معاشی حالات کو بگڑنے سے بچا لیا، سول و فوجی قیادت سخت بچت پر متفق: حکومتی ٹیم
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے معاشی استحکام کے روڈ میپ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ایسے فیصلے ہوں گے جو ملک کو مستقل پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالیں گے ،بجٹ کے بعد بھی اہم فیصلے کئے جائیں گے،کفائت شعاری اختیار کی جائے گی ،2020تک سرکلر ڈیٹ کو زیرو کر دیا جائے گا ،بجٹ میں ریونیو کا ہدف 5550ارب روپے رکھا ہے ،پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود لوگوں پر اضافی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا ،کوشش ہو گی کہ جو بھی نیٹ سے باہر ہیں ان کو اند لایا جائے اور بوجھ ڈالا جائے ،دقتوں کے دن ختم ہونے جا رہے ہیں 6سے 12ماہ میں استحکام کے پروگرام کو مکمل کرنا ہے ،اس کے بعد بحالی اور تیز رفتار گروتھ کا وقت ہو گا ،بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے 300یونٹ تک استعمال کرنے والوں پر قطعی اثر نہیں پڑے گا ،بجٹ میں اس کے لئے 216ارب روپے رکھے جائیں گے، زراعت کے شعبے کے ترقی کے لیے 250 ارب روپے مختص کررہے ہیں،آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کا سہہ سالہ پروگرام 3.2فی صد کی شرح سود پر لے رہے ہیں ،ابھی سٹاف لیول ایگریمنٹ ہو اہے جب تک اس کا بورڈ منظوری نہ دے اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کر سکتے ،چند ہفتوں میں پروگرام آپریشنل ہو جائے گا ،سعودی آئل کی سہولت یکم جولائی سیمتحرک ہو جائے گی اس سے زر مبادلہ پر دبائو کم ہو گا ،آئی ایم ایف پروگرام سے دنیا کو سگنل ملے گا کہ پاکستان معیشت کو منظم انداز میں لے جا رہا ہے ،،ایمینسٹی سکیم آسان بنائی گئی ہے ،اس سے رئیل ایسٹیٹ اور مردہ اثاثے رسمی معیشت کاحصہ بنیں گے ،30جون تک کا وقت ہے اس کے بعد ایکشن لیا جا سکتا ہے ،یہ حکومت کے اختیار میں نہیں ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کیا ہے ،اگر مجبور ہو کر قیمت بڑھانا پڑے تو کمزور طبقے کی حفاظت کی جائے گی ،افراط زر کو نگاہ میں رکھیں گے ،،احساس پروگرام کے لئے180ارب روپے ،فاٹا کے لئے46ارب رکھے ہیں ،زوز گار میں اضافہ کے لئے نجی سیکٹر کو متحرک کریں گے ،جو نجی ادارے روز گار دیں گے ان کو ٹیکس میں رعائت ملے گی ،ہمیں اختلافات سے ہٹ کر پاکستان کے لئے بہتر سوچنا ہو گا ،ہم مشکل خطے اور پڑوس میں ہیں،ملک کی عزت اور وقار پہلی چیز ہے ،لوگوں اور سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتی ہے ،خود مختاری کے بعد باقی چیزیں ہیں ،ہم سب ایک پیج پر ہیں ،مشیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار دیگر وزرا اور مشیروں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،دیگر وزرا میں وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان ،وفاقی وزیر منصوبہ بندی،خسرو بختیار ،مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ، وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر،چیرمین ایف بی آر شبر زیدی ،سیکرٹری خزانہ اور دیگر افسر بھی موجود تھے ،ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے اچھے معاشی فیصلے کرکے ملک کے گردشی قرضوں میں ماہانہ 12 ارب روپے تک کی کمی کی ہے،ا ئندہ چند ماہ میں معیشت کی بہتری کیلیے مزید اچھے فیصلے کیے جائیں گے اور آئندہ 6 سے 12 ماہ میں حالات مزید بہتر ہوں گے۔ حکومت سے قبل گردشی قرضوں میں ماہانہ 36 ارب روپے کا اضافہ ہو رہا تھا لیکن وزیر اعظم عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے ان میں ماہانہ 12 ارب روپے کی کمی لائی گئی ہے۔ اس وقت گردشی قرضوں میں ماہانہ 26 ارب روپے کا اضافہ ہو رہا ہے اور آئندہ کچھ ماہ میں اسے کم کرکے ماہانہ 8 ارب روپے تک لایا جائے گا اور پھر 2020 کے آخر تک اسے صفر پر لایا جائے گا، یہ تاثر غلط ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے پر بھاری سود ادا کرنا پڑتا ہے۔آئی ایم ایف سے قرض لینے پر شرح سود نسبتاً کم ہوتی ہے جب کہ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کے بعد ملک میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ ملک کی ٹیکس آمدن صرف 11 فیصد ہے اور ملک میں فقط 20 لاکھ لوگ ٹیکس بھرتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ وہ تنخواہ دار افراد ہیں جن کا ٹیکس خود ہی کاٹ لیا جاتے ہے جبکہ ٹیکس کا 85 فیصد حصہ صرف 350 کمپنیاں دیتی ہیں۔ 'ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں ان پر اضافی بوجھ نہیں ڈالا جائے اور جو نہیں بھر رہے ہیں یا آمدن کے حساب سے کم دے رہے ہیں ان پر اضافی بوجھ ڈالا جائے اور اس فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت نے نئے ڈیٹا حاصل کیے ہیں'۔ ' ملک میں 3 لاکھ 41 ہزار بجلی اور گیس کے صنعتی کنیکشن ہیں جن میں سے صرف 40 ہزار ہی سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں جس کا مطلب ہے کہ 3 لاکھ ٹیکسس ادا نہیں کر رہے'۔ ملک میں 5 کروڑ بینک اکاؤنٹ ہیں اور جب ایک بینک میں دیکھا گیا تو وہاں 40 لاکھ اکاؤنٹ تھے اور ان میں سے صرف 4 لاکھ بینک اکاؤنٹ ہولڈرز ٹیکس دیتے ہیں جو مجموعی کا 10 فیصد بنتا ہے۔ ملکوں سے 1 لاکھ 52 ہزار پاکستانیوں کے ریئل اسٹیٹ اور ان کے بینک اکاؤنٹ پر نیا ڈیٹا حاصل کیا گیا اور اس کے مطابق 1 لاکھ کمپنیاں ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہیں مگر ان میں سے آدھی ہی ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ملک میں بڑھائی گئی تیل قیمتوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی فی بیرل قیمت 79 ڈالر ہو چکی ہے۔ حکومت کے پچاس لاکھ گھروں کے منصوبے سے 28 سیکٹر میں روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کو کم شرح سود پر قرضے ملیں گے۔ گزشتہ دو سال میں زراعت سیکٹر کی صورتحال مزید ابتر ہوئی ہے، ہم تاکہ اس سے روزگار بھی میسر ہو۔عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہم ٹریڈنگ کے بجائے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترجیح دے رہے ہیں۔ حکومت کو روزگار پیدا کرنے کا ذمہ دار سمجھنے کے بجائے نجی سیکٹر کو اس جانب پابند کریں گے کہ وہ زیادہ سے زیادہ روزگار دیں اور حکومت نجی سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے لیے ایسی کمپنیوں کو مختلف ٹیکس میں چھوٹ دے گی۔ ملک میں بہت ساری ایسی شاہراہیں اور سڑکیں ہیں جن کی تعمیر کے لیے نجی سیکٹر سے مدد لیں گے، حکومت سڑکوں پر سرمایہ خرچ کرنے کے بجائے اہم کاموں پر خرچ کرے گی۔ مشکل دن ختم ہونے جارہے ہیں، معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، یہ وقت اختلافات کا نہیں ہے،کہا جارہا ہے کہ آْئی ایم ایف پروگرام سے متعلق کچھ بتایا نہیں جارہا اور پھر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شرائط بہت سخت ہیں، اگر بتایا نہیں جارہا تو پھر انہیں یہ کیسے پتہ چل گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام سخت ہے۔انہوں نے کہا کہجب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو حکومت اقتصادی مشکلات کا شکار تھی،کل اندرونی قرضہ 31 ہزار ارب روپے اور بیرونی قرضہ100 ارب ڈالر تھا ،ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم تھے ،برآمدی شعبہ کی کارکردگی صفر تھی ۔مالیاتی خسارہ 2.3 کھرب روپے تھا جبکہ گردش قرضہ 38 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 2017 سے کم ہونا شروع ہوگئی تھی، حالات پر قابو پانا تھا حکومت نے فوری نوعیت کے اقدامات کئے چین ،متحدہ امارات اور سعودی عرب سے 9.2 ارب ڈالر کی امدادلی گئی جس سے ادائیگیوں میں توازن کو یقینی بنایا گیا شرح سود کو بھی مینج کیا گیا،درآمدات کی شرح میں کمی لائی گئی اور اس میں کمی کا حجم 2 ارب ڈالر ہے ،ترسیلات میں اضافے پر توجہ دی گئی ،انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کے پاکستان کی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اس کے نتیجے میں عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے 2 سے 3 ارب ڈالر مالیات کے پروگرام قرضے پاکستان کو ملیں گے،اسی طرح اسلامی ترقیاتی بنک بھی موخر ادائیگی پر 1.2 ارب ڈالر کی فیسیلٹی دے گا کئی ممالک جاچکے ہیں پاکستان بھی ماضی میں آئی ایم ایف کے پاس جاچکا ہے ، ہمارا پروگرام تین سال کا ہے اس کے تحت پاکستان کو 3.2 فیصد کی شرح سے قرضہ دیا جائے گا،اس پروگرام سے دیگر اداروں کو بھی پاکستان کی فنانسنگ کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی ، انہوں نے کہا کہ گیس قیمتوں میں اضافے کی صورت میں 40 فیصد صارفین کو تحفظ فراہم کیا جائے گا ،مشیر خزانہ نے کہا کہ نئی ملازمتوں کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں ،معیشت کی بڑھوتری اگرچہ اچھی نہیں لیکن اگر ہم پالیسیاں بہتر بنائیں تو اس سے ملازمتوں کے زیادہ مواقع حاصل ہوسکتے ہیں،2008 سے2013 تک گروتھ ریٹ کم تھا لیکن پالیسیاں بہتر ہونے سے لاکھوں کی تعداد میں ملازمتیں پیدا ہوں گی،2013 سے 2018 تک اگرچہ گروتھ ریٹ اچھا تھا لیکن پالیسیاں اچھی نہ ہونے سے ملازمتوں کے مواقع کم پیدا ہوئے ،انہوں نے کہا کہ ہائوسنگ پروگرام کے تحت 28 شعبوں میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے،اس کے تحت کئی شہروں میں کام شروع ہوچکا ہے،کامیاب جوان پروگرام پر عمل درآمد کا آغاز کیا گیا ہے نوجوانوں کو رعایتی نرخوں پر قرضے دئیے جائیں گے اس کیلئے 100 ارب مختص کئے جارہے ہیں، زراعت کو بہتر بنایا جارہا ہے ہماری کوشش ہے کہ زرعی ترقی کیلئے 250 ارب روپے مختص کئے جائیں اس میں کل 28 پراجیکٹ ہوں گے جس پر صوبوں کے ساتھ مل