آصفہ اور بختاور بھٹو زرداری بہنیں ہیں؟
زرداری صاحب کی گرفتاری سے مجھے کوئی بے قراری نہیں ہوئی۔ وہ گرفتار ہوتے رہتے ہیں تو ایک طویل اسیری ان کی راہ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ پہلے بھی انہوں نے دس گیارہ سال جیل میں کاٹے۔ اگرضعف ور ضعیفی آڑے نہ آئے توامیر کبیر سیاستدانوں کے لیے جیل ان کے سسرال سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ پذیرائی اور خاطر تواضع کی انتہا ہو جاتی ہے۔ خفیہ مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ اُن کی سرگرمیاں ’’شرگرمیاں،، بن جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں غریب کمزور اور بے آسرا شخص کی قید کچھ اور ہے۔ امیر کبیر آدمی اور اہم سیاستدان کی قید کچھ اور ہے۔ ہر کہیں امیر غریب کا فرق موجود ہوتا ہے۔
مجھے دو باتیں اچھی لگیں۔ آصفہ زردای نے اپنے والد کو زبردستی گلے سے لگایا۔ زرداری کی دکھاوے کی بیزاری نظر آ رہی تھی اور آصفہ کی بے قراری بھی نظر آ رہی تھی۔ بلاول بھی پاس کھڑے اپنی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا رہے تھے۔ نجانے یہ باپ بیٹی کی محبت کی فتح کی نشانی تھی یا کوئی سیاسی ’’کامیابی،، کا ڈرامہ تھا۔ ایک حسب معمول حیرانی اور پریشانی موجود ہے کہ آصف زرداری کی بڑی بیٹی اور بہت مدبر اور متحمل مزاج خاتون بختاور بھٹو زرداری موجود نہیں ۔ اُسے کہیں آنے جانے نہیں دیا جاتا۔ زرداری صاحب کی یہ تفریق رشتے اور محبت کی توہین ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید بختاور آصف زداری کی بیٹی نہیں ہیں۔
گرفتاری تو نیب والوں نے کی ا ور اس میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات واضح طور پر سامنے ہیں۔ ہمارا کوئی حکمران یا اس کا رشتہ دار اقتدار سے باہر آتا ہے، وہ سیاستدان ضرور بنتا ہے کہ یہ الزامات سے بچنے کا آسان طریقہ ہے۔ ہر حکمران نے کسی نہ کسی طرح کرپشن اور منی لانڈرنگ کی ہوتی ہے۔ ہمارے ہر حکمران پر کرپشن کا الزام لگا ہے اور وہ گرفتار بھی ہوا ہے۔ نواز شریف اور صدر زرداری دونوں جیل میں ہیں۔ سابق صدر اور سابق وزیر اعظم دونوں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
اس دوران آج حمزہ شہباز بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ وہ صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں اور اس کے والد شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔ شاید یہ مریم نواز کی پارٹی قیادت روکنے کی کوشش ہے۔ پچھلے دنوں مریم نے حمزہ کو پیارا بھائی کہا تھا۔ یہ طنز ہے مگر معلوم نہیں کہ اس میں کیا رمز ہے۔ میں مریم نواز کو پسند کرتا ہوں اور نواز شریف کے بعد اسے پارٹی قائد تسلیم کر لینا چاہئے۔ اگر شریف فیملی میں اختلافات سامنے آئیں تو یہ لوگ بہت پیچھے چلے جائیں گے۔ اب نواز شریف کی طرح شہباز شریف کو بھی سیاست سے الگ تھلگ ہونا چاہئے۔ مگر انہوں نے خاندانی یعنی شریف سیاست کے لیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پر اپنے گھر کی قیادت کا قبضہ پکا کر لیا ہے۔
حمزہ شہباز شریف گرفتاری کے بعد لیڈر بن جائیں گے اور مریم نواز کے ساتھ مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ یہ ہوا تو شریف فیملی کی تباہی کا بڑا ذریعہ بنے گا۔ میرا خیال ہے کہ حمزہ کو اپنے والد کو سمجھانا چاہئے کہ وہ سیاست چھوڑ دیں۔ نواز شریف کی برخورداری میں انہوں نے بہت سیاست کر لی۔ اب آرام کریں اور مریم نواز کو پارٹی قائد تسلیم کر لیں۔
حمزہ کو پنجاب اسمبلی میں قائد بنا کر اور وفاق اپنے پاس رکھ کر پارٹی قیادت پر قبضہ کر لیں گے تو یہ بہت مشکل ہے۔ اس طرح ایک خاندانی خلفشار شروع ہو گا اور وہ زوال پر ختم ہو گا۔
اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ احتجاج کا بہت امکان ہے۔ بلاول اور مریم نواز مل کر اس احتجاج کی قیادت کریں گی۔ مگر اس دوران ایک اور بڑی گرفتاری ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو بھی لندن میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایک دفعہ الطاف حسین کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے لمبی گفتگو ہوئی تھی اس کا ذکر پھر کبھی کروں گا۔
نواز شریف جیل میں ہیں۔ حمزہ شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے فوراً بعد ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ الطاف حسین کو بھی منی لانڈرنگ وغیرہ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پاکستانی سیاستدان جہاں بھی چلے جائیں ایک جیسے ہوتے ہیں۔
مگر گورنر پنجاب چودھری غلام سرور گلاسگو (انگلستان) میں بہت وقار سے رہے اور ممبر پارلیمنٹ بنے۔ وہ ایک بہت عزت والے سیاستدان ہیں۔ شریف فیملی نے ان کے احسانات کو یاد رکھا انہیں گورنر پنجاب بنایا۔ چودھری صاحب نے اصولوں کی سیاست پر استعفیٰ بھی دیا پھر انہوں نے پی ٹی آئی جائن کی۔ عمران خان نے بھی انہیں گورنر پنجاب بنایا۔ یہ ان کی بڑی صلاحیتوں کا بڑا اعتراف ہے۔ میں انہیں دونوں دفعہ ملا۔ وہ ایک عظیم بہادر سچے اہل اور اہل دل آدمی ہیں۔ دوستدار اور مہربان۔
میں ابھی تک تک اس کیفیت اور اذیت میں ہوں کہ زرداری صاحب کی گرفتاری کے وقت بختاور بھٹو کہاں تھی۔ اسے اپنے والد کو الوداع کہنے کی اجازت کیوں نہ دی گئی۔ بلاول زرداری کس خوشی میں وکٹری کا نشان بنا رہے تھے۔ وہ اپنے والد کو اپنی دو بہنوں کے درمیان اتنی ظالمانہ اور جاہلانہ تفریق کرنے سے نہیں روک سکے۔ کیا وہ اپنے ابا جی سے ابھی تک اتنا ڈرتے ہیں یا آصفہ نے کوئی حصار بنا رکھا ہے جسے توڑنا بلاول کے بس کی بات نہیں۔ اب تو پیپلز پارٹی کے کئی لوگ اس بات کو محسوس کرتے ہیں۔ پارٹی کے بہت لوگ بختاور کے مقابلے میںآصفہ کو کمتر سمجھتے ہیں۔ اگر بے نظیر بھٹو زندہ ہوتی تو کیا آصف زرداری کا رویہ یہی ہوتا۔ نجانے آصف زرداری کو بی بی صاحبہ سے کیاخطرہ تھا۔ میں تو اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر بینظیر بھٹو زندہ ہوتی تو آصف زرداری کبھی صدر پاکستان نہ بن سکتے۔ بی بی کی زندگی سے بڑھ کر اُن کی وفات سے زرداری صاحب کو بہت فائدہ پہنچا۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ زرداری صاحب کی کامیابیاں ان کی نسبت کی مرہون منت ہیں۔ بلاول کو ابھی ثابت کرنا ہے کہ وہ بے نظیر کا سچا بیٹا ہے اور یہ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ بختاور بھٹو بے نظیر کی سچی بیٹی ہے۔ آصفہ بھی ان کی سچی بیٹی ہے مگر وہ آصف زرداری کی زیادہ بیٹی ہے۔ اپنی گرفتاری پر زرداری نے کہا میں نہیں تو کیا ہوا بلاول اور آصفہ موجود ہیں۔ میں دونوں بہنوں کے لیے دعاگو ہوں۔ وہ میری بیٹیوں کی طرح ہیں۔ اللہ انہیں خوش نصیبی اور عزت مندی عطا کرے۔ بلاول سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے والد کی شخصیت کو اپنے سامنے رکھے مگر وہ اپنی شخصیت میں اپنی عظیم ماں بے نظیر بھٹو شہید کی خوشبو کو ہمیشہ محسوس کرے اور اس روشنی کو زندہ رکھے جو ان قبروں سے آتی ہے جو لاڑکانہ میں ہیں۔ اس حقیقت کو برادرم آصف زرداری نے بھی محسوس کیا کہ کچھ نسبتیں ماں کی طرف سے آتی ہیں بغیر کسی حوالے کے ایک لازوال نسبت کی طرف اشارہ کر رہا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام نے ہمیشہ اپنی ماں کی نسبت کو یاد رکھا۔ ہم پکارتے ہیں تو اس طرح کہہ رہے ہوتے ہیں اے فاطمہ کے لعل ہماری دلجوئی فرما کہ ہم عہد کربلا میں جی رہے ہیں۔