One Word Order"
سارے الزامات طو مار کا واحد حل ۔ خوشی ہوتی اگر سابقہ کمیشن ۔ کمیٹیوں کی تاریخ ۔ کردار زندہ جاوید ہوتے ۔ اب قرضہ کیسے چڑھا عوام کو اِس سے کوئی غرض نہیں کیونکہ فوائد تو کہیں اور دیکھے جاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں گرفتاریوں کا کیا فائدہ جب" وی آئی پی سہولتوں" والی قید کے بعد باعزت رہائی ہو ۔ سوچئیے ایک عام آدمی کبھی پکڑا جائے تو اُس کے ساتھ سرکار کیا سلوک کرتی ہے۔ اتنا جلال ۔ غصہ یقینا کِسی" سچے لیڈر" کو ہی آتا ہے ۔ بلاشبہ "وزیراعظم صاحب" آ پ کا دامن صاف ہے ۔ قوم پر صرف اتنا کرم کر دیں کہ پکڑو ۔ چھوڑ دووالا تماشہ بند کر دیں ۔ لمبی تقریریں نہیں چاہیں ۔ پیسہ وصول کریں ۔ ایک لفظ حکم ہونا چاہیے "پیسے دو" بس ۔ کتنا اچھا ہوتا اتنا غصہ روز مرہ استعمال کی اشیاء کی گرانی پر چڑھتا۔
یہ کِس ٹائپ کا "غریب دوست بجٹ "ہے کثرت سے استعمال ہونے والی اشیاء پر اتنا ٹیکس ؟امیر تو "چینی" استعمال کرتے ہی نہیں ۔ سالہا سال سے شاکی تھے کہ پورا بوجھ "چند لاکھ" نے اُٹھا رکھا ہے اب انھی چند لاکھ پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر ظلم نہیں کیا ۔ پچھلے دنوں" وزیر موصوف" نے کہا تھا کہ مراعات ممکن نہیں ۔ ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔ کوئی ایک حکومت ایسی بتا دیں جس نے کہا ہو کہ اب مراعات کا بہاوٗ عوام کی طرف بہے گا ۔ بوجھ حکومت اُٹھائے گی ۔ کیا عوام پہلے سے ٹیکس نہیں دے رہی ؟ کِسی ایک چیز کا نام ہی لے دیں جو صرف قیمت فروخت پر دستیاب ہو۔ پیدائش سے لیکر موت حتیٰ کہ تدفین بھی مفت نہیں رہی۔ ماچس کی ڈبیا جیسی معمولی چیز بھی ٹیکس کے بعد خریدی جاتی ہے۔ بہتر نہیں کہ ہر اضافے کا شیل گراتے ہوئے" مجبوری ہے" والا لاحقہ استعمال کرنا بند کر دیں۔ مزید براں" کچھ عرصہ برداشت کرنا ہوگا "یہ لفظ بھی بولنا چھوڑ دیں۔ 30سال پہلے کی اخباریں۔ خبریں وہی ہیں جو آجکل کے حالات ہیں ۔ حکمرانی تقاریر کا متن بدلا اور نہ ہی وزارتی مواد" قرض پروگرام "پہلے والوں کی بھی مجبوری تھی ۔" تبدیلی والوں" کی بھی کمزوری ہے۔ وزارتی بیان تھا کہ عوام کو مسائل ہونگے مگر پاکستان کا مستقبل ترقی یافتہ اور خوشحال بنا رہے ہیں ۔ چلیئے درست سہی پر اتنا تو بتا دیتے کہ یہ "مستقبل" کب آئے گا ؟ ڈالر سے سبزی تک قیمتوں میں اضافہ بابت کِسی ایک پر بھی "ترجمانوں "کے الفاظ نہیں ملتے ۔ جب" آپ "نے ٹھان لیا کہ مرضی اپنی کرنی ہے ۔ مراعات صرف حکمرانوں کا حق ہے ۔ بوجھ صرف گدھوں (عوام) پر لادنا ہے تو تاویلات کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ نہ وضاحتیں دینے کی احتیاج ہے نہ پچھلی حکومتوں کی کرپشن بدنامی کی کہانیاں الاپنے کی ضرورت ۔ صرف "One word order" جاری کر دیں۔ کم از کم کل تاریخ ۔ برقی چینلز پر آپ کے موجود بیانات چلنے سے تو محفوظ رہیں گے ۔
عوام سے سمگلڈ اشیاء کی خریدوفروخت سے اجتناب کی اپیل پڑھ کر دکھ کم ۔ ہنسی زیادہ آئی ۔70سال کے بعد سہی کِسی نے تو اِس ضمن میں پہل کردی ۔ آپ کی سرحدیں" سمگلڈ اشیائ" کی سب سے بڑی پُر سہولت منڈیاں ہیں اور خریدار کون ۔ غریب ؟ نہیںجناب عالی اشرافیہ ۔ مڈل کلاس بھی خریداری کرتے وقت مقامی اور غیر ملکی قیمتوں کے تقابل کے بعد خریدتی ہے جو اُس کی جیب کا بوجھ سہار سکے ۔ لمحہ موجود میں سبھی طبقات سراپا احتجاج بنے نظر آتے ہیں ۔ یہاں رونا دھونا ختم نہیں ہوتا سال گزر جاتا ہے مطالبات کرتے کہ فلاں کی قیمت کم کر دو۔
اِنھی دُکھوں میں نیا بجٹ آجاتا ہے۔ ملکی مصنوعات کا معیار نہیں قیمت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جن کے پاس قوت نافذہ ہے وہ اپیل کرنے کی بجائے عمل کریں ۔ "ایک لفظ حکم" ہونا چاہیے ۔ مکمل بند یا پھر اجازت ہے ۔ کہانی ختم۔
عجب تماشہ ۔ کل کے کرپٹ آج پاک پوتر۔ نیکی اور بدنامی ۔ اپوزیشن میں نیک نامی اور حکومت میں سر ا سر بدنامی۔ خواری ۔ یہ دونوں صفات بھی اہل سیاست کا خاصہ ہیں۔ خوب فرمایا بقول اپوزیشن ۔ پٹرول قیمت یا ڈالر کی اُڑان ۔ اب تو ہر چیز ہی دہشت گردی بن چکی ہے ۔ اگر لُغت میں نئے لفظ کا اضافہ اتنی اہم ترجیح ہے تو پھر ایک اور حرف بھی شامل کر لیں ۔ سیاسی دہشت گردی ۔ جس کا آج پاکستان بری طرح شکار ہے۔
ہر قسم کی جرائم کی دنیا سجانے والوں کا انجام ۔ الزامات نہیں ۔ شواہد ثبوت۔ حقائق بڑے ٹھوس ۔ مستند تھے پر پکڑا بھی تو نہایت کمزور بنیاد پر کیونکہ دل جو آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ یہ گرفتاری تو محض دکھاوا ہے۔ ایک ہی ٹائپ کی کہانیاں جو یہاں بھی چلتی ہیں۔ چہرہ بڑا خوفناک دکھایا جاتا ہے۔ پر جلد ہی مُنہ دُھلا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔" لانڈری مشین" چل رہی ہے احتساب نہیں ۔ شور و شغب زیادہ ہے عمل کی نیت کم ۔ جب ہر ایک کے ثبوت ہیں تو پھر ڈھیل کیوں ؟ سبھی آگاہ ہیں اسقدر تاخیر نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ ہیرو کیوں بنایا جاتا ہے جو مجرم ہیں ۔ اگر ثبوت ہیں تو لٹکا دیں ۔ انتظار کاہے کا ؟