امریکی جارحیت کا مل کر مقابلہ کرینگے: ایران، عراق کا عزم
تہران‘ واشنگٹن ‘ بغداد (صباح نیوز/ نیوز ایجنسیاں) ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ باہمی اعتماد اور آپس میں یکجہتی ایران کے خلاف امریکی معاشی جنگ کو جیتنے کی سب سے اہم ضروریات ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ صدر روحانی نے ملک کی مشکل صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی حکومت کو فخر ہے کہ رواں سال میں مشکل حالات کے پیش نظر ملک میں بنیادی اشیا کی فراہمی دوسرے سالوں کے مقابلے میں بہتر ہے اور اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہم عوام کی زندگی کی صورتحال کو مزید مشکل نہ بنانے کیلئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ، ایرانی عوام کو ان کے سامنے جھکنے پر مجبور نہیں کر سکتا ہے اور ہم اس سال بھی مشکلات اور دبائو کے باوجود ملک کو اچھی طرح چلائیں گے۔ امریکہ نے مزید 1500 فوجی مشرق وسطیٰ میں تعینات کر دیئے۔ این این آئی کے مطابق ایران کے ایک سینئر عسکری عہدیدار جنرل مرتضیٰ قربانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران، امریکا کے جنگی بیڑے کو خفیہ ہتھیاروں اور میزائلوںکے ذریعے خلیجی پانیوں میں عملے سمیت ڈبونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی فوج کے مشیر جنرل قربانی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا نے علاقائی پانیوں میں اپنے دو جنگی بیڑے بھیج کر سنگین غلطی اور بہت بڑی حماقت کی ہے۔ امریکی جنگی بیڑے، ان پر موجود طیارے اور دیگر عملہ ہمارے میزائلوں کے نشانے پر ہیں۔ عراق کے اہل سنت محکمہ اوقاف کے سربراہ شیخ عبداللطیف الہمیم نے ایک انتہائی اہم فتوے میں اہل سنت سے کہا ہے کہ وہ ایران کا دفاع کریں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق شیخ عبداللطیف الہمیم نے اہل سنت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سب کو ایران کا دفاع کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، یہ دفاع واجب شرعی ہے اور سب کو اطاعت کرنی چاہیے۔ مشرق وسطیٰ‘ عالم اسلام میں صیہونی منصوبوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ عراق‘ شام‘ لیبیا کو طاقت کے توازن سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ مصر کو بھی کھیل سے باہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی سے بغداد میں ملاقات کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نے عراق کے دورے میں اپنے عراقی ہم منصب محمد علی الحکیم سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں عراقی رہنماؤں نے جنگ کے خطرات سے خبردار کیا۔ خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں بی 52 بمبار اور جنگی بحری بیڑا پہلے ہی تعینات کر چکے ہیں تاہم گزشتہ روز انہوں نے 15 سو فوجی پر مشتمل خصوصی دستے بھی تعینات کر دیئے جس سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ جاوید ظریف نے کہا کہ ہم ایران کے خلاف اقتصادی اور فوجی جنگ کے اقدامات کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے عراق کے تناظر میں مزید کہا کہ ہم مل کر بھرپور طاقت سے (امریکہ) کا سامنا اور مزاحمت کریں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ کے عراقی ہم منصب محمد علی الحکیم نے کہا کہ ’ہم اپنے پڑوسی ایران کے ساتھ ہم قدم کھڑے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندی غیر ضروری قرار دیا اور کہا کہ ’پابندی سے ایرانی شہریوں کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ عراقی حکام نے بتایا کہ عراقی وزیراعظم عبدالمہدی نے ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات میں کہا کہ ’جنگ کے خطرات‘ جنم لے رہے ہیں۔ امریکہ کو جوہری معاہدے کی پاسداری کر کے خطے میں استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جواد ظریف نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلق رکھنا چاہتے ہیں تاہم کسی بھی قوت کی جانب سے مسلط کی گئی معاشی یا جنگی جارحیت پر اپنا دفاع خود کرے گا۔ ایران کے وزیر دفاع محمد ظریف نے یورپی ممالک سے عالمی جوہری توانائی معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا اور امریکہ کے معاہدے سے نکل جانے کو عالمی امن کو تباہ کرنے کی سازش قرار دیا۔