میانوالی میں شعلوں کے پھول
پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اتنی کتابیں لکھتا ہے اور فوراً شائع کر دیتا ہے کہ میں حیران ہو جاتا ہوں۔ اس کی عمر کی سنچری ابھی مکمل نہیں ہو گی کہ اس کی کتابوں کی اشاعت کی سنچری مکمل ہو جائے گی۔
سرگودھا ایک شہر سے جو کسی زمانے میں ائیر فورس کے حوالے سے مشہور ہوا تھا۔ نامور اور محبوب شاعر احمد ندیم قاسمی کے مقابلے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اس شہر کی ایک پہچان دی۔ ڈاکٹر وزیر آغا ایک جنوئن دانشور تھے۔ ادیب اور شاعر اس کے بعد تھے۔ نجانے کس طرح لوگوں نے ندیم صاحب اور آغا صاحب کے روبرو کھڑا کیا پھر دربدر کر دیا۔ لوگوں نے اس ادبی گروپنگ سے اپنے بہت سے کام نکالے اور اپنا قد بھی بڑھایا۔
میں نے ندیم صاحب کے جنازے میں ڈاکٹر وزیر آغا کو جس نیاز مندی اور دکھ بھری محبت سے دیکھا تو میں نے سوچا کہ لوگوں نے ذرا سے اختلاف کو کیسی کیسی ہوائیں دیں اور آگ بھڑکائی۔ میرے خیال میں ان دونوں بڑی ادبی شخصیات میں کوئی لڑائی کا میدان ہی نہ تھا۔ اس میدان میں اب کوئی نہیں ہے اور ان دونوں کی زندگی میں ایک ہجوم بلا تھا جس میں کیا کیا بلائیں بال کھولے ناچتی تھیں اور لوگ تماشا دیکھتے تھے۔
مجھے یقین ہے کہ تب سرگودھا میں ڈاکٹر تبسم ہوتے تو یہ میدان بہت خوبصورت وادی کی طرح ہوتا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ سرگودھا کو ایک قومی ادبی شہر بنا دیں اور وہ ایسا کر دکھائیں گے جس طرح انہوں نے وہاں ایک ادبی ماحول بنانا شروع کیا ہے اور اس شہر کو ایک غیر متنازعہ شہر ادبی طور پر بنا دیا ہے۔ کتب بینی کا مزاج لوگوں کی روح و دل میں اتار دیا ہے اور اس کے لیے کتاب روشنی کو فروغ دیا ہے اور تنہا خود کئی کتابیں شائع کر دی ہیں۔ وہ دوسرے خواتین و حضرات میں بھی کتاب کی محبت کا بیج بو رہے ہیں۔ ایک دن گل و گلزار کی ایک دنیا یہاں کئی نئی دنیائوں میں نکھر نکھر جائے گی اور سب سے زیادہ یہاں ڈاکٹر وزیر آغا کی روح خوش ہو گی۔ آغا صاحب کی مخالفت میں آتی ہوا کسی طرح کا پیغام لیکر ادبی جہانوں کی طرف نہیں جائے گی۔ ایک ایسا جہانِ ادب پیدا ہو گا جو پورے پاکستان کو خوشبو سے بھر دے گا۔ ایک دھیمی میٹھی رنگا رنگی ہر طرف بکھر جائے گی اس کا کریڈٹ پہلے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کو جائے گا اور یہ کریڈیبلٹی پورے ملک کو روشن کر دے گی۔
یہ باتیں مجھے لکھنے کا اتفاق اس لیے ہوا کہ ڈاکٹر تبسم کی بے شمار کتابوں میں ایک ایسی کتاب شائع ہوئی ہے جس نے میرے قلب و ذہن میں یادوں کے کئی راستے سجا دئیے ہیں جن میں ایک راستہ میانوالی کی طرف جاتا ہے۔ میانوالی میرا شہر ہے۔ شہر محبت اور شہر رفاقت ۔
جب مجھے شکایتی طور پر گورنمنٹ کالج لاہور سے گورنمنٹ کالج میانوالی بھیج دیا گیا تو میں نے ڈائریکٹر ایجوکیشن سے کہا کہ جناب میانوالی تو میرا شہر ہے۔ وہاں آپ نے میرا شکایتاً تبادلہ کیسے کر دیا تو وہ مسکرایا اور کہا نیازی صاحب ۔ شکایتی تبادلہ تو صرف میانوالی ہی کیا جا سکتا ہے۔
میں میانوالی پہنچا تو مجھے وہاں تین پروفیسر ملے۔ پروفیسر عالم‘ پروفیسر رضوی اور پروفیسر سرور اور تین شاعر۔
شرر صہبااور انجم جعفری ۔ وہاں میں نے چار پانچ سال گزارے۔ کوئی اور پروفیسر تو نہ ملا مگر نئے شاعروں میں ظفر خان نیازی‘ سلیم احسن اور منصور آفاق ملے۔ شرر اور انجم روایتی شاعر تھے مگر میانوالی کی پہچان اور میانوالی کے ترجمان ہوئے۔ صحافی کے طورپر بھی شرر صہبائی لیڈر تھے۔ بہادر اور قابل فخر انسان۔ انجم صاحب ٹیچری کی نوکری میں پھنس کر رہ گئے مگر میانوالی کے اندر ہی میانوالی کی پہچان بنے۔ میانوالی کا آدھا شہر پروفیسر عالم‘ پروفیسر رضوی کا شاگرد تھا۔ انجم صاحب نے ساری عمر ماڑی انڈس میں دریائے سندھ کے کنارے گزار دی۔ میں نے پروفیسر رضوی جیسا محبت اور دبدبے والا استاد نہیں دیکھا۔ شہر کے لوگ ان سے ڈرتے تھے۔
ان کے جیسی عزت کسی کی نہ تھی۔ ان کے جنازے جیسا محبتوں بھرا ہجوم کسی مقامی بڑے خان کو بھی نہ ملا۔ کوئی آنکھ نہ تھی جو روئی نہ ہو۔ ان کی عظیم قابل عزت صاحبزادی منزہ عالم میانوالی گرلز کالج کی پرنسپل رہی۔ میں نے طالبات کے دل میں کسی دوسری پروفیسر کیلئے اتنی عزت نہ دیکھی۔
یہ کالم میں نے بہت پیارے‘ بہت بہادر‘ بہت قابل دوست اور دانشور شرر صہبائی کیلئے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ پورا میانوالی میرے آس پاس بکھر گیا۔ پھر نکھر گیا۔ میانوالی میں مہاجر ڈرے ڈرے رہتے تھے مگر ایک مہاجر ایسا بھی تھا جس سے پورا شہر ڈرتا تھا۔ وہ شرر صہبائی تھا۔ تلوک چند محروم اور جگن ناتھ آزاد کے بعد دو غیر پٹھان شاعر تھے۔ شرر صہبائی اور انجم جعفری‘ انجم جعفری کے صاحبزادے وقاص انجم جعفری بڑے سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ اب بھی لیڈر ہیں۔ اپنے والد کے دوست کے طورپر میری بہت عزت کرتے ہیں۔ وہ اپنے والد کے تخلیقی ورثے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ اس کے ساتھ شرر صہبائی کی شاعری کو بھی سنبھالیں اور میانوالی کے ادبی شعری اثاثے کو بھی محفوظ بنانے کی کوشش کریں۔
ہم ڈاکٹر تبسم کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے شرر صہبائی کا سارا کلام محفوظ کرکے شائع کیا ہے۔ ’’گل ہائے شرر‘‘ شاعر کے شعری مجموعے کا نام ہے۔ ’’شعلوں کے پھول‘‘ کیسے ہوتے ہیں۔ آپ شرر صہبائی کا دیوان پڑھیں تو پتہ چلے گا کتاب کا نام بہت بامعنی ہے۔ ’’گل ہائے شرر‘‘ نامور شاعر دانشور خادم اردو صحافی اور عاشق رسولؐ رانا اقبال احمد خان شرر صہبائی!
تقریباً 31 مفامین کتاب میں شامل ہیں۔ جن میں جگن ناتھ آزاد‘ محمد اجمل نیازی‘ انجم جعفری‘ سید نصیر شاہ‘ تاج محمد‘ سرور نیازی‘ محمد فیروز شاہ‘ عالیہ امام رضوی‘ نذیر درویش‘ انوار ظہوری‘ انور حقی‘ مظہر نیازی اور دیگر شامل ہیں۔ اپنے مجموعۂ کلام کا نام شرر صہبائی نے ’’بے نام‘‘ رکھا ہے؎
زندگی پھر مضطرب ہے رقص بسمل کیلئے
آج رونے دو مجھے اپنے دکھی دل کیلئے
مانگتے اس خوف سے کیسے زکوٰۃ حسن ہم
ایک جھڑکی ہی بہت کافی ہے سائل کیلئے
وقت پر دشوار ہو جائے نہ خنجر کی تلاش
خود لئے پھرتا ہوں خنجر اپنے قاتل کیلئے