ہے تب سے ان منتخب افراد کے ساتھ انتہائی سخت برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ بورڈ حکام نے نعمان بٹ کے دو ساتھیوں شاہ دوست اور کبیر خان کو توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن دونوں اپنے موقف پر قائم رہے یہی وجہ ہے کہ اب انکے پرانے کیسوں کو کھولا جا رہا ہے۔ کوئٹہ ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر شاہ دوست کہتے ہیں کہ بلوچستان کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، صوبے کے نوجوانوں سے انکے کھیلنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمارے ساتھ ہونیوالی ناانصافی کا نوٹس لیں۔ کوئٹہ ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے ایک نوجوان کرکٹ منتظم کی ملک کے بڑوں مداخلت کی اپیل انتہائی مجبوری کے عالم میں ہے۔ یہ بات اس سطح پر کیوں پہنچی کہ منتخب نمائندوں کو بیک جنبش قلم اجنبی بنا دیا گیا ہے۔ بالخصوص بلوچستان کے نمائندوں کو ذاتی رنجش کا نشانہ بنانا تکلیف دہ امر ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ بلوچستان میں اپنی کارکردگی پر نظر دوڑائے، اگر کارکردگی معیار ہے تو بلوچستان میں کرکٹ کے تباہ حال بنیادی ڈھانچے کو دیکھا جائے تو پی سی بی میں برسوں سے کام کرنیوالوں کے پاس عہدوں پر باقی رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں بچے گا۔ بلوچستان میں جو تھوڑی بہت کرکٹ ہوتی ہے وہ ان مقامی منتظمین کی بدولت ہے۔ ان کو ذاتی اختلافات کی وجہ سے نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ سب سترہ اپریل سے پہلے تک ٹھیک تھے۔ قراداد کوئٹہ پیش ہونے کے بعد اتنے برے ہو گئے ہیں کہ ہر روز انہیں کوئی نوٹس جاری ہو رہا ہے، ہر روز پیشیاں ہو رہی ہیں، کرکٹ میدانوں سے زیادہ عدالتوں اور پارلیمنٹ میں ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہ منتخب نمائندے کرکٹ بورڈ کے ماتحت ہیں۔ کمزور بھی ہیں اور علاقائی کرکٹ کو چلانے کے لیے بورڈ کے محتاج بھی، یہی وجہ ہے کہ انکی مجبوریوں سے فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے۔ ان مجبور منتظمین نے جب اپنے علاقوں کے کرکٹرز کے لیے آواز بلند کی تو بادشاہ سلامت کو ناگوار گذرا۔ ان منتظمین کو زبان تو وزیراعظم نے دی ہے، عمران خان کاوژن ہے کہ ایک پاکستان، عمران خان کا وژن ہے کہ طاقتور اور کمزور برابر ہیں ان باتوں سے متاثر ہو کر سیالکوٹ، کوئٹہ اور فاٹا کے صدور ابھی تک اپنے موقف پر قائم ہیں کہ محکمہ جاتی اور علاقائی کرکٹ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ آج بھی عمران خان کے دور حکومت میں ایک پاکستان کو تلاش کر رہے ہیں۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی احسان مانی کا پاکستان اور ہے اور شاہ دوست کا پاکستان اور ہے۔ احسان مانی کے پاکستان میں آئین کی خلاف ورزی اور خزانے کا ضیاع نظر آتا ہے۔ احسان مانی کے پاکستان میں آئین کی خلاف ورزی ہے، اپنی ذات پر چند ماہ میں کئی ملین کا خرچہ ہے، احسان مانی کے پاکستان میں کمزوروں کے خلاف کارروائی ہے جبکہ طاقتوروں کو عہدے دیے جا رہے ہیں، شاہ دوست کے پاکستان میں آئین کے تحفظ کی بات ہے، شاہ دوست کے پاکستان میں قومی خزانے کے تحفظ کی بات ہے، شاہ دوست کے پاکستان میں نوجوانوں کے مستقبل کی بات ہے۔ شاہ دوست کے پاکستان میں کمزوروں کے حقوق کی بات ہے، شاہ دوست کے پاکستان میں ملکی کرکٹ کی ترقی کی آواز ہے، شاہ دوست کے پاکستان میں پاکستان کے مفادات کی بات ہے، شاہ دوست کا پاکستان عام کرکٹر کا پاکستان ہے، شاہ دوست کے پاکستان وسائل سے محروم پاکستانیوں کی آواز سنائی دیتی ہے، شاہ دوست کے پاکستان میں ملک کا درد پے، شاہ دوست کے پاکستان میں آئین کی بالادستی کی جدوجہد ہے۔ یہی حقیقی پاکستان ہے۔ جس میں ایک عام پاکستانی کے مسائل کی بات، جسمیں وسائل سے محروم پاکستانی کے لیے احتجاج ہے، جس میں اپنے صوبے کی کرکٹ کے معیار کو بلند کرنے کی آواز ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کب تک اس آواز کو دبا سکتا ہے، کب تک طاقت کے استعمال سے بلوچستان کے کرکٹرز کو ان کے حق سے محروم رکھ سکتا ہے، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں کوئی کوئٹہ کا کوئی کھلاڑی نہیں ہے تو اسکا ذمہ دار کوئی اور نہیں پاکستان کرکٹ بورڈ ہے۔ کیونکہ پی سی بی نے کبھی اس اہم صوبے کو وہ اہمیت ہی نہیں دی جس کا وہ حقدار ہے۔ اب شاہ دوست اپنے صوبے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں تو انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا نئے اور ایک پاکستان میں بھی پرانی کارروائیاں جاری رہیں گی؟؟؟