اسلام آباد: بلاول نیب پیش، پولیس اور جیالوں میں جھڑپیں، لاٹھی چارج شیلنگ
اسلام آباد (نامہ نگار+نمائندہ خصوصی) چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری جعلی اکائونٹس کیس میں نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوگئے ہیں،نیب کی ٹیم نے بلاول بھٹو زرداری سے 20منٹ تک پوچھ گچھ کی اور میں 32سوالات پر مشتمل سوالنامہ بلاول کو دے دیتے ہوئے 14روز میں جواب دینے کی ہدایت کی ہے قائد سے اظہار ئکجہتی کے لیے آنے والے کارکنوں اور پو لیس کے درمیان تصادم بھی ہوا،پو لیس کی طرف سے کارکنوں کو روکنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا اور آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا،پو لیس نے2خواتین ارکان قومی اسمبلی مسرت رفیق مہیسر اور ڈاکٹر شازیہ سومرو سمیت کئی جیالوں کو گرفتار کر لیا۔ تاہم بعدازاں انہیں رہا کر دیا گیا۔ بدھ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر میں بلاول نیب اولڈ ہیڈکوارٹر میں اوپل 225کیس میں نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے ، ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی عرفان منگی کی سربراہی میں کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی)نے بلاول سے اوپل225جوائنٹ وینچر انکوائری پر پوچھ گچھ کی۔ذرائع کے مطابق نیب نے بلاول سے سوال کیا آپ زرداری گروپ کے چیف ایگزیکٹو رہے؟ زرداری گروپ نے ملکیتی اراضی پر اوپل 225منصوبے کیلئے جوائنٹ وینچر کیا ؟ زرداری گروپ نے نجی کمپنی سے منصوبے سے قبل ایک ارب رشوت لی ؟ زرداری گروپ کو وصول 1 ارب 22کروڑ روپے پر جواب دیں۔نیب ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے اوپل 225پراجیکٹ سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا اس وقت زرداری گروپ کا چیف ایگزیکٹو نہیں ہوں، بلاول بھٹو نے اپنا ابتدائی بیان قلمبند کرا دیا۔ نیب نے 32سوالات پر مشتمل سوالنامہ بلاول کو دے دیا جس پر چیئرمین پیپلزپارٹی نے تمام سوالات کے جواب کیلئے 2ہفتے کی مہلت مانگی، نیب نے درخواست منظور کرتے ہوئے 14روز میں جواب دینے کی ہدایت کی۔اس موقع پر اسلام آباد انتظامیہ نے جیالوں کے اسلام آباد میں داخلے پر پابندی لگا دی ،دیگر شہروں سے آنے والے پی پی کارکنوں کو روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اسلام آباد انتظامیہ نے نوٹیفکیشن میں کہا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے اسلام آباد میں داخلے سے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ پابندی کے باوجود اپنے لیڈر کے استقبال اور ان سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے کارکن بڑی تعداد میں نیب ہیڈکوارٹر پہنچے، انہوں نے اپنے لیڈر بلاول کے حق میں نعرے لگائے۔ جیالے اپنے رہنما بلاول بھٹو سے یکجہتی کیلئے زرداری ہائوس پہنچے تو انہیں ایوب چوک پر روک دیا گیا جہاں پر پولیس اور پی پی کارکنوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے واٹر کینن کا استعمال کیا، کارکنوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا، لاٹھیاں بھی برسائی گئیں۔اس کے باوجود کارکنان نیب آفس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے،کارکنان کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ بھی وہاں پہنچے تھے تاہم انہیں پولیس نے ڈی چوک پر نہ روکتے ہوئے نیب ہیڈ کوارٹر جانے کی اجازت دی۔بلاول بھٹو زرداری کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری سمیت پارٹی رہنما راجہ پرویز اشرف،سید نوید قمر،مصطفیٰ نواز کھوکھر، مرتضی وہاب، نیئربخاری بھی نیب ہیڈکوارٹر پہنچے۔ پولیس اور پی پی کارکنوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی، جھڑپوں کے دوران پولیس والے پیچھے پیچھے اور کارکنان آگے آگے دوڑتے رہے۔ پولیس نے بھرپور ایکشن کا مظاہرہ کیا اور مزاحمت کرنے والے کئی کارکنوں کو گرفتار کر کے گاڑی میں ڈال دیا پھر حوالات منتقل کیا۔ تاہم پھر انہیں رہا کر دیا گیا۔ گرفتار اور رہا ہونے والوں میں دو خواتین اراکین قومی اسمبلی مسرت رفیق مہیسر اور ڈاکٹر شازیہ سومرو بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اخبار کے فوٹوگرافر کو بھی پولیس نے گرفتار کیا، تاہم صحافیوں کے احتجاج کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو روکنے کے لیے وفاقی دارالحکومت کے تمام داخلی راستے سیل کر دیے گئے۔ صرف سرکاری اور نجی ملازمین کو کارڈ دکھا کر آنے دیا گیا۔ راستوں کی بندش سے سرکاری ملازمین بھی میلوں کا سفر پیدل طے کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے علاوہ نیب کے دفتر کے اطراف بھی جیالوں اور میڈیا کے نمائندوں کا داخلہ بند تھا۔زرداری ہائوس کے داخلی راستوں پر پولیس کی نفری تعینات کی گئی تھی اور موقع پر گرفتاریوں کے لیے پرزنر وین اور مخصوص گاڑیاں بھی موجود تھیں تاہم پولیس اہلکار جیالوں کو زرداری ہائوس جانے سے روکنے میں ناکام ہوگئی۔ بلاول نے گرفتاری کے بعد رہائی پانے والے جیالوں کے ساتھ افطاری کی ،آصفہ بھٹو زرداری اور بختاور بھٹو زرداری بھی موجود تھیں ، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے گرفتار ہونے والی خواتین ارکان قومی اسمبلی مسرت مہیسر اور اور ڈاکٹر ثوبیہ سومرو نے ملاقات کی ،جبکہ دیگر ملنے والوں میں کارکنان منظور بشیر تنگی، اقبال ساند، عالم زیب ایڈووکیٹ اور شہاب احمد ، جبار احمد چلہ، ہلال سعید رحمانی اور ملک فہیم الرحمان ، مسرور احمد، راجہ عمران، ملک رمیز، ملک محمد امیر صابری اور راجہ علی جواد ، شہباز محمود بھٹی اور سردار منظور ممتاز عباسی شامل تھے۔ کارکنان نے کہا کہ بلاول نے کارکنوں کو بلاکر شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی یاد تازہ کردی۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں سلیکٹڈ حکومت نامنظور ہے یہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز، اپوزیشن ا ور جرنلسٹ بھی سلیکٹیڈ ہوں ،عید کے بعد سڑکوں پر نکلیں گے ، علی وزیر کے پروکشن آرڈر جاری ہونا چاہئے تاکہ وہ آ کر اپنا موقف دیں اور ملک کو پتہ چل سکے کہ شمالی وزیرستان میں کیا ہو رہا ہے ، ایک سازش کے تحت پی پی پی کمز ور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،پرامن لوگوں کے خلاف حکومت اور ریاست نے جو رویہ اپنایا اس کی مذمت کر تا ہوں، کوئی کال نہیں دی تھی ، اظہار رائے اور جمہوریت میں حصہ لینا سب کا حق ہے ،حکومت نیب کو بھی دبائو