معیشت کو خطرہ ، سخت پالیسیوں کی ضرورت: مشیر خزانہ
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) تحریک انصاف کی حکومت نے مالی سال 2018-19 کے دوران ملک کی معاشی کارکردگی کے نتائج پر مبنی اکنامک سروے کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق جی ڈی پی گروتھ ، زراعت، مینوفیکچرنگ اور برآمدات سمیت اہم معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے۔ زراعت کا ہدف 3.8 فیصد تھا جو 0.9 فیصد حاصل ہو سکا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں ملک کے ذمہ قرضوں کے بوجھ میں 3655 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ پبلک ڈیٹ (اور ذمہ داریوں) کا مجموعی حجم 35000 ارب روپے سے تجاوز کر گیا۔ مالی سال کے جولائی تا اپریل کے عرصے میں افراط زر کی اوسط شرح 7 فیصد رہی جبکہ گذشتہ سال کے اسی عرصہ میں یہی شرح 3.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ تجارت اور ادائیگی کی مد میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی برآمدات جولائی سے اپریل تک کے عرصے میں 19.17 ارب ڈالر رہی جبکہ گذشتہ سال اسی عرصہ میں یہ برآمدات 19.19 ارب ڈالر تھیں۔ ملک کے اندر تعلیم کے شعبہ میں سکولوں میں داخلوں کی تعداد 53.03 ملین رہی۔ زراعت کے شعبہ میں منفی نمو کی وجہ کپاس چاول اور گنے کی پیداوار میں کمی بتائی گئی ہے۔ کپاس کی پیداوار 17.5، چاول کی پیداوار 3.3 اور گنے کی پیداوار میں 19.4 فیصد کی کمی واقع ہو گئی۔ زراعت کی شرح نمو 0.9 ، صنعت کی 10.4 اور سروسز کی شرح نمو 4.7 فیصد رہی جبکہ مجموعی جی ڈی پی گروتھ 3.3 فیصد رہی جو مقررہ ہدف 6.2 سے بہت کم ہے۔ وفاقی مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اقتصادی سروے کے نمایاں نکات کا اعلان کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود، وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ سروے غیر جانبدارانہ انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ اکنامک سروے میںا چھی چیزیں بھی ہوتی ہیں اور کمزوریاں بھی موجود ہوتی ہے، انہیں چھپایا نہیں گیا ہے۔ سروے میں یہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو درست پوزیشن بتائی جائے اور حکومت مشکل حالات سے نمٹنے کیلئے جو اقدامات کر رہی ہے وہ بھی بتا دیئے جائیں۔ ملکی معیشت کی کمزوریاں ظاہر ہونا شروع ہوئیں، ملک میں ہر قسم کی سہولت اور وسائل موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہر کچھ عرصے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 2018 میں جب حکومت آئی تو ملک کے ذمہ قرضوں کا حجم 31000 ارب روپے تک جا چکا تھا، ملک کے ذمہ قرضے اتنے ہو چکے ہیں کہ آنے والے سال میں 3000 ارب روپے سود دینا پڑے گا۔ اگر ایف بی آر 4000 ارب روپے کا ریونیو کماتا ہے تو این ایف سی کے مطابق صوبوں کو پیسے دینے کے بعد وفاق کے پاس بہت محدود وسائل رہ جاتے ہیں۔ ملک کے ذمہ غیر ملکی قرضے 100 ارب ڈالر ہو چکے ہیں جبکہ ڈالر کمانے کی صلاحیت میں گذشتہ 10 سال میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ملکی برآمدات کی گروتھ صفر رہی ہے۔ ڈالر کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ 2 سال پہلے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 18 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر تھے، جو دو سال میں 9 ارب ڈالر رہے گئے، کرنٹ اکائونٹ کا خسارا 20 ارب ہو گیا، تجارت کا خسارا 32 ارب ڈالر پر پہنچ گیا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ وہ کوئی بلیم گیم نہیں کھیلنا چاہتے ہیں، مسائل کے حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی، برآمدات بڑھانے کو نظر انداز کیا گیا، اصلاحات نہیں کی گئیں، گذشتہ سال میں ملک میں آمدن سے کہیں زیادہ اخراجات کئے جا رہے تھے اور یہ خسارا 2300 ارب روپے تک چلا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مزید نوٹ چھاپنے پڑیں گے اور قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ ہم جڑواں خساروں کے دہانے پر کھڑے ہیں جن میں سے ایک بجٹ کا خسارا ہے اور دوسرا بیرونی فرنٹ پر بھی خسارے کا سامنا ہے۔ اگر ہم ان سے نہ نمٹے تو ڈیفالٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ مشیر خزانہ نے کہا ہے کہ عمران خان نے کہا تھا ہم مشکل فیصلے کریں گے مگر جہاں تک ہو سکے گا ملک کو ریلیف بھی دیں گے۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جب سامنے خطرہ کھڑا ہو تو اس سے نمٹا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صورتحال سے نمٹنے کے لئے اقدامات کئے۔ لگژری آئٹمز کی درآمد پر ڈیوٹیز کو بڑھایا گیا۔ کرنٹ اکائونٹ کے خساروں کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم نے تین ممالک سے 9.2 بلین ڈالر کے ریزروز لئے جبکہ 3.2 بلین ڈالر کی سعودی عرب سے موخر ادائیگی پر تیل کی سہولت لی۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے بھی 1.1 بلین ڈالر کی موخر ادائیگی پر تیل کی سہولت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان پائیدار بنیاد پر آئی ایم ایف کے ساتھ پارٹنر شپ بھی کرے گا تا کہ دنیا یہ جان سکے کہ پاکستان مالی نظم و ضبط کیلئے تیار ہے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں بڑے فیصلے کئے جائیں گے اور کفایت شعاری کی جائے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ بھی 6 بلین ڈالر کی پارٹنر شپ کی گئی، عالمی بینک سے 2 یا 3 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے تا ہم یہ حقیقت ہے کہ ادھر ادھر سے ڈالر لے کر ملک کو خوشحال نہیں بنا سکتے۔ ہمیں ادارے مضبوط کرنا ہوں گے۔ گیس ، سٹیل، انشورنس، ایئرلائنز، ریلویز کے ادارے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں، ان کو لوٹا گیا ہے، وہ پیسہ جو غریب عوام کی صحت اور تعلیم پر لگنا چاہیے وہ ان سفید ہاتھیوں کو چلانے میں لگایا گیا، ان اداروں کے نقصانات 1300 ارب روپے ہو چکے ہیں۔ اب بھی ان اداروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ پاکستان کے امیر ٹیکس دینا نہیں چاہتے، یہ بہت بری چیز ہے، اگر ٹیکس جمع نہیں کر سکتے تو پھر قرضے بھی ادا نہیں کر سکتے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ ایسٹ ڈیکلریشن کی سکیم بھی چل رہی ہے جس کے نتائج 30 جون تک سامنے آ جائیں گے۔ حکومت جب کسی چیز کی قیمت بڑھاتی ہے تو سب سے زیادہ دشواری اسے ہی ہوتی ہے کیونکہ یہ حکومت عوام کے ووٹوں سے بنتی ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ نچلے طبقہ کے لوگوں کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ بجلی کا کم استعمال کرنے والوں کے لئے قیمت میں اضافہ نہیں ہو گا اور انہیں سبسڈی دی جائے گی۔ اس مد میں 1600 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ہم ملک کا پہیہ تیز کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور کمزور طبقات کو مرکزی حیثیت دے رہے ہیں۔ امیر افراد ہر صورت میں ٹیکس دیں، حکومت سختی سے کفایت شعاری پر عمل کرے گی۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ صورتحال جو انہوں نے بیان کی ہے اس کا مقصد کسی کو ڈرانا نہیں تھا، میں نے حقائق پیش کئے ہیں تا کہ چیلنج کو سمجھا جا سکے۔ بجٹ میں اہم ٹھوس اقدامات ہوں گے تا کہ عوام کو اعتماد ملے، انہوں نے بعض سیکٹرز کیلئے صفر ریٹ ختم کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا جواب بجٹ میں ملے گا۔ موجودہ حکومت کے دور میں قرضوں کا بوجھ بڑھنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کو چھپایا نہیں جا سکتا، ہمیں بھی قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ ملٹری کے اخراجات اگر چلانا ہیں، سوشل سکیورٹی پروگرام پر اگر عمل کرنا ہے تو اس کیلئے پیسے کی ضرورت ہے تا ہم قرض کا سود دینے کے لئے قرض لینا پڑ رہا ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت میں ہیں اور جمہوریت میں ہر ایک کو آزادی اظہار کا حق ہے، حکومت اور اپوزیشن کا قریبی تعلق برقرار ہے، احتجاج جمہوریت کا تحفہ ہے، اسے سہنے کی عادت ڈالنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کے غیر رسمی سیکٹر کو بھی معیشت کا حصہ بنانے کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ بجٹ میں ڈالر کیلئے سے جو ایکسچینج ریٹ استعمال کیا گیا ہے وہ وہی ہے جو آج کا ہے۔ موجودہ حکومت نے جو قرضہ لیا ان میں سے 1221 ارب روپے ڈالر کی قیمت بڑھنے کے باعث اضافہ ہوا جبکہ نیٹ اضافہ 1603 ارب روپے ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کافی معاشی ٹارگٹ حاصل نہیں ہو سکے ہیں تا ہم یہ واضح رہے کہ یہ اہداف سابق حکومت نے مقرر کئے تھے۔ یہ بوگس دلیل ہے کہ آئی ایم ایف کے لوگوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کئے۔ سٹیٹ بینک کے گورنر، وہ خود اور چیئرمین ایف بی آر نے اپنی ملازمتیں ترک کر کے موجودہ ذمہ داریاں لی ہیں۔ جب وہ وزیر نجکاری تھے تو ان کے دور میں 34 اداروں کی نجکاری کی گئی۔ وزیر توانائی عمر ایوب خان نے اس موقع پر کہا کہ رمضان المبارک گزرا ہے جس میں سحر و افطار میں پاکستان کے 8789 نئے فیڈرز پر 99.4 فیصد تک لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی۔ عید پر بھی کسی قسم کی لوڈ مینجمنٹ نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم چوروں کے پیچھے گئے، 30 ہزار ایف آئی آر کاٹیں، 4000 کو گرفتار کرایا اور 81 ارب روپے ریونیو کا اضافہ کیا۔ اس وقت سرکلر ڈیٹ 13 سے 1400 ارب روپے ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا 60 فیصد انحصار درآمدی انرجی پر ہے، اس مکس کو تبدیل کیا جائے گا۔ 2025 میں شمسی توانائی سے 10000 میگاواٹ اور اسے 18000 میگاواٹ تک لے کر جائیں گے۔ انرجی کے سیکٹر میں 80 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں اور اسی سال الخلیفہ آئل ریفائنری کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا۔ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود نے کہا کہ حکومت نے صنعت کاری ختم ہونے کے رجحان کو روکا ہے۔ چین کے ساتھ ایف ٹی اے 2 مکمل کیا ہے اور اس میں ایف ٹی اے 1 کے نقائص کو دور کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہماری صنعت کو نقصان ہو رہا تھا۔ انڈونیشیا نے ہمیں مارکیٹ کی رسائی دی ہے، برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ درآمدات میں کمی لا کر 5 بلین ڈالر ٹریڈ گیپ میں کمی لائی ہے۔ 30 جون تک توقع ہے کہ تجارتی خسارا 37 ارب ڈالر سے کم ہو کر 32 ارب ڈالر ہو گا۔ حماد اظہر نے کہا کہ ایمنسٹی سکیم کا مقصد ریونیو کمانا نہیں ہے، سٹیٹ بینک نے واضح کر دیا ہے کہ ایف بی آر کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی بینک سے کھاتے داروں کا ڈیٹا مانگ سکتا ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے کہا ہے کہ فنانس بل میں ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں معلومات کو خفیہ رکھنے کے بارے میں مزید وضاحت شامل کر دی جائے گی۔ ان کی مختلف بینکوں کے سربراہوں سے ملاقات ہوئی ہے۔ یہ تمام بینک بے نامی اکائونٹس کی تفصیل دیں گے۔ تمام ڈسکوز سے معلومات لے رہے ہیں کہ انڈسٹریل کنکشن کے حامل افراد فائلرز بھی ہیں یا نہیں۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو خطرہ لاحق ہے، ملکی معاشی استحکام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ معیشت کے استحکام کیلئے سخت پالیسیوں اور آئی ایم ایف کے بغیر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پاکستان، بھارت کشیدگی کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ فروری 2019ء میں پاکستان بھارت کشیدگی سے سرمایہ کاری متاثر ہوئی۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ عوام کے سامنے ملکی معیشت کی درست صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو پیش کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز جو نظر آرہی ہے کہ گزشتہ سال جب یہ حکومت بنی تو پاکستان کی معاشی صورتحال کیا تھی، ہمیں دیکھنا ہے کہ آخر ہم یہاں کیوں کھڑے ہیں، ہماری معیشت کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اہم فیصلے کرنے ہیں۔ قرضوں کے باعث کرنسی دباؤ کا شکار ہے، گزشتہ 2 سال میں سٹیٹ بینک کے ذخائر 18ارب سے کم ہو کر 9ارب ڈالر ہوگئے۔ اگر آپ اس معاملے سے نہیں نمٹتے تو آپ ڈیفالٹ ہوجائیں گے اور اس کا کوئی حل نہیں ہے، وزیر اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مشکل فیصلے کریں گے تاکہ حالات مستقل بہتری کی طرف جائیں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ سب سے پہلے ہم جو فوری خدشات ہیں ان کو دیکھیں اور جو لگژری اشیاء ہم باہر سے خرید رہے ہیں اس پر قابو کریں اور جن امیر لوگوں کو اسے خریدنے کا شوق ہے انہیں اس کے اضافی پیسے دیں۔