• news
  • image

ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ(باصلاحیت)

سچی بات تو یہ ہے کہ میری آج تک ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ محترمہ نائلہ باقر سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسے کچھ آثار نظر آتے ہیں ۔اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ میں بہت کم سرکاری دفاتر حاضری دینے جاتا ہوں۔کبھی کسی سماجی کام کے لیے کہیں جانا بھی ہوا تو بات چیت کر کے واپسی کی راہ لی ۔لیکن آج میرا دل کر رہا ہے کہ میں اِس دلیر ,جہاندیدہ اور بہترین انتظامی صلاحیتیں رکھنے والی خاتوں افسر کا ذکر کروں جس نے بہت تھوڑے عرصے میں شہر کو سدھارنے کی بہت زیادہ کوشش کی ہے ۔کوشش کا لفظ مجھے اس لیے لکھنا پڑھا رہا ہے کہ کوئی بھی رہبر ہمیں سدھارنے کی ترغیب تو دے سکتا ہے لیکن اصل ذمہ داری عوام کی ہی ہوتی ہے کہ وہ کس انداز میں اپنی زندگیوں میں تبدلیاں لاتے ہیں ۔گوجرانوالہ جیسے شہر میں اتنی بہادری سے انتظامات کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے ایک ایسا ضلع جہاں سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ساری سیٹیں حکومت مخالف جماعت جیتی ہے ۔ایک ایسا ضلع جہاں بسنے والے حکومتی جماعت کے ترجمان اپنا ہر کام ہر حال میں کروانے کی خواہش رکھتے ہیں۔اس ضلع میں محترمہ نائلہ باقر نے اپنی سوجھ بوجھ ، لگن اور انتظامی صلاحیتوں سے بہت جلد اپنا ایک خاص مقام بنا لیا ہے ۔آج شہر میں تبدیلی کا جو اثر نظر آرہا ہے اس کے پیچھے بہت حد تک محترمہ نائلہ باقر کا ہاتھ ہے ۔محترمہ نائلہ باقر کو گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری انجام دیتے ابھی صرف چند ماہ ہی ہوئے ہیں لیکن ان چند مہینوں میں انہوں نے اپنی لگن سے ثابت کر دیا ہے کہ حالات کو بدلنے کے لیے بہت زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ اچھی ٹیم کو ساتھ لے کر درست فیصلے کیے جاتے ہیں اور اچھا منتظم بن کے ان فیصلوں پر عمل درآمد کروایا جاتا ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ محترمہ کے اسسٹنٹ کمشنرز بھی انہی کے جیسے لگتے ہیں ۔ محترمہ نے اپنی انقلابی سوچ کے چلتے ہوئے اپنے ہر اسسٹنٹ کمشنر کو دفتر سے نکال کے عملی میدا ں میں لے آئی ہیں ۔پچھلے چند مہینوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ محترمہ نائلہ باقر صاحبہ ہر روز کسی نہ کسی عوامی مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی نہ کسی علاقے میں پہنچی ہوتی ہیں ۔آج کل رمضان کے ایام چل رہے ہیں تو ہم نے دیکھا کہ شائد مدتوں بعد ایسا ہو رہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ مسلسل سبزی منڈی کا دورہ کر رہی ہے ۔اور یہ دورے صرف دورے نہیں ہوتے بلکہ منڈی جا کے خرید و فروخت کے سلسلے دیکھے جارہے ہیں ۔رمضان بازاروں کاصبح سے شام تک جائزہ لیا جارہا ہے ۔شہر کے بڑے بڑے سٹور کو بھاری جرمانے بھی کیے ہیں۔انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ صارفین کو اس مقدس مہینے میں روز مرہ کی اشیاء سستے داموں مل سکیں ۔ جب ہر طرح کی کوششوںکے بعد بھی عوام کے ہاتھ اشیا مہنگے داموں پہنچ رہی ہیں۔ تو اب ڈپٹی کمشنر صاحبہ نے کہا کہ زائد منافع خوروں کو جیل بند کیا جائے۔اتنی سختی کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے وہ بھی رمضان کے دنوں میں مسلمان ملک کے شہریوں پر؟میرا پکا یقین ہے کہ ہم پاکستانی مسلمانوں کا یقین بہت کمزور ہوچکا ہے ۔ہم پاکستانی سخت گرمی کے دنوں میں بھوک و پیاس تو برداشت کر رہے ہیں ۔لیکن جو رب کی رضا ہے اس کی طرف ہمارا ابھی سفر ہی شروع نہیں ہوا ہے ۔ ہمارے اندر کا انسان ابھی بید ار نہیں ہورہا ہے۔ہم صبح سے شام تک یہ بات سنتے ہیں کہ رمضان میں ہر نیکی کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔رمضان میں صدقہ و خیرات کا بھی زیادہ ثواب ملتا ہے ۔رمضان میں روزہ کھلوانے کا ثواب روزہ دار کے روزے کے برابر ملتا ہے لیکن ہم یہ سب باتیں صرف زبان سے کہنے کی حد تک کرتے ہیں ۔اگر ہم اللہ پر یقین پکا رکھتے ہوں تو ہم رمضان میں باقی دنوں سے کم قیمت پر چیزیں بیچنے کی کوشش کرنے لگیں ۔ہم روزے داروں کیلئے ہر چیز بہتر سے بہتر مہیا کرنے کی کو شش کریں ۔یہ سچ ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بہت سی اشیاء کے نرخ بڑھ چکے ہیں ۔لیکن ہم مسلمانوں نے رمـضان آنے کی خوشی میں بہت سی ضروری گھریلو استعمال کی چیزوں کی ریٹ اپنی مرضی سے کہیں زیادہ بڑھا لیے ہیں ۔انتظامیہ ہر چیز کا نرخ طے نہیں کر سکتی ہے ۔جیسے ہماری معزز عدالت کے جج صاحب نے فرمایا ہے کہ سموسوں کے ریٹ طے کرنا بھی کیا عدالت کا کام ہے ؟رمضان بازاروں میں ڈپٹی کمشنر صاحبہ مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں ۔لیکن کیا کیجیے ہماری قوم کا وطیرہ بن چکا ہے ہم پَھل والے کو اس کی مرضی کا ریٹ ادا کر کے بھی گلا سڑا پھل گھر لے جانے پر مجبور ہیں ۔میری قوم کے لوگ اتنے باصلاحیت ہیں کہ ہماری ہر طرح کی بحث اور ہوشیاری کے باوجود ہمارے شاپر میں دو تین پھل خراب ڈال ہی دیتے ہیں ہمیں پتہ تب چلتا ہے جب گھر پہنچیں اور بیگم صاحبہ طنز سے فرماتی ہیں کہ آپ سے کبھی کوئی چیز دیکھ کے خریدی ہی نہیں جاتی ۔یقین کرئیے گا صرف اسی وجہ سے میںنے ایک عرصے سے فروٹ نہ صرف خریدنا بلکہ کھانا بھی بہت کم کیا ہواہے ۔ مگر اب بھی اس شہر کے بہت سے بنیادی مسائل آپ کی توجہ کے منتظر ہیں ۔ یہ کیا بدقسمتی ہے کہ اتنے بڑے شہر میں آج بھی کوئی پبلک ٹرانسپورٹ سروس نہیں ہے ۔کیوں اس شہر کے لوگوں کو رکشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔شہر میں ٹریفک کے مسائل کم کرنے ہیں تو کسی نہ کسی طرح عوام کیلئے اچھی سواری کا انتظام کرنا ہوگا ۔اس کیلئے پرائیویٹ شعبے سے بھی کام لیا جاسکتا ہے ۔آج اس شہر میں بہت سی خواتین روز گھروں سے نوکری کیلئے نکلتی ہیں جنہیں سارا دن رکشو ں پر دھکے کھانے پڑتے ہیں۔خدا کیلئے ان رکشوں کوشہر میں محدود تعداد میں روٹ پرمٹ جاری کیجیے اور بڑی سڑکوں پر اچھی بسیں چلوا کے ٹریفک کے مسائل پہ قابو پانے کی کوشش کیجیے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن