• news
  • image

سیالکوٹ کا بڑا پاکستانی مسیحی لیڈر

اقلیتی لیڈر کے طور پر جے سالک سیالکوٹ سے 4 دفعہ قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔ وہ بے پناہ سادہ آسودہ بے تکلف اور مقبول ترین مسیحی لیڈر ہے۔ اس نے ہر دفعہ الیکشن میں ٹاپ کیا۔ سب سے زیادہ ووٹ اُسے ملے۔ اتنا محبوب آدمی تو کوئی مسلمان لیڈر بھی نہ ہو گا۔ اس کی محبت تمام تعصبات اور تکلفات سے بالاتر ہے۔
سیالکوٹ میں اس کے والد نے میٹرک امتحان میں سارے ریکارڈ توڑ دئیے۔ یہ شہر بے مثال ہے۔ بین الاقوامی مرتبے کی بستی ہے۔ یہاں پاک سرحد بہت قریب ہے۔ چونڈہ ایک بہت معروف بستی ہے جو 65 ء کی پاک بھارت جنگ میں عالمگیر بہادری اور قربانی کی علامت بنی۔ یہاں ایک بہت دانشور پاکستانی شاعرہ ادیبہ شکیلہ جبیں رہتی ہے۔ سیالکوٹ میں 360 ڈائریکٹروں اور تاجروں نے مل کر انٹرنیشنل ائیرپورٹ بنوایا جو ایک کارنامہ ہے۔ سیالکوٹ کا چیمبر آف کامرس بہت معروف ہے۔ جے سالک پاکستان بھر میں مقبول اور بے تکلف سیاستدان ہے۔ اس نے ہمیشہ سیالکوٹ کو یاد رکھا۔ اب 70 سال جے سالک کی عمر ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ کوئی آدمی کہیں بھی مل سکتا ہے بلکہ گپ شپ بھی کرسکتا ہے۔ وہ کئی دفعہ نوبل امن پرائز کے لیے نامزد ہوا ہے۔ اب تو اسے یہ عالمی ایوارڈ مل جانا چاہئے۔ اس کی خدمات ہر لحاظ سے اس قابل ہیں۔ سات دفعہ اس نے 16 ایم پی او کے تحت جیل کاٹی۔ کئی دفعہ اسمبلی سے استعفیٰ دیا۔ میں کرپٹ اسمبلی میں نہیں بیٹھ سکتا۔ اپنے خون سے استعفیٰ لکھا۔
امریکہ میں قیام کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ وہاں سالک نے ایک کتاب بھی لکھی ۔ ’’پیس جرنی‘‘ (امن کا سفر) اس کا اردو ترجمہ بھی ہونا چاہئے۔ پاکستان میں یہ کتاب مقبول ہو گی۔ جے سالک امریکہ میں اپنی کتاب کی افتتاحی تقریب کرنا چاہتے ہیں۔سالک کو توقع ہے کہ اس شاندار تقریب میں پاپائے اعظم، امام کعبہ، بشپ آف کنٹریری اور بہت نامور لوگ شرکت کریں گے۔
43 سال سالک نے خدمت کی۔ کوئی لالچ دل میں نہیں۔ ایک انچ زمین اس کے نام نہیں۔ کوئی کرپشن کوئی الزام ان کی ذات پر نہیں۔ امریکہ میں اس کا بیٹا کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ پاکستان میں کرائے کے مکان میں ساری عمر اس نے گزار دی۔ جب وہ وزیر تھا ، اس نے کچی آبادیوںکو مالکانہ حقوق دلوائے۔ اس وقت تین مرلے کا پلاٹ 15 ہزار کا تھا اب اس کی قیمت ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ آٹھ کچی آبادیاں مسیحیوں کی ہیں اور پانچ کچی آبادیاں مسلمانوں کی ہیں۔ سالک استعفیٰ دینے کے بعد ننگے پائوں مزار اقبال پر پہنچا۔ ویمن تھانے جے سالک کے احتجاج پر قائم کئے گئے۔
ایک بارعمر ایوب سے اُس کی بات ہوئی، اس نے کہا کہ میں انرجی کا وزیر ہوں۔ سالک نے اُسے کہا کہ انسانوں میں انرجی پیدا کرو، قوم میں نیشنل انرجزم ہو گا تو بات بنے گی۔ اس انرجی کے لیے کام ہونا چاہئے۔ ہمارے پاس نیشنل سنٹر تھے جہاں اجلاس ہوتے تھے لوگ تقریریں کرتے تھے ، نئی نسل کی تربیت ہوتی تھی ، ہم جوان تھے تو کشور ناہید یہاں ڈائریکٹر تھی۔
