اتوار ‘ 6؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 12؍مئی 2019ء
بیوروکریٹس کا تنخواہوں اور مراعاتوں میں اضافہ کے لیے احتجاجی مظاہرہ
اسے کہتے ہیں یک نہ شد دو شد۔ چھوٹے درجوں کے یا ایک سے لیکر 16 سکیل سرکاری ملازموں کے تنخواہوں میں اضافہ کیلئے آئے روز احتجاجی مظاہرے اور دھرنے تو ہر سال ہوتے ہیں۔ سچ کہیں تو سارا سال جاری رہتے ہیں۔ حکومت بھی شاید ذہنی طور پر اس قسم کے احتجاجی مظاہروں کیلئے تیار ہوتی ہے۔ چند دن کے شور شرابے کے بعد ایسے مظاہرے حکومتی وفد کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد گدھے کے سر کے سینگوں کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی غریب سرکاری ملازموں کی سنتا ہی کون ہے۔ مگر یہ کیا ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں افسری سکیل 17 سے 20 تک کے بیوروکریٹس نے یعنی افسر شاہی نے بھی اپنی تنخواہوں میں اضافہ کیلئے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے کہ اس تنخواہ میں گھر نہیں چلا سکتے۔ جس پر انتظامیہ کے ہاتھ پائوں تو کیا سانس بھی پھول رہی ہو گی کہ یہ کیا۔ ہماری بلی ہمیں ہی میائوں۔ حکومت ان افسروں کے اللے تللے سب سے زیادہ برداشت کرتی ہے۔ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی تنخواہ کم ہے اخراجات اس میں پورے نہیں ہوتے تو پھر کوئی بتائے کہ اگر 70‘ 80 ہزار سے لاکھوں تک ماہانہ تنخواہ لینے والے خرچے پورے نہیں ہوتے تو پھر 20 تا 25 ہزار لینے والوں کے پاس کونسا جادوئی چراغ ہے جو وہ رگڑ کر اتنی کم تنخواہ میں پورا ٹبر پال سکتے ہیں۔ خیر اب مزہ آئے گا۔ ’’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو‘‘ اب کلرک اور افسر مل کر جب تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ کریں گے تو امید ہے کچھ نہ کچھ ہو کر ہی رہے گا۔ حکمرانوں کی مہربانیوں سے اس وقت شاہ و گدا ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ غریبوں کو تو عادت ہے پیٹ پر دو پتھر باندھنے کی۔ اب افسر لوگ کیسے ایک پتھر باندھ کر گزارہ کریں گے۔
٭٭٭٭
امریکی پابندیوں کا جواب ایران کی 30 لاکھ افغان مہاجرین کو نکالنے کی دھمکی ۔
تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ایران یہ نہ کرے تو کیا کرے۔ امریکہ کے سینگ افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایران نے سینگ امریکہ کے ساتھ پھنسائے ہوئے ہیں۔ امریکہ ایران کو پابندیوں کی زد میں لا کر من مرضی کے نتائج چاہتا ہے۔ اب تو اس کا بحری بیڑہ بھی چہل قدمی کرنے کے لیے آبنائے ہرمز کے پاس خلیج میں اٹکھیلیاں کرتا پھر رہا ہے۔ جس کو روکنے کے لیے کسی کے پاس طاقت نہیں۔ ایران اسے اپنے کو گھیرے میں لینے کی سازش قرار دے رہا ہے۔ ان حالات میں ایران نے نہایت مہارت سے ایسا پتا پھینکا ہے یا ایسی چال چلی ہے کہ امریکہ اور افغانستان دونوں کے ہاتھ پائوں پھول رہے ہیں۔ افغانستان امریکہ کا اڈہ ہے اور 30 لاکھ افغان مہاجرین عرصہ دراز سے ایران میں بیٹھے ہیں۔ اب ایران نے امریکی پابندیوں کا کرارا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کو واپس افغانستان بھیج دے گا۔ جنگ زدہ شورش کا شکار تباہ حال افغانستان اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا‘ ان 30 لاکھ مفلوک الحال مہاجرین کو کہاں قبول کر سکتا ہے۔ اس کی تو رہی سہی معاشی حالت تباہ ہو جائے گی اور ان مہاجرین میں نجانے کتنے طالبان یاافغان و امریکہ مخالف جنگجو بھی ہوں گے۔ ایران کے اس فیصلے سے ہمیں بھی سبق حاصل کرنا چاہئے۔ افغان حکمران بھارت کی شہ پر جس طرح ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں دھمکاتے ہیں اسکے جواب میں ہمیں بھی اشرف غنی سے کہنا چاہئے ’’تو ٹھیک ہے جناب سنبھالو پاندان اپنا‘‘ یہ 35 یا 30 لاکھ مہاجرین جو ہمارے سر پر مستقل بوجھ ہیں ہمیں انہیں نکال رہے ہیں۔ یہ تحفہ آپ کو ہی مبارک ہو بہت کر چکے ہم ان کی خدمت۔ دیکھئے پھر افغان حکومت اور اشرف غنی کیسے رقص بسمل کرتے نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
وفاقی وزرا کا تیل کی تلاش والے زون ’’کیکڑا ون‘‘ کا دورہ
کسی زمانے میں سونے کی تلاش اور ہیروں کی تلاش میں لوگ سرگرداں رہتے تھے۔ پھر تیل اور گیس کی تلاش میں خشکی تو خشکی سمندروں کا سینہ بھی چیرا جانے لگا۔ آج بھی دنیا بھر میں سمندر سے لے کر صحرائوں تک میں کالے سونے کی تلاش کو اہمیت دی جاتی ہے۔ امریکہ روس اور عرب ممالک کی چکا چوند ترقی اور زندگی میں رعنائیاں اسی کالے سونے کی بدولت ہیں۔ پاکستان کی بدحالی اور معاشی زبوں حالی کا سبب بھی یہی ہے جو ہمیں زیادہ تر باہر سے منگوانا پڑتا ہے اور اس کی بھاری قیمت بھی اداکرنا پڑتی ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں انہیں ہمسایہ ممالک کو خوش رکھنے کی پالیسی کے تحت نکالا نہیں جا رہا۔ بس واجبی سی کوشش ہوتی ہے اس میں بھی اکثر کامیابی ہمارے قدم چومتی ہے۔ اب ہمت کر کے سمندر میں تیل کی تلاش شروع ہوئی تو ’’کیکڑا ون‘‘زون میں امید ہے تیل اور گیس کا بڑا ذخیرہ مل سکتا ہے۔ حکومت تو بڑے دعوے کر رہی ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہوتا کہ بھاری زرمبادلہ بچ جائے۔ موجودہ وزیر پٹرولیم عمرایوب نے ایک اور وزیر اور مشیر کے ہمراہ گزشتہ دنوں اس سمندری علاقے کا دورہ کیا اور عنقریب خوشخبری کی نوید دی ہے۔ اس پر ہمیں فیصل واڈوا یاد آ گئے۔ وہ بھی ایسے ہی اِدھر اُدھر پھرتے رہتے تھے اور نوکریوں کی برسات کی پیشگوئیاں کرتے تھے۔ مگر فی الحال ایسی کسی برسات کے آثار نمودار نہیں ہو سکے۔ خدا کرے تیل اور گیس کی تلاش کامیاب ثابت ہو اور حکومت کی جان میں جان آئے۔
٭٭٭٭
’’بھارت کا منقسم اعلیٰ ‘‘ ٹائم میگزین نے مودی کی تصویر کے ساتھ سرخی لگا دی
حقیقت کو زیادہ دیر تک چھپایا جا نہیں سکتا۔ مودی کی سیاست ہی تقسیم کرو اور قتل کرو کے سنہری اصول پر رکھی گئی ہے۔ ان کی جماعت کا منشور بھی تو یہی ہے کہ بھارت صرف ہندوئوں کا دیش ہے۔ باقی سب ملیچھ ہیں انہیں یا تو ہندو بننا ہو گا یا بھارت سے نکلنا ہو گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ 18 تا 20 فیصد بھارت میں جو بڑا اقلیتی طبقہ آباد ہے۔وہ مسلمانوں کا ہے۔ عیسائی اور سکھ علیحدہ ہیں۔ ان کی تعداد 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ یہ بھارتی شہری ہیں بھارت ان کی جنم بھومی ہے۔ وہ تو بی جے پی کی باتوں میں آ کر ڈرنے والے نہیں۔ مذہب تبدیل کر نہیں سکتے ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اپنی اکثریت والے علاقوں میں میزورام، ناگاہ لینڈ، آسام وغیرہ کی طرح علیحدہ ریاست کی تحریک چلائیں یا اپنی اکثریت یکجا کر کے نیا اسلامستان بنا ڈالیں۔ ٹائم کا تجزیہ بالکل درست ہے کہ مودی کی کامیابی بھارت میں انتشار اور بھارت کو تقسیم کرنے کے عمل میں تیزی لانے کا باعث بنے گی۔ ویسے بھی جب روس جیسی سپرپاور متحدہ نہ رہ سکی تو بھارت کی کیا اوقات کہ وہ جبر کی پالیسی پر‘ قتل کرو کی سیاست پر مسلمانوں، دلتوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کو ان کی ریاستوں کو اپنا غلام بنا کررکھ سکے۔ ہندوستان نہ پہلے کبھی متحد تھا نہ ایک ریاست تھی۔ یہ تو مسلمانوں کا اور اس کے بعد انگریزوں کا کمال ہے کہ انہوں نے منقسم بھارت کو متحدہ رکھا۔ اب ایک قاتل اور موذی وزیر اعظم پھر اس کو تقسیم کرنے کی راہ کھول چکا ہے تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