نائیجیریا: نابینا بھکاریوں کو راستہ دکھانے کے لیے لڑکے کو اغوا کرلیا گیا
ابوجا (بی بی سی)سیمیول عبدالرحیم سات سال کے تھے جب انھیں شمالی نائیجیریا کے شہر کانو سے اغوا کر لیا گیا تھا، انہیں وہ دن بالکل یاد نہیں جب انہیں اغوا کیا گیا تھا۔ان کے والد کی چار بیویاں اور 17 بچے تھے اس طرح وہ ایک بڑے کنبے کا حصہ تھے لیکن اس دن سیمیول اپنی آیا کے ساتھ تھے۔ان کے گھر والوں کو یہ بتایا گیا کہ وہ باہر سائیکل چلانے گئے ہیں۔لیکن پھر وہ انہیں دوبارہ چھ سال تک نہیں دیکھ سکے۔سیمیول کی بڑی بہن فردوسی اوکیزی اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہم نے انھیں ڈھونڈنے کے لیے کیا نہیں کیا۔‘اس وقت ان کی عمر 21 برس تھی اور شروع میں انھیں سیمیول کے لاپتہ ہونے کی خبر نہیں دی گئی تھی۔وہ جب بھی یونیورسٹی سے گھر فون کرتی تھیں تو ان کا بھائی سیمیول ان سے بات کرنے کے لیے بھاگ کر بخوشی فون اٹھاتا تھا۔لیکن جب اس کے بجائے گھر کے دوسرے افراد نے ان کا فون اٹھانا شروع کیا تو انھیں شک ہونے لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔فردوسی کے والد ایک آرکیٹکٹ ہیں اور ہوٹل چلاتے ہیں۔ ایک دوپہر کو وہ اچانک گھر پہنچ گئیں تو ان کے والد کو انھیں دل خراش سچ بتانا پڑا کہ ان کا سب سے پیارا بھائی ایک مہینے سے غائب ہے۔فردوسی کہتی ہیں ’پہلے میرے والد نے آیا کو گرفتار کروایا لیکن تحقیقات کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔‘سیمیول کی والدہ سے بھی یہ خبر کافی عرصہ تک چھپائی گئی۔ کیونکہ ان کی طلاق ہو گئی تھی اور وہ دوسرے شہر میں اپنے نئے گھر میں رہتی تھیں۔ جب بھی وہ دوسرے شہر سے کال کرتیں تو سیمیول کے بارے میں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ان کو ٹال دیا جاتا۔آخر میں سیمیول کے ایک چچا کو یہ مشکل کام دیا گیا کہ وہ انہیں ساری بات بتائیں۔پولیس کی وسیع تحقیقات کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان والوں نے اخباروں میں اشتہارات بھی دیے اور انہیں گروہ بنا بنا کر ہر گلی محلے میں تلاش کیا یہاں تک کہ انہیں گڑھوں میں بھی تلاش کیا گیا کہ کہیں کسی گاڑی نے انھیں مکر نہ ماردی ہو۔ حتیٰ کہ انہوں نے مسلمانوں کے روحانی عالم سے جنھیں مالمز کہتے بھی مشاورت کی۔وقت کے ساتھ ان کے والد نے اپنے خاندان والوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ یہ مان لیں کہ ان کا بھائی اس دنیا میں نہیں رہا۔ انہوں نے سیمیول کو ڈھونڈنے کے لیے جتنا ہو سکتا تھا کیا۔