یہ نیشنل سنٹر نواز شریف نے بیچ دئیے۔ سالک نے اسمبلی میں شور مچایا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ ہمارے ہاں امریکن سنٹر ہے۔ برٹش سنٹر ہے مگر پاکستان سنٹر نہیں ہے۔
سالک کی خدمت میں گزارش ہے کہ اب شاید اس بات کا نواز شریف کو احساس ہے اور میں بھی محسوس کرتا ہوں کہ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ میں نے بھی نیشنل سنٹر کی تقریبات میں شرکت کی تھی۔ کشور ناہید نے اس میں بہت دلچسپی لی تھی۔ میں نے بھی وہاں کئی بار شرکت کی۔ اب عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان نیشنل سنٹرز بحال کرائیں اور علمی ادبی ثقافتی سرگرمیاں شروع ہوں۔ اب شہروں میں ثقافتی اور ادبی سرگرمیاںنہیں ہوتیں۔
سارا سارا دن بعض اوقات اپنے کمرے میں گزر جاتا ہے۔جائیں تو کہاںجائیں۔ کس سے ملیں۔ کوئی ایسی شخصیت بھی نہیں۔ کوئی تقریب نہیں ہوتی۔ ایک اجاڑ ہے اور خموشی ہے جو دل جلاتی ہے۔اب سالک بھی امریکہ چلا گیا ہے۔
سالک سے میری گزارش ہے کہ وہ امریکہ کے سامنے پاکستان کا موقف رکھے۔ وہ پاکستان میں وزیر بھی رہا ہے۔ وہ بہتر سمجھتا ہے کہ پاکستان کا موقف کیا ہے۔ کوئی تو ہو جو اس میدان میں بھارتی بالادستی کاتوڑ کرے۔ مجھے یقین ہے کہ جے سالک پاکستان واپس آئے گا تو پھر سیاسی شعبے میں اس کازبردست کردار ہو گا اور وہ پھر وزیر کے منصب پر پہنچے گا۔
جے سالک ایک سچا اور بڑا پاکستانی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوںکا کردار بہت خوش آئند ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کے لیے ہر حکومت کے دوران بہت محبت ہے۔ وہ سارے حقوق دئیے گئے جو آئین پاکستان ان کے لیے متعین کرتا ہے۔ بھارت کے مقابلے میں اقلیتوں کے لیے پاکستان میں آئیڈیل صورتحال ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کا جو حال ہے وہ تو ساری دنیا پرعیاں ہے۔ وہاں مسیحیوں کے حالات بھی اچھے نہیں۔
پاکستان میں جے سالک جیسا سیاستدان پیدا ہوتا ہے اور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم نے بھارت میں کسی مسیحی نامور آدمی کا نام نہیں سنا۔ پاکستانی مسیحیوں کے علاوہ مسلمان بھی جے سالک کو پسند کرتے ہیں ا ور انہیں بہت عزت دیتے ہیں انہیں اپنا دوست رکھتے ہیں۔
کئی لوگ بڑی مدت تک جے سالک کو مسلمان سمجھتے رہے۔ کبھی انہوں نے کسی تنگ نظری اور تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عام طور پر مسیحیوں کا طرز عمل پاکستان میں ایسا ہی ہے اور پاکستان والوں نے بھی کبھی منافرت اور مذہبی تعصب کا منفی انداز نہیں اپنایا۔ میں جے سالک کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کی وجہ سے مذہبی اختلاف نے اس اعتراف کو نشانہ نہیں بنایا کہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ پاکستان زندہ باد کا نعرہ گونجتا ہے تو اقلیتوں کی آواز بھی صاف سنائی دیتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن