عمران خان کچھ نہ کچھ کریں گے؟
نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم کے طورپر عمران خان کچھ نہ کچھ کریں گے جبکہ عمران خان کی حمایت کرنے والے بھی اب ان کیلئے کچھ اچھا ہی سوچ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ کچھ نہ کر پائے توکوئی کچھ نہیں کر پائے گا۔
بھارتی اداکار ششی کپور نے عمران کی بہت تعریف کی ہے۔ ایک حکمران کی تعریف کیا ہوتی ہے۔ یہ عمران خان کو بھی معلوم ہے۔ ایک شخص ہمارے ہاں آیا تھا بھٹو صاحب۔ اس سے ہزار اختلاف ہوں مگر اعتراف بھی ہے کہ وہ ایک لیڈر تھا۔قائداعظم کے بعد اگر ذکر ہوا تو وہ صرف بھٹو کا ہوا اور اب عمران کا ہو رہا ہے۔ تنقید بھٹو پر بھی ہوئی۔ عمران پر بھی ہو رہی ہے۔ بھٹو اپنی ذات میں کھویا ہوا ایک لیڈر تھا۔ اپنی ذات کو بنانے کیلئے بھی اسے ملک میں کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا تھا۔ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ آخر کار اسے پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا۔ ملکی اور عالمی طاقتوں نے اسے بدنام کیا اور پھر برباد کر دیا۔ شاہ فیصل کے ساتھ کیا ہوا۔ صدام حسین کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ جو ’’امریکہ‘‘ عراق سے صدام کے عراق کے مقابلے میں زیرو ہے۔ میں دونوں عراقوں میں گیا ہوں۔ جمال عبدالناصر کوبدنام کیا۔ ورنہ وہ لیڈر تو تھا۔ امام خمینی سے بھی برحق اور برمحل امیدیں تھیں مگر اب ایران میں کیا ہورہا ہے۔
بھٹو کے بعد عمران کیلئے کیا کہا جارہا ہے۔ کیا کہلوایا جا رہاہے۔ میں عمران سے صرف تین چار بار ملا ہوں۔ جب وہ وزیراعظم نہیں تھے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کچھ کریں گے۔ میں نے ان کے حق میں بات کی۔ ان کے خلاف بھی بات کی۔ دونوں باتوں کا ردعمل ان کی طرف سے آیا۔
وہ ایک زندہ آدمی ہے۔ ان کی زندگی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ دولت‘ شہرت‘ عزت‘ محبت عقیدت۔ وہ اپنے بارے میں مثبت اور منفی تاثرات سے واقف ہیں۔ کیا ہے جو انہوں نے نہیں دیکھا۔ ان پر پاکستان کے روایتی حکمرانوں والا کوئی الزام نہیں صادق نہیں آتا۔ سب مانتے ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں تو یہ کوئی کم بات ہے۔ حکمرانوں نے ڈٹ کر کرپشن کی۔ اس کے علاوہ کیا تیر مارا۔ کوئی کام ان کے کریڈٹ میں نہیں کہ تاریخ میں کوئی نام دیا جا سکے۔
انہوں نے پاکستان کیلئے ورلڈکپ جیتا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شوکت خانم ہسپتال بنایا جس کی مثال پوری دنیا میں کم کم ہے۔ نمل یونیورسٹی موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں بنائی جو ایک انوکھی کامیابی ہے۔ نمل یونیورسٹی میرے گائوں موسیٰ خیل سے دو اڑھائی میل دور ہے۔
اب کچھ لوگ بھٹو کے بعد عمران کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ یہ کیا سازش ہے۔ یہ صرف ملکی سطح پرنہیں ہو رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی مہم ہے جو عالم اسلام کے خلاف جاری ہے۔
مگر میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ لیڈر شپ عالم اسلام ہی سے ابھرے گی۔ اب بھی کوئی نام پاتا ہے تو عالم اسلام کا ہوتا ہے۔ یورپ امریکہ میں ایک روٹین حکمرانوں کی ہے۔ وہاں سیاستدان صرف حکمران بنتے ہیں۔ جتنی کوششیں بھی کر لی جائیں اس معرکہ آرائی کو نہیں روکا جا سکتا۔ میں ایک معمولی سا انسان ہوں کہ میں ایک سیدھا سادہ مسلمان ہوں۔ میں نے کسی پاکستانی حکمران سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنے عیدت مندانہ جذبات کا اظہار نہیں سنا۔ صرف عمران خاں کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ ’’تری آواز مکے اور مدینے ‘‘
اسلام کے لیے رسمی باتیں تو کی گئیں مگر ان میں جذباتی لگن کی بات نہیں پائی جاتی تھی۔ صدر جنرل ضیاء الحق نے بات کی اور جذبے سے بات کی۔ انہیں قتل بلکہ شہید کرا دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق سے عمران کی ملاقاتوں کی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ورنہ پاکستان میں جمہوریت بھی آمریت کے آس پاس قائم رہی ہے۔
عمران مدینہ منورہ جہاز سے اترتے ہیں تو ننگے پائوں ہوتے ہیں۔ وہ روضۂ رسول پرحاضر ہوتے ہیںتو عقیدتیں ان کی ذات کو پہرے میں لیے ہوتی ہیں۔ ذاتی باتیں ہیں مگر حکمران سے کچھ اور بھی مطالبہ ہوتا ہے۔ عمران خان اس سے آگاہ ہیں۔ اس آگاہی کو اللہ باعمل بنائے گا اور ضرور بنائے گا اور ہم عمران خان کو قائداعظم کے ایک سچے جانشین کے طور پردیکھیں گے۔
عمران پاکستان کے لیے کچھ ایسا کریں کہ نئی تاریخ بن جائے۔ واقعی نیا پاکستان بن جائے۔