قومی اسمبلی میں ہنگامہ‘ حکومتی اپوزیشن ارکان گتھم گتھا
اسلام آباد (وقائع نگار+وقائع نگار خصوصی) قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرکے معاملے پر شدید ہنگامہ ہوا۔ حکومتی اور اپوزیشن اراکین گتھم گتھا ہوگئے اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا حکومتی اراکین بھی کراچی میں پانی کی فراہمی کے پوسٹرز اٹھائے اپوزیشن کے سامنے جمع ہوئے تو دونوں جماعتوں کے اراکین کے درمیان جھگڑا ہو گیا ہے اور اراکین نے نعرے بازی شروع کردی جس پر سپیکر نے ایوان زیریں کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان متحدہ مجلس عمل کے رکن قومی اسمبلی جمال الدین کے علی وزیر کی گرفتاری اور پروڈکشن آرڈرز کے اجراء کے حوالے سے ایوان میں خطاب کے دوران پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید رفیع اللہ‘ نعمان اسلام شیخ اور دیگر نے ایوان میں نعرے بازی شروع کردی۔ اسی اثناء میں وہ سپیکر ڈائس کے گرد جمع ہوگئے اور اپوزیشن ارکان نے ایوان میں نعرے بازی شروع کردی۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے ایوان میں کراچی کو پینے کے پانی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے پوسٹر لہرائے جس پر پیپلز پارٹی کے نعمان اسلام شیخ نے پی ٹی آئی کے ایک رکن سے پوسٹر لے کر پھاڑ دیا اور دونوں ارکان کے درمیان تلخ کلامی اور نوک جھونک بھی ہوئی جس پر ڈپٹی سپیکر نے نوٹس لیتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔ قبل ازیں پی پی‘ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کی طرف سے علی وزیر اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ وزیر مملکت برائے سیفران شہریار خان آفریدی نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کی بجائے افغان انتظامیہ منظور پشتین کو طاہر داوڑ کی میت دینے کے لئے تیار تھی‘ میت حوالگی کے وقت پاکستان کے پرچم کے ساتھ جو کچھ ہوا یا پاکستان کے حوالے سے جو ریمارکس دیئے گئے وہ یہاں بیان نہیں کئے جاسکتے‘ اپوزیشن توجہ مبذول نوٹس کے ذریعے تمام تفصیلات حکومت سے طلب کر سکتی ہے‘ اس مسئلے پر سیاست نہ کی جائے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران طاہر داوڑ کے اغواء اور بعد ازاں انہیں قتل کرنے کے حوالے سے خرم دستگیر کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت شہریار آفریدی نے کہا کہ بدقسمتی سے ماضی میں ایک نیا قانون بنایا گیا کہ ملک کے کسی بھی حصہ میں بسنے والے پختون کو 1979ء سے پہلے کے ملک میں موجود ہونے کے شواہد فراہم کرنے ہیں اور نادرا کو بھی حکم دیا گیا کہ جس پٹھان کی بھی مشابہت افغانی سے ہو اس کا شناختی کارڈ بلاک کردیا جائے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے پختونوں کے ایک لاکھ 87 ہزار سے زائد بلاک شناختی کارڈ جاری کرائے اور نادرا سے مشابہت والی شق ختم کرائی۔ طاہر داوڑ شہید پاکستان کا بیٹا تھا۔ تمام اراکین توجہ مبذول نوٹس کے ذریعے یہ تفصیلات حکومت سے طلب کرے۔ اس مسئلہ پر سیاست نہ کی جائے۔اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ جو پاکستان اور اس کے جھنڈے کو نہ مانے اور جس کی وجہ سے ملک میں افراتفری اور فساد پھیلے اس کو یہاں رہنے اور اس ایوان میں بیٹھنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں‘ ایسے ارکان کی رکنیت منسوخ کی جائے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اس خطہ میں دو بڑی جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ اس سے یہاں غیر معمول حالات رہے ہیں۔ ہم نے 30 سے 35 لاکھ افغان مہاجرین کو رکھا ہوا ہے۔ پاکستان نے قربانی کی مثال قائم کی۔ افغانستان سے طاہر داوڑ کی لاش ملی ہے۔ ہمارا سوال بنتا ہے کہ پاکستان کے بیٹے کی لاش وہاں سے کیوں ملی ہے پھر انہوں نے لاش پاکستان کے وزیر داخلہ کرنے کی بجائے منظور پشتین کے حوالے کرنے پر اصرار کیا ۔ جس نے پاکستان کے اداروں اور پاکستان کی جڑیں کاٹیں اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ پاکستان کو بچانا ہے یا اس معاملے پر سیاست کرنی ہے۔ یہ لوگ اپنے جلسوں میں پاکستان کا جھنڈا تک نہیں لانے دیتے جس کی وجہ سے ملک میں افراتفری اور فساد پھیلے اس کو ایوان میں بیٹھنے کا بھی حق نہیں ہے اس کی رکنیت منسوخ کی جائے۔ جو پاکستان اور اس کے جھنڈے کو نہیں مانتا یہاں رہنے کا بھی اس کو حق نہیں ہے۔ علی محمد خان کے خطاب کے دوران بلاول سمیت حزب اختلاف کے ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) اپوزیشن جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، جمعیت علما اسلام (ف) اور بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ مقتدر قوتیں ’’سلیکٹڈ حکومت ،سلیکٹڈ عدلیہ اور سلیکٹڈ اپوزیشن‘‘ چاہتی ہیں،سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کو فیض آباد دھرنا کیس اور سانحہ کوئٹہ میں ان کی ججمنٹ پر سزا دی جا رہی ہے۔