• news
  • image

معیشت کی تلخ حقیقتیں

آئی ایم ایف کا ایک مشن آجکل اسلام آباد میں موجود ہے اور ایک نئے پروگرام کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے واشنگٹن سے واپسی پر یہ دعوی کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوگئے ہیں اور صرف تفصیلات مشن کی آمد پر طے ہونگی۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ "شیطان تو تفصیلات میں ہوتا" کچھ ایسی ہی صورت بظاہر ہمیں اس موقع پر نظر آرہی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ضمن میں بات کریں ہم سب سے پہلے ان چیلنجز کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو اس پروگرام کے حوالے سے حکومت کو درپیش ہیں۔
اس پروگرام کے بڑے اہداف میں چار عناصر شامل ہونگے۔ سب سے پہلے بجٹ کے خسارے میں کمی، جس کا اندازہ اس وقت مجموعی قومی پیداوار کا سات اعشاریہ چھ فیصد (یا دوہزار نو سو ارب روپے ) لگایا جارہا ہے اور جس کو پہلے سال پانچ اعشاریہ پانچ فیصد تک کم کرنا ہوگا۔ اس کے حصول کیلئے اندازاً بارہ سو ارب روپے کے یا تو اصافی ٹیکس لگانے ہونگے یا پھر اتنی مقدار میں اخراجات کم کرنے ہونگے یا ان کا کوئی ملا جلا جوڑا۔ اگر ہم آدھا آدھا معاملہ رکھیں تو چھ سو ارب روپے کے ٹیکس او ر چھ سو ارب روپے کے اخراجا ت میں کمی۔ یہ وہ ضرورت ہوگی اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے۔ اور اس کا فیصلہ فوری کرنا ہوگا اس بجٹ کے موقع پر۔ اس کے کیا ممکنہ نتائج ہوسکتے ہیں اس کا تذکرہ ہم آگے چل کر کرینگے۔
دوسرا بڑا ہدف حکومت کی مرکزی بینک سے قرضوں کے حصول پر پابندی اور موجودہ سطح میں تیزی سے کمی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ حکومت اپنے بجٹ خسارے کو قرضوں کے ذریعے پورا کرتی ہے۔ یہ قرضے چار ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ قومی بچت کی اسکیمیں، بینکوں سے نیلام کے ذریعے (جیسا کہ ہر پندرہ دن میں ٹریژری بلز اور ہر ماہ پاکستان انویسٹممنٹ بانڈز کے ذریعے کیا جاتا ہے) ، غیر ملکی قرضوں کے ذریعے یا پھر براہ راست مرکزی بینک سے قرضوں کے ذریعے ، جو درحقیقت نوٹ چھاپنے کا عمل ہے۔ جون 2016 میں مرکزی بینک سے حاصل کردہ قرضہ صرف چودہ سو ارب روپے تھا۔ اس کے بعد سے جو اس میں اضافہ ہوا ہے وہ ملکی تاریخ میں مثال نہیں ہے۔ اس وقت یہ قرضہ سات ہزار ارب روپے پر کی ناقابل یقین حد پر کھڑا ہے، جس کا نصف اس مالی سال میں لیا گیا ہے۔ اس سے مستقبل میں افراط زر پر شدید منفی اثرات مرتب ہونگے۔ پروگرام کی یہ شرط ہوگی کہ اس قرضے کو اتارنے کے اقدامات کئے جائیں اور اس دوران مزید اس قرضے میں اضافہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ ایک مشکل شرط ہوگی، خصوصاً پروگرام کے آغاز میں اور اس وقت تک جبتک پروگرام میں وعدہ کیے گئے بیرونی وسائل کی آمد ہوتی ہے۔
تیسرا بڑا ہدف ملک میں مقامی کریڈٹ (domestic credit)کی افزائش پر ایک حد مقر ر ہوگی۔ یہ پابندی اس لیے ضروری ہے کہ اس وقت ملک میں مجموعی مانگ (aggregate demand) بہت بڑھی ہوئی ہے جس کی عکاسی بالآخر بیرونی ادئیگیوں کے توازن میں خرابی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ لہذا اس کو کم کرنا ضروری ہے۔ کریڈٹ کی موجودگی مانگ کو بڑھاتی ہے اس لیے اس کی تحدید ناگزیر ہے۔ اس کے اثرات سرمایہ کاری پر بھی مرتب ہونگے اور حکومت کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔ کسی حد تک یہ بات مرکزی بینک کے پالیسی ریٹ میں مزید اضافہ کا موجب بھی ہوگی۔
چوتھا بڑا ہدف غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کی شرط ہوگی۔ درحقیقت یہ شرط پروگرام کی کامیابی کا تعین کریگی۔ آئی ایم ایف کا پروگرام اصل میں بیرونی ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ اس پروگرام کے بعد اگر ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان ختم ہوجائے اور وہ بڑھنے شروع ہوجائیں تو پروگرام ایک اہم ترین سنگ میل حاصل کرلیگا اور اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوجائینگے۔ لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہوگا اگر ہماری درامدات میں کمی اور برامدات میں اضافہ ہو۔ برامدات میں اضافہ کا عمل نسبتاً صبر آزما اور طویل المدت ہوتا ہے جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حالیہ ترغیبات کے باوجود اس میں کوئی بڑا اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کے مقابلے میں درمدات میں کمی لانا آسان ہے اور اس میں شرح تبادلہ میں تبدیلی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم پہلے ہی اپنے روپے کی قدر بہت کھو چکے ہیں اور فی ا لحال اس میں مزید گراوٹ بڑی تکلیف کا باعث ہوگی بشمول افراط زر میں اضافہ کی صورت میں۔ ذخائر کو بڑھانے کیلئے پروگرام یہ شرط عائد کریگا کہ مرکزی بینک مارکیٹ سے زرمبادلہ خریدے جو اس کی قیمت پر اثر انداز ہوگا۔ امید کرنی چاہیے کہ بجٹ خسارے میں کمی، درامدات میں مطلوبہ کمی فراہم کردے اور خریدنے کا عمل محدود رہے۔ پروگرام کی ایک شرط جس کا بڑا چرچا ہے وہ شرح تبادلہ کو آزاد چھوڑنے کا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ مرکزی بینک پر یہ پابندی ہوگی کہ وہ زرمبادلہ کے ذخائر اس مقصد کیلئے استعمال نہیں کریگا جس میں روپے کی آزادانہ حرکت پر اثر انداز ہوا جائے، ما سوائے اس کے کہ کوئی غیر معمولی واقعات ہورہے ہوں اور نظم کو بحال کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ ایک معقول شرط ہے جو معیشت کو نظم و ضبط سے چلانے کیلئے ضروری ہے۔
