پانی بچانے والے کارکنان کا مستقبل؟
پانی زندگی ہے اس کی اہمیت کسی دور میں بھی کم دکھائی نہیں دیتی۔دور حاضر میں پانی کو ذخیرہ کرتے ہوئے ہر موسم میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بتایا جاتا ہے مگر بد نصیبی یہ رہی کہ وطن عزیز کے عظیم منصوبے کالا باغ ڈیم کو باہمی نااتفاقی کے باعث تعمیر نہ کرپائے جس کے نتیجے میں ہماری لاکھوں ایکڑ زمین بنجر و بے آب پڑی ہے ۔دور جدید میں ڈیم تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے ضیاع کو بچانے اور کم پانی سے زیادہ استفادہ حاصل کرنے کے طریقے دریافت کئے جا چکے ہیں ۔ وطن عزیز میں بھی سرکاری سطح پر ایک ادارہ اس کا رخیر کے لئے برسرپیکار ہے جو سالانہ ایک ڈیم کے برابر پانی بچا کر ملک کی زراعت کو قوی کر رہے ہیں ۔ اس منصوبے کا آغاز جنرل مشرف دور میں کیا گیا ۔2004ء میں جب ان کی مقبولیت کا سورج نصف نہار پر تھا تو دوستوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا مشورہ دیا مگر جلد ہی شدید سیاسی مخالفت کے باعث اس کا آغاز نہ کر سکے مگر پانی کے مسائل کو صرف نظر کرنا کسی طور ممکن نہ تھا تو صدر مشرف نے آبی ماہرین کو یکجا کرکے دوسرا راستہ اختیار کرنے کی تجویز رکھی جس پر انتہائی غور وفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ڈیم بنانا ممکن نہیں تو ملک میں دستیاب پانی کو بچانا اور منصوبہ بندی کے تحت جدید خطوط پر اس کی ترسیل سے زرعی شعبے میں بہتری لا ئی جا سکتی ہے ۔طے یہ پایا کہ اگر وطن عزیز میں موجود تمام کھالہ جات آبپاشی کے لئے درکار پانی کو نہروں سے کھیتوں تک پہنچانے کے لئے کم ازکم تیس فیصد تک کوپختہ کر لیا جائے تو ایک ڈیم کے برابر یعنی بارہ ملین ایکڑ فٹ پانی کی بچت ہوگی ۔ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ہنگامی بنیادوں پر اس پر عمل درآمد کے احکامات جاری کئے اور مملکت کی چاروں اکائیوں کے علاوہ گلگت بلتستان میں بھی قومی پروگرام برائے اصلاح کھالاجات کے نام پر ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک بڑا منصوبہ تشکیل دیا گیا ۔پروگرام کے مطابق قومی اصلاح کھالہ جات کے تحت ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں انجینئر سب انجینئر راڈ مین ، کمپیوٹر آپریٹراور دیگر سٹاف کو بھرتی کیا گیا ۔کروڑوں روپے کی لاگت سے بین الاقوامی معیار کے مطابق تربیت کا اہتمام ہوا اور زمینی سطح پر کھالوں کی پختگی کاآغاز کیا گیا ۔شروع میں تو یہ طے پایا کہ ملازمین اس سلسلے میں اپنی فنی مہارت و معاونت فراہم کریں گے جبکہ عملی کام زمینداروں اور کاشت کاروں کی مشاورت سے بنائی گئی کھالہ کمیٹیوں نے کرناہوگا ۔ منصوبے پر عمل کے دوران مختلف مشکلات درپیش تھیں۔ وطن عزیز میں صدیوں سے رائج روایتی نظام کو بدلنا آسان نہ تھا ۔ ایک جانب کاشتکاروں کو پانی کی بچت اور کھالوں کی اصلاحات کے لئے ذہنی طور پر آمادہ کرنا دوسری جانب زمین کی پیمائش، لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمواری اور حد بندیوں کے حوالے سے مقامی جھگڑے اور تنازعات درپیش تھے ۔ ان تمام معاملات سے نمٹنے کے لئے ملکی تاریخ میں پہلا ایسا ادارہ بنایا گیا جس میں دیگر اداروں سے معاونت حاصل کی ۔ ملازمین بڑی جانفشانی اور یکسوئی سے اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت میں جتے نظر آئے۔۔ یاد رہے کہ قومی مفاد پر مبنی یہ منصوبہ نو سال تک جاری و ساری رہا ۔پانی کی بچت تو ملکی معیشت پر اس کے اثرات کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ ورلڈ بینک نے اسے ملکی ترقی کے لئے ایک عظیم حکمت عملی تسلیم کیا ہے ۔ منصوبے میں شامل تمام کارکنان کے اخلاص اور تن دہی کا واضح اور درخشاں ثبوت یہ ہے کہ 1976ء میں قائم ہونے والے واٹر مینجمنٹ کے قیام سے لیکر 2004تک کے اٹھائیس سالوں میں صرف 28ہزار کھالہ جات پر کام ہو سکا جبکہ اس کے برعکس نو سال کی قلیل مدت میں کھالہ جات کی تعمیر 56ہزارکھالوں سے تجاوز کر گئی جو کہ محب وطن انجینئروں اور ورکروں کا کارہائے نمایاں ہے ۔ اس لئے حکومت نے بلا تاخیر انہیں نئے منصوبے PIPIPمیں بھرتی کر لیا گیا جس کے تحت صوبے میں قطرہ قطرہ نظام ہائے آب پاشی کی ترویج لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے زمین کی ہمواری اور کھالہ جات کی پختگی مقصود تھی ۔
قارئین کرام ۔ اٹھارویں ترمیم کے باعث پانی کی بچت کا معاملہ وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوا ۔ ڈیم کا تنازعہ اپنی جگہ قائم رہا مگر اس دوران واٹر مینجمنٹ پروجیکٹ ملازمین ایک ڈیم کے برابر پانی بچا چکے تھے ۔ پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں نے اس ادارے کے ملازمین کو مستقل کر دیا مگر ن لیگ کی پنجاب حکومت نے صدر مشرف کے بغض میں ایسا کرنے سے گریز کیا جبکہ ورلڈ بینک کے بین الاقوامی وفد نے اپنی رپورٹ میں حکومت پنجاب سے یہ سفارش کی کہ PIPIPکے ملازمین کے تجربوں اور مہارت سے مزید فائدہ اٹھایا جائے انہیں مستقل کیا جائے ۔ یاد رہے کہ ان ملازمین کا کام تسلسل سے جاری رہنے والا ہے ۔ عدالت عالیہ لاہور کی جانب سے بھی حکم صاد رہو چکا مگر پرانی افسر شاہی عمل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے ۔ان ملازمین نے غیر روایتی انداز میں سوشل میڈیا پر احتجاجی مہم برپا کر رکھی ہے ۔ تبدیلی کے دعویدار وزیر اعلیٰ پنجاب جو کہ زرعی پس منظر رکھتے ہیں ۔ اس حساس معاملے کا نوٹس لیں اور پانی بچانے والوں کو بھی بچانے کا اہتمام کریں۔