آئی ایم ایف کا پیکیج زیادہ سے زیادہ فلاحی منصوبوں پر خرچ کرکے عوام کو مطمئن کیا جاسکتا ہے
وزیراعظم کی مذاکراتی ٹیم کو آئی ایم ایف کی شرائط نرم کرانے کی ہدایت اور قوم کو اچھے وقت کیلئے انتظار کی تلقین
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ انہیں مہنگائی کا احساس ہے‘ جلد حالات بہتر ہونگے‘ قرضوں سے نجات اور سسٹم میں بہتری کیلئے کچھ انتظار کرنا ہوگا‘ قوموں پر اچھے برے وقت آتے رہتے ہیں تاہم ملکی وسائل کو دیانتداری سے استعمال کرکے ہی بحران سے نکلا جائیگا۔ گزشتہ روز راولپنڈی میں نئے چائلڈ اینڈ مدرکیئر ہسپتال کے زیرالتواء منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے عوام سے جو وعدے کئے انکے مطابق ہی لوگوں کو صحت‘ روزگار‘ تعلیم کی سہولتیں ملیں گی۔ اس سلسلے میں منصوبوں پر کام شروع ہوچکا ہے جن کے ثمرات جلد عوام تک پہنچنا شروع ہو جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ جب قرضے چڑھتے ہیں تو مہنگائی ہوتی ہے‘ پاکستان امیر ملک ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اسے بہت نوازا ہے‘ پاکستان جلد عظیم ملک بنے گا۔ انکے بقول گیس پر 150‘ ارب روپے کے قرضوں کی وجہ سے گیس مہنگی کرنا پڑی ہے‘ ہم سات لاکھ 20 ہزار روپے کا صحت انصاف کارڈ غریبوں کو جاری کررہے ہیں جبکہ ’’احساس‘‘ پروگرام کے تحت بے گھر لوگوں کیلئے پناہ گاہیں بنائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے عام آدمی کی مشکلات ختم کرنے کیلئے خود ذمہ داری لے رکھی ہے۔ مہنگائی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ماضی میں حکمران قرضے لے کر وقت گزارتے رہے‘ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ملک پر ہزار ارب کا قرضہ تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیانتداری کے ساتھ ملکی وسائل کو استعمال کیا جائے‘ انشاء اللہ جلد پاکستان بحرانوں سے نکل آئیگا۔
دوسری جانب پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری بیل آئوٹ پیکیج کے بارے میں مذاکرات کا توقع کے برعکس کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔ چنانچہ آئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم کا پاکستان میں قیام بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ روز سٹاف لیول پر معاہدہ ہونا تھا مگر بعض پروگراموں پر اتفاق رائے نہ ہو سکا جس پر بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں شریک پاکستانی ٹیم نے اس سلسلہ میں گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں پروگرام کی ممکنہ شرائط سے آگاہ کیا تاہم وزیراعظم نے ٹیم کو ہدایات دیں کہ آئی ایم ایف سے شرائط نرم کرائی جائیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے 1965ء میں قرضہ لینے کا آغاز کیا تھا اور 2016ء تک اس عالمی مالیاتی ادارے سے مجموعی 53,3778 ارب روپے کا قرضہ لیا جا چکا ہے۔ ایوب خان کے دور میں پہلا قرضہ 37.5 ملین روپے کا حاصل کیا گیا‘ دوسری بار ایوب خان ہی کے دور میں 1968ء میں 75 ملین روپے کا قرضہ لیا گیا جبکہ پیپلزپارٹی نے اپنے پہلے دور میں 1973ء میں 74 ملین اور 1977ء میں 230 ملین روپے کا قرضہ لیا۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے قرضے کا یہ تسلسل ضیاء الحق کے دور میں بھی برقرار رہا اور 1980ء میں 1.2‘ ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا جبکہ اسی سال دوبارہ 919 ملین ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ پیپلزپارٹی نے بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں 1994, 1988ء اور 1995ء میں مجموعی 1.8213‘ ارب روپے کا قرضہ لیا جبکہ میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں 1997ء میں 1.13‘ ارب ڈالر کا آئی ایم ایف سے قرضہ لیا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کے قرضے پر تکیہ کیا اور 2000ء اور 2001ء میں ایک ارب 465 ملین ڈالر کا قرضہ لیا۔ پھر پیپلزپارٹی نے آصف علی زرداری کے دور حکومت میں 2008ء میں اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف سے رجوع کیا اور 7.2‘ ارب ڈالر کا قرضہ لیا جبکہ میاں نوازشریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں بھی آئی ایم ایف کے قرضے کو ملکی معیشت کا سہارا بنایا اور 2013ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد 4.3‘ ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ انہوں نے 2014ء اور 2015ء میں بھی مجموعی 24.9‘ ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ اب کشکول توڑنے کے اعلانات کے باوجود عمران خان کو بھی اپنے دور حکومت کے ابتدائی آٹھ مہینوں میں ہی قرض کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی مجبوری لاحق ہوئی ہے جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آئوٹ پیکیج کا معاہدہ کرنے سے پہلے ہی اسکی مجوزہ شرائط پر عملدرآمد کا آغاز کرکے عوام پر مہنگائی کا اتنا زیادہ بوجھ لاد دیا گیا ہے کہ ان کیلئے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اگر وزیراعظم کے اپنے بقول ملک میں فراٹے بھرتی ہوئی موجودہ مہنگائی کی وجہ سابق حکمرانوں کا آئی ایم ایف سے قرضوں کا حصول ہے تو آج پی ٹی آئی حکومت جن شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ لے رہی ہے‘ اس سے مہنگائی کس انتہاء کو پہنچے گی‘ وزیراعظم کو اس کا بھی بخوبی احساس ہونا چاہیے۔ بے شک انہیں اس کا احساس ہوگا بھی جس کا انہوں نے گزشتہ روز اظہار بھی کیا ہے مگر عوام کی قوت برداشت تو اب احساس کی حدود سے بھی آگے نکل چکی ہے اور آئی ایم ایف کے حوالے سے مہنگائی کے جو اعداد وشمار سامنے آرہے ہیں‘ اسکے تناظر میں آنیوالے سال عوام کیلئے عملاًجان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے اپنے انتخابی نعروں‘ وعدوں اور دعوئوں کے قطعی برعکس آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کیلئے جس انداز میں آئی ایم ایف حکام کے سامنے سلسلۂ جنبانی شروع کیا اور پھر دو ضمنی میزانیوں کے ذریعہ اضافی اور نئے ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ پٹرولیم‘ بجلی‘ گیس اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کے نرخ بھی تسلسل کے ساتھ بڑھانے شروع کردیئے جس سے مہنگائی کے مارے عوام مہنگائی کے عفریت سے مزید کچلے جانے لگے۔ اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے قومی معیشت کے استحکام کیلئے کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ چنانچہ سابقہ حکمرانوں پر آئی ایم ایف کے ناطے سے عوام کو زندہ درگور کرنے کے الزامات کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کو بھی آئی ایم ایف سے رجوع کرنے میں ہی اپنی بقاء کا راستہ نظر آیا۔ اگر پی ٹی آئی کی قیادت دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتی تھی کہ سابق حکمرانوں کی آئی یم ایف سے قرضے لینے کی پالیسی نے ہی عوام کو مہنگائی کے عفریت کے آگے پھینکا ہے تو ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا عزم باندھنے والے وزیراعظم عمران خان کو آئی ایم ایف کے در پر دستک دینے سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے تھا۔ اب اگر وہ سابق حکمرانوں پر آئی ایم ایف کے قرضوں سے مہنگائی بڑھانے کا ملبہ ڈالتے ہوئے خود بھی اسی راستے کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے ساتھ ہی ملک میں مہنگائی کے سونامی اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں تو اس سے عوام کے دلوں میں انکی کرشماتی شخصیت کے حوالے سے فرق پیدا ہونا بھی فطری امر ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد اسکے مالی اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجہ میں عوام کو انکے اقتدار کے آغاز ہی میں جس طرح مہنگائی کے جھٹکے لگنا شروع ہوئے‘ اسکی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملازمتوں سے متعلق اپنی بعض پالیسیوں کی بنیاد پر ملک میں بے روزگاری میں بھی اضافہ کر دیا جبکہ کاروباری طبقات اور سرمایہ کار حضرات بھی عدم تحفظ کا شکار نظر آئے چنانچہ آج پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کے ساتھ اپنے اچھے مستقبل اور قومی خوشحالی کی امیدیں وابستہ کرنیوالے عوام سخت اضطراب اور مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔
مزید المیہ یہ ہے کہ حکومتی ٹیم کی جانب سے حکومتی اقدامات کا دفاع بھی بہتر انداز سے نہیں کیا جارہا اور عوام کو مزید چھ آٹھ ماہ تک مشکل حالات سے دوچار ہونے کی ’’نوید‘‘ سنا کر ان کا سانس مزید خشک کیا جارہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی آٹھ ماہ کے دوران پٹرولیم نرخوں میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں پبلک ٹرانسپورٹ اور ریل کے کرایوں سمیت ہر چیز کے نرخ آسمان سے باتیں کرتے نظر آرہے ہیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کیلئے اسکی شرائط پر عملدرآمد سے مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی کیا درگت بنے گی جبکہ حکومت آئی ایم ایف کی مجوزہ شرائط کی بنیاد پر ہی وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں نئے ٹیکس عائد کرنے اور مروجہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں مزید اضافہ کرنے کا پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے۔ عوام آخر کتنا صبر کرینگے اور کس حد تک اپنی مالی مشکلات برداشت کر پائیں گے۔ ان کا اضطراب تو ابھی سے انکے چہروں پر منڈلاتا ہوا حکومتی پالیسیوں کیخلاف طوفان اٹھانے کا عندیہ دے رہا ہے۔ عوام کی ایسی کیفیت پر ہی اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک چلانے کا نادر موقع ملتا ہے جس کا خود پی ٹی آئی کو بھی اپنے اپوزیشن دور والا تجربہ حاصل ہے اس لئے حکومت اور بطور خاص وزیراعظم عمران خان کو ہنگامی بنیاوں پر عوام کے غربت‘ مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ وزیراعظم کو مہنگائی کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالے عوامی اضطراب کا احساس ہے تو انہیں عوامی مسائل کے حل کیلئے حکومت کی جانب سے عملی اقدامات اٹھتے ہوئے دکھانے بھی چاہئیں۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ وزیراعظم نے اپنی مذاکراتی ٹیم کو آئی ایم ایف کی شرائط نرم کرانے کی ہدایت کی ہے۔ اب کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آئی ایم ایف سے کم سے کم شرائط پر زیادہ سے زیادہ پیکیج حاصل کیا جائے اور اسے زیادہ سے زیادہ عوام کی فلاح کے منصوبوں پر بروئے کار لایا جائے۔ عوامی اضطراب اس طرح ہی کم کیا جا سکتا ہے۔