سے چلا رہی ہے ،گذ شتہ ویک اینڈ پر تو بلیک میلنگ پر اتر آئے، عمران خان کی حکومت قانون کی حکمرانی اور جمہوریت پسند ججز کے خلاف سازش کر رہی ہے تاکہ ان کو نکال دیں ، بلاول بھٹو زرداری نے ان خیالات کا اظہار گذشتہ رو زرداری ہائوس اسلام آباد میں نیب میں پیشی کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،قومی اسمبلی کے رکن سید نوید قمر، فرحت اللہ بابر سید نئیر حسین بخاری اور دیگر راہنما بھی موجود تھے بلاول بھٹو زردار نے کہا کہ حکومت نے اپنی نالائقی کو چھپانے کے لیے سازشیں شروع کردیں اور عمران خان مخالفین کے خلاف ریاست کو استعمال کررہے ہیں، اسلام آباد میں کوئی ایمرجنسی یا دفعہ 144 نافذ نہیں تھی، ہم نے احتجاج کی کوئی کال نہیں دی تھی اور نیب قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ آپ کے ساتھی آپ کے ساتھ پر امن طریقے سے نہیں جاسکتے۔انہوں نے کہا کہ نیب میں پیشی پر حکومتی رویہ قابل مذمت تھا، حکومت اور عمران خان کی طرف سے پی پی کارکنان پر حملہ کیا گیا، واٹر کینن اور آنسو گیس استعمال کی گئی، یہ ہمارے کارکنان اور ہمارے لیے کوئی نئی چیز نہیں، ہم اس قسم کے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے اور نہ اصولوں اور نظریے پر پر کوئی سمجھوتا کریں گے، اعجاز شاہ اپنا پرانا آمرانہ طریقہ استعمال کررہے ہیں جو نظر آرہا ہے۔ نام نہاد جمہوریت میں یہ نہیں ہونا چاہیے، جمہوریت میں ہر پاکستانی کا حق ہے کہ وہ جمہوری حق استعمال کرے۔انہوں نے کہا کہ خان صاحب ایک سازش پر اتر آئے ہیں کہ وہ ملک کے ہر ادارے پر قبضہ کریں اور ون پارٹی رول نافذ کریں، ان سے چھوٹے سے بلاگر اور صحافی یا سیاستدان تک کی مثبت تنقید برداشت نہیں ہورہی، عوام کو محسوس ہورہاہے کہ خان نے تبدیلی کے نام پر دھوکا دیا ہے، عمران خان سے یہ حکومت چل نہیں پارہی، یہ نااہل نالائق ہیں اور ان میں ملک چلانے کی صلاحیت نہیں، معیشت برباد ہورہی ہے اور مزدوروں کا معاشی قتل ہورہا ہے۔ حکومت نے اپنی نالائقی کو چھپانے کے لیے سازشیں شروع کردیں اور فورس استعمال کررہی ہے، بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے خلاف جو تشدد آج کیا گیا اس کی ویڈیو منگوارہا ہوں، ہمارے پاس تمام قانونی راستے ہیں جنہیں استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں نیب جو مشرف نے بنایا یہ کالا قانون ہے، جیسے ہر آمر کا قانون کالا ہوتا ہے یہ بھی ایک کالا قانون ہے، یہ ادارہ سیاسی انتقام اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے بنایا گیا ہے، ہمارے پورے کیس میں رول آف لاء اور قانونی طریقہ استعمال نہیں کیا جارہا لیکن ان تمام اعتراضات کے باوجود ہم ہر ادارہ کو ہمشیہ ترجیح دیتے ہیں، اس کیس میں پیش ہوا جب اس کمپنی کا شیئر ہولڈر بنا تو اس وقت میں اسکول کا بچہ تھا۔ نیب کے دفتر میں تقریباً 20 منٹ انٹرویو ہوا، جن سوالوں کے جواب دے سکتا تھا دیا، نیب نے مجھے سوالنامہ دیا ہے تاکہ اپنے وکلا سے مشورہ کرکے اس کا جواب دے سکوں۔ ہم نے ہمیشہ دْہرے نظام کا سامنا کیا اور اببھی کررہے ہیں، کل بھی باعزت بری ہوئے اور ابھی باعزت بری ہوں گے۔