چیئرمین نیب ویڈیو سکینڈل اور میرانشاہ واقع کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے،پاکستان کی آزاد عدلیہ کی ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے عدلیہ کو دبائو میں ڈالنے ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کئے گئے ہیں اپوزیشن حکومت کے غیر آئینی اقدامات کی بھر پور مزاحمت کرے گی اعلیٰ عدلیہ پر حملہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا حکومت کا یہ اقدام آزاد عدلیہ پر حملہ ہے پوری قوم اس حملہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی حکومت آزاد عدلیہ کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے آزاد سوچ رکھنے والے بہادر ججوں کو بدنام کی مہم شروع کر دی گئی ہے ، ،حکومت ججوں کے کے خلاف ریفرنس فی الفور واپس لے بصورت دیگر اسے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے یہ بات پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی،بی این پی مینگل کے سربراہ سرداراختر مینگل، جے یو آئی (ف)کی رکن شاہدہ رحمانی نے پارلیمنٹ کے باہر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈرجاری کرنے کیلئے خط لکھا،اسمبلی سیکرٹریٹ کی طرف سے خط موصول ہونے کی رسید بھی موجود ہے، مگر حکومت نے جھوٹ بولا کہ انہیں خط نہیں ملا ۔پارلیمنٹ، عدلیہ، پریس تمام اداروں کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹونے کہا کہ یہ مدینہ کی ریاست بنائی جا رہی ہے جس میں اپوزیشن کے ساتھ یہ سلوک رواں رکھا جا رہا ہے یہ اسلام آباد سے فاٹا تک سلیکٹڈ اپوزیشن چاہتے ہیں،پیپلز پارٹی نے علی وزیر، محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر کیلئے سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا اب حکومت جھوٹ بول رہی ہے کہ انہیں خط نہیں ملا، مقتدر قوتیں سلیکٹڈ حکومت ،سلیکٹڈ عدلیہ اور سلیکٹڈ اپوزیشن چاہتی ہیں ۔ موجودہ حکومت عدلیہ کے خلاف ججوں کے خلاف ریفرنس بھیجے جا رہے ہیں لیکن انہیں بتایا نہیں جا رہا ہے کہ ان کے جرائم کیا ہیں، نہ ہی عوام کو پتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا، حکومت مشرف کا طریقہ کار اپنا رہی ہے، موجودہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ مشرف دور میں بھی تشدد کا طریقہ کار اپوزیشن پر اپناتے تھے۔ پارلیمنٹ میں جمہوریت نہیں آمرانہ طریقہ کار رائج ہے، ہائوس رولز کو نظرانداز کرتے ہوئے اپوزیشن کو ایوان میں بولنے نہیں دیا جا رہا،چند روز قبل پیپلزپارٹی کے پر امن جلوس پر پولیس نے تشدد کیا، لاٹھی چارج سے نا صرف معصوم عوام شدید زخمی ہوئے بلکہ خواتین کو بھی بے دریغ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، پولیس گردی کی زد میں پارلیمنٹیرین خواتین بھی آئیں، جنہیں نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان پر تشدد بھی کیا گیا حالانکہ مظاہرہ پر امن تھا۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ملک گھمبیر مسائل کا شکار ہے، حکومت نے آئے روز ٹیکسوں کی بھرمار کر کے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے، پیپلز پارٹی کے پر امن احتجاج پر پولیس تشدد قابل مذمت ہے، اس احتجاج کی زد میں پارلیمنٹیرین خواتین بھی نشانہ بنیں، حکومت نے براہ راست اعلیٰ عدلیہ پر حملے شروع کر دیئے، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز پر ریفرنس کا مقصد ہے کہ ججز آزاد فیصلے نہ دے پائیں، حکومت یہ چاہتی ہے کہ عدلیہ کو دبائومیں رکھا جائے اور آزاد مائنڈ رکھنے والے بہادر ججوں کو بدنام کیا جائے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت ججزکے خلاف ریفرینسزواپس لے ،اوررات کے اندھیرے میں ریفرنسز بنتے ہیں جن کو کسی کا علم نہیں ہوتا،آج پاکستان کی عدلیہ پرٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، حکومت نے ججوں پردبا ڈالنے کی بدترین مثال قائم کی، عدلیہ کے معاملے پر عوام اکٹھے ہیں، معزز معزز ججز کے خلاف سازش کو ناکام بنائیں گے۔ ہم عدلیہ اور لیگل برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔سینیٹ میں مذمتی قرارداد پاس کی لیکن اسمبلی سے حکومت راہ فرار اختیار کر گئی، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہمارے خلافمہم کا حصہ تھے لیکن ہم نے عدلیہ کا احترام کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پارلیمانیکمیٹی بنائی جائے جوچیئرمین نیب کے معاملے کی شفاف تحقیقات کرنا اور دوسرا میرانشاہ واقعے کی تحقیق کی جائے، ہمیشہ کی طرح حکومت نے قومی اسمبلی سے راہ فراراختیارکی ۔بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ،سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کو فیض آباد دھرنا کیس اور سانحہ کوئٹہ میں ان کی ججمنٹ پر سزا دی جا رہی ہے پیپلز پارٹی کے جلوس خصوصاً خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کو قابل مذمت قرار دیتا ہوں،کہنے کو تو پاکستان جمہوری ملک ہے لیکن جمہوری ملک کے کچھ اصول ہوتے ہیں، یہ جمہوری حکومت نہیں ڈکٹیٹرشپ کی طرح حکومت چلائی جارہی ہے۔ ملک میں عملاجمہوری حکومت کی خوشبو نہیں آرہی ۔پارلیمنٹ، عدلیہ، پریس تمام اداروں کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ ہم حکومت میں شامل ہی نہ اپوزیشن کا حصہ ہیں۔