حکمرانوں کی روحانیت
القادر یونیورسٹی کے منصوبہ سازوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ روحانیت اکتسابی نہیں، وھبی علم ہے۔ بلکہ یہ علم ہے ہی نہیں، عطائے خدا وندی کی ایک شکل ہے۔ اللہ کا کوئی بندہ ایک پہنچی ہوئی روحانی شخصیت کی صحبت میں برسوں رہا۔ اور جی بھر کر فیض سمیٹا۔ ایک روز عرض کی حضور! دنیا میں کوئی آپ سے بھی بڑھ کر؟ حضرت نے ایک کاغذ پر نام پتہ لکھا اور اس کے حوالے کر دیا۔ وہ شخص منزلیں مارتا ہوا منزلِ مطلوب پر پہنچا، تو پتہ چلا کہ صاحب رقعہ تو بادشاہِ وقت ہیں۔ بہت حیران ہوا اور اگلے روز دربار میں حاضر ہو کر مدعا بیان کیا۔ بادشاہ بولا، چھوڑو یہ قِصہ۔ آجکل جشنِ بہاراں ہے۔ شہر میں خوب رونق ہے۔ جائو موج مستی کرو۔ اور ہاں دودھ کا یہ پیالہ بھی ہمراہ لیتے جائیے، مگر اس احتیاط کے ساتھ چھلکنے نہ پائے۔ اگر چھلک گیا تو جلاد وہیں تمہاری گردن مار دے گا۔ مہمان شام کو لوٹا تو بادشاہ نے جشن بہاراں کا احوال پوچھا۔ بولا، جناب! کیسا جشن اور کہاں کا موج میلہ۔ میری نگاہ تو پیالے سے ہی نہیں ہٹی۔ مبادا چھلک جائے اور میں مارا جائوں۔
بادشاہ بولا تو جان لو، مجھ میں کوئی کمال نہیں۔ حاکم ہونے کے ناطے میری پہلی ترجیح فلاحِ بندگانِ خدا ہے۔ ان کی خدمت میں مصروفیت کا یہ عالم کہ نگاہ دائیں بائیں ہٹتی ہی نہیں کہ اِدھر سے غافل ہو گیا تو پروردگار کے ہاں راندۂِ درگاہ ہوں گا۔