ن سب چیزوں کا اثر معیشت پر ہوتا ہے اس لیے کہتے ہیں کہ نیب اور معیشت ساتھ نہیں چل سکتے، اس ملک میں بیوروکریٹ اور بزنس مین کام کرنے کو تیار نہیں کیونکہ انہوں نے لاہور میں پروفیسرز اور ڈاکٹرز کے ساتھ نیب کا رویہ دیکھا ہے، اس طرح کے رویے سے ملک میں خوف پھیلتا ہے، حکومت نے ملک کے 80 فیصد بزنس مینوں اور بیورکریٹس کو چور قرار دیا ہے اس وجہ سے معیشت نہیں اٹھ رہی، اس وقت جو قدم اور رویہ اس حکومت کا ہے یہ وہی رویہ ہے جو مشرف کا تھا اور اگر اسلام آباد کی یہ صورتحال ہے تو آپ سوچیں فاٹا میں کیا ہورہا ہے، جہاں دوسرا رخ دکھانے کے لیے صحافی بھی موجود نہیں، انہوں نے کہا کہ یہ خوش نہیں ہے کہ نیب ان کا 99 فیصد کام کررہا ہے، یہ چاہتے ہیں نیب سمیت سپریم کورٹ کے جج، اپوزیشن، صحافی بھی سلیکٹڈ ہوں، پیپلزپارٹی نے پہلے بھی اعلان کیا تھا کہ عید کے بعد سڑکوں پر نکلیں گے، جس طریقے سے فاٹا سے کراچی تک دیکھ رہے ہیں، جمہوریت پر حملے ہورہے ہیں، انسانی اور معاشی حقوق پر حملے ہورہے ہیں، عمران خان اپنے مخالفین کے خلاف ریاست کو استعمال کررہے ہیں، ایسے میں جمہوریت پسند جماعتوں اور سیاستدانوں پر فرض ہے کہ وہ باہر نکلیں اور عوام کو بتائیں کس طریقے سے حکومت ان کا حق چھین رہی ہے، چیئرمین نیب کو متنازع انٹرویو نہیں دینا چاہیے لیکن دے دیا، یہ حکومت شروع نیب سے ہوتی ہے اور ختم بھی نیب پر ہوتی ہے،، صحافی کے کالم میں چیئرمین نیب کی جانب سے کہا گیا کہ حکومتی نمائندوں کے کیس کھولتا ہوں تو حکومت گرجائے گی اور پھر دو دن میں بعد ویڈیو آتی ہے، اس معاملے پر عمران خان اور ان کے معاون خصوصی سے تفتیش ہونی چاہیے، انہوں نے اپنے معاون کو ہٹایا تو اتنا تو مان لیا کہ وہ ملوث تھے۔ایک سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ اس ملک نے کافی کچھ دیکھا، سب دعا کرتے ہیں کہ وفاق قیامت تک پاکستان رہے، ملکوں کے ساتھ رہنے کا طریقہ کار ہوتا ہے، جب ہر پاکستانی کو بولنے اور ووٹ کا حق حاصل ہو اور جمہوریت ہو تو وفاق مضبوط ہوتا ہے، ہم نے ماضی میں دیکھا کہ جب ہم نے جمہوریت پر سمجھوتا کیا تو ملک کو نقصان ہوا اور بنگلہ دیش بنا، آج لوگ سوال پوچھ رہے ہیں، ان کو نطر آرہاہے کہ آج ہمارا پارلیمانی نظام خطرے میں ہے، پہلے اگر بنگلا دیش بنا تھا تو آج اور کتنے دیش بن سکتے ہیں اس لیے سمجھتے ہیں جب تک جمہوریت رہے گی، جب تک وفاقی پارلیمانی اسلامی نظام ہے تب تک اس ملک کو کوئی خطرہ نہیں۔ حکومت ہر پوائنٹ پر یوٹرن لیتی ہے، ہم کورٹ اور نیب کا سامنا کررہے ہیں لیکن علیم خان، علیمہ خان، خان صاحب اور جہانگیر ترین سمیت مشرف کی باقیات نیب کا سامنا نہیں کررہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ دْہرا نظام چلے، اگر سندھ میں کسی مل مالک کا بے نامی اکاؤنٹ ہے تو وہ جیل جائے گا تو پھر سب کے لیے یہی نظام ہونا چاہیے، ایسا نہیں ہوسکتا مل مالک پی ٹی آئی کا ہو تو اس کا بے نامی اکاؤنٹ حلال ہے، عمران خان نے خان نے خودکہا تھا دو نہیں ایک پاکستان مگر اب اس پر بھی یوٹرن لے لیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ مشرف کے پاکستان اور آج کے پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے ، عید کے بعد اے پی سی کا اجلاس ہو گا، جس میں اپوزیشن جماعتیں مشاورت کریں گی، ہم حقوق کیلئے نکلیں گے حکومت گرانے کیلئے نہیں۔