کر بھی کام کیا جائے گا، مشیر خزانہ نے کہا کہ درآمدات پر توجہ کم کرکے مینوفیکچرنگ پر توجہ دیں گے جس پر روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے ہماری کوشش ہوگی کہ پرائیویٹ شعبہ کو ملازمتیں فراہم کرنے والا شعبہ بنایا جائے اس مقصد کیلئے ٹیکس کی مد میں نجی شعبہ کو مراعات دیں گے تاکہ وہ زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرسکیں انہوں نے کہا کہ رواں سال سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 6 سو ارب سے بڑھا کر 925 ارب روپے کردیا جارہا ہے تاکہ بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے منصوبے مکمل ہوسکیں،صوبوں کے ساتھ مل کر ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ رقوم کا درست استعمال ہوسکے،برآمدات میں اضافے کیلئے چین اور ترقی کے ساتھ خصوصی انتظامات کئے گئے ہیںانہوں نے کہا آئی ایم ایف کبھی بھی ایمینسٹی سکیم کے حق میں نہیں ہو تا ،لیکن ہمیں دیکھنا ہے کہ لوگوں کو متحرک کر کے نارمل سسٹم میں لائیں وفاقی وزیر توانائی عمر اایوب خان نے کہا کہ خلیفہ اائل ریفائنری کا سنگ بنیاد نومبر یا دسمبر میں رکھ دیا جائے گا ،یہ 8ارب ڈالر کا منصوبہ ہے ،بلوچستان میں شمسی تونائی کے لئے یین سے چار ارب ڈالر کے منصوبوں کی بات ہو رہی ہے ،تانسمیشن سسٹم اور میٹنگ سسٹم کی تنصیب اربوں ڈالر کے منصوبے ہیںان سے مارکیٹ پیدا ہو گی مسلم لیگ ن کی حکومت نے معاشی بارودی سرنگیں بچھا ئیں ،چوروں کے خلاف جہاد کر کے 61ارب روپے کی وصولی کی ،وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے کہا کہ قومی ترقیاتی پروگرام 1837ارب روپے کا ہے ،250ارب روپے کا پروگرام پبلک پرائیویٹ شراکت کی بنیاد پر رکھا ہے اس کے تحت سکھر حیدر آباد اور ژوب کوئیٹہ روڈ بنے گی ،مہمند ،بھاشا اور داسو کے لئے ضروری فنڈ رکھا ہے ،زراعت کے لئے رقم میں اضافہ کیا ہے ،10بلین سونامی ٹری کے لئے10ارب روپے رکھے ہیں ،گوادر کو بجلی کے نیشنل گرڈ میں شامل کریں گے ،جی ڈی پی کا ہدف اس سال 4اور 2023میں 6-5فی صد ہو گا ۔مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں سخت بچتی اقدامات پر ملک کی سویلین اور فوجی قیادت متفق ہیں۔ آئندہ بجٹ میں حکومتی اخراجات کو کم سے کم سطح پر لایا جائے گا۔ اس وقت حکومتی اخراجات کا نصف سے زائد عسکری اور دفاعی شعبے میں جاتا ہے۔ تاہم حفیظ شیخ نے اس بارے میں تبصرہ نہیں کیا کہ آیا آئندہ بجٹ میں دفاعی شعبے میں کٹوتی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ چند روز قبل پاکستانی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک بیل آؤٹ معاہدہ طے پایا ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھیں تو بجلی کے 76 فیصد صارفین پر ریٹ میں اضافے کا اثر نہیں ہوگا۔ گیس مہنگی ہونے کا اثر بھی غریب طبقے پر نہیں پڑے گا ۔عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ لوگوں کو مہنگائی پریشان کر رہی ہے ہمیں مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے مانیٹری پالیسی کو استعمال کیا جائے گا۔معاشی حالات کو بالکل بگڑنے سے روکنے کے لیے اقدامات کر لیے۔ یہ سال ملکی معیشت کے استحکام کا سال ہو گا چند ماہ میں اہم فیصلے کرینگے ۔