اس پس منظر میں ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اگر یہ پروگرام حاصل ہوجاتا ہے تو اس کے فوری طور پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ بجٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے جتنے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہوگی وہ لوگوں کیلئے بڑی تکلیف کا باعث ہوگا۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب اس سال ایف بی آر کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے تمام مراعات اور چھوٹ جو حاصل ہیں اور خصوصاً وہ جو گذشتہ حکومت نے انفرادی ٹیکس گزاروں کو دی تھیں واپس لینا پڑینگی۔ موجودہ ٹیکس گذاروں کو اضافی ٹیکس کا سامنا ہوگا، مثلاً جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب سوائے ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کے کسی اور خرچے کو کم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ جبکہ آئی ایم ایف یہ تقاضہ کررہا ہے کہ ترقیاتی اخراجات کو قائم رکھا جائے اور دیگر کو کاٹا جائے۔ ان میں سب سے بڑا حصہ سبسڈی کا ہے جو ریلوے ،بجلی، گیس، برامدات وغیرہ پر دی جاری ہے، اسے ختم کرنا ہوگا۔ اس کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔ علاوہ ازیں حکومت کو بہت سے محکموں کو ختم کرنا پڑیگا دفاتر کے دیگر اخراجات اور تزئین و آرائش کے خرچوں کو بھی مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ ان تمام اقدامات کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہونگے جس کو برداشت کرنا پڑیگا۔
مرکزی بینک سے قرضہ لینے پر پابندی اور موجودہ سطح کو تیزی سے کم کرنے کیلئے بینکوں اور قومی بچت کے ذرائع سے قرضوں کو بڑھانا ہوگا۔ لیکن اس کیلئے شرح سود میں اضافہ ناگزیر ہوگا، جس سے قرضوں پر سود کی لاگت میں اضافہ ہوگا جو بجٹ کا خسارہ کم کرنے کی کوششوں کو مجروح کریگا۔ اس میں آسانی صرف اس شکل میں آئیگی جب آئی ایم ایف کا پروگرام بیرونی قرضوں کے راستے کھول دے جو اضافی وسائل فراہم کریگا اور یوں مقامی وسائل پر بوجھ کم ہوجائیگا۔
مندرجہ بالا صورتحال ایک مخدوش و شکستہ معیشت کی عکاسی کررہی ہے۔ ماضی قریب میں جب بھی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے گیا ہے، اس کو اسقدر برے معاشی حالات کا سامنا نہیں تھا۔ "نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن" کے مصداق پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کیلئے آسان راستے موجود نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں کچھ خبریں آئی ہیں جو اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ پروگرام پر اتفاق رائے نہیں ہورہا ہے۔ لہذا وہ خوشخبری جو جناب اسد عمر صاحب نے دی تھی وہ قبل از وقت ثابت ہورہی ہے۔ نئے مشیر خزانہ کو ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ ہماری گذارش ہوگی کہ وہ وزیر اعظم کے سامنے اس مخدوش و شکستہ صورتحال کو بلا کم و کاست بیان کردیں اور یہ بھی بتا دیں کہ اس کی درستگی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم مشکل ترین اور تکلیف دہ فیصلے کرنے کے تیا ر ہوجائیں۔ اس میں شارٹ کٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ ضروری اقدامات کو برملا اور کھلی فضا میں کرنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ وزیر اعظم اس پروگرام پر دستخط کرنے سے پہلے اس کو کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے رکھیں۔ مزید براں وہ یہ بھی مناسب سمجھیں کہ اس کیلئے قوم کو اعتماد میں لینا بھی ضروری ہے۔ آخر میں پارلیمانی تعاون ناگزیر ہوگا۔ کیونکہ پروگرام میں کیے جانے والے اقدامات سے عوام متاثر ہونگے لہذا حزب اختلاف کے تعاون کے بغیر قومی اتفاق رائے ممکن نہیں ہوگا۔
آخری بات ہم یہ عرض کرینگے کہ اس پروگرام سے کوئی مفر نہیں ہے۔ ایسا شائد ممکن ہو کہ اس کو مزید موخر کردیا جائے اس بات کے مدنظر کے معاشی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس ٹیم کو حالات کا جائزہ لینے اور اپنی حکمت عملی وضع کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن یہ التوا بالکل وہی نتائج پیدا کریگا جو حکومت کے ابتدا میں پروگرام شروع نہ کرکے پیدا ہوئے ہیں۔ لہذا ہماری نظر میں پروگرام فوراً شروع کرنا از بس ضروری ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن