• news
  • image

اللہ کو پاکستان پر ترس آ گیا

وہ بظاہر متحدہ کا قائد نہیں مگر اسکے سوا متحدہ کا کوئی اور قائد بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ خون آشام بلا پہلے کی طرح کراچی کو یرغمال بنانے اور خون کی ندیاں بہا کر ریاست کے اندر ریاست کی بحالی کے موقع کی تاک میں ہے مگر کسی طرف سے اسکی کھل کر حمایت نہیں ہو رہی۔ اسکی پہلے جیسی رہنمائی و رہبری کرنے کی حسرت ناتمام رہے گی۔ اس نے پاکستان کیخلاف جو زہر اگلا‘ اسے ریاست اور اسکے اداروں کیلئے معاف اور نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ گزشتہ روز اسے لندن میں حراست میں لیا گیا، اس دوران وزیر اعظم عمران خان کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ انہیں اطلاع دی گئی تو انکی زبان سے بے ساختہ نکلا ’’اللہ کو پاکستان پر ترس آ گیا۔،، الطاف پہلے بھی گرفتار ہوئے۔ اب کی گرفتاری سے ہم نے بڑی توقعات وابستہ کر لیں۔ کہا جا رہا تھا برطانیہ کے ساتھ طے پانے والے حالیہ معاہدوں کے تناظر میں انکے پاکستان کے حوالے کئے جانے کے امکانات ہیں۔ کل انکی رہائی بھی عمل میں آ گئی۔
رواں ہفتہ ہنگامہ خیز اور مار دھاڑ سے بھرپور ہے۔ بجٹ کے دوران اپوزیشن نے عوامی امنگوں کے مطابق اجلاس کو مچھلی منڈی بنانے میں کسر نہ چھوڑی ۔ دوسری طرف حکومت نے بھی عوامی جذبات کی ترجمانی سے معمور بجٹ پیش کیا۔ ہمارے ہاں ہر پارٹی کے اپنے اپنے عوام ہیں۔ جماعت اسلامی نے کل سے مہنگائی کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ’’انکے عوام،، کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر انکے ساتھ ہو گا۔ شیخ رشید اپنی یک نشستی پارٹی کے روح و رواں ہیں۔ ان کو بھی عوام کی بھرپور تائید حاصل ہے۔ وہ سیاسی دائو پیچ سے مخالفین کو حماقت پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آصف زرداری کی گرفتاری کے روز اپوزیشن کے پاس اس ایشو پر بات کرنے کا بہترین موقع تھا۔ لندن یاترا کے بعد شہباز شریف قومی اسمبلی میں لگائی بجھائی کر کے شاہانہ انداز میں خسروانہ کیٹ واک کر گئے۔ انکے بعد شیخ رشید ذاتی وضاحت کیلئے سپیکر کے کہنے پر کھڑے ہوئے تو بلاول نے بھی آستینیں چڑھا لیں۔ گُرو کی عمر کے انکے بالکوں نے سپیکر کا یہ مطالبہ کرتے ہوئے گھیرائو کر لیا، پہلے بلاول کو موقع دو۔ ایک آواز آئی بلاول بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ سپیکر نے کہا شیخ رشید بھی اپنی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ سپیکر نے قواعد کے تحت شیخ رشید کو فلور دیا تھا مگرپی پی نہ مانی زچ ہو کر سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ پی پی کے دانشوروں کی ’’مہارت،، نے اسے اپنے لیڈر کی گرفتاری کے ایشو پر بات کرنے سے محروم کردیا۔
جس روز کراچی والوں کے سابق بھائی کو لندن سے گرفتار کیا گیا اس روز حمزہ شہباز بھی زرداری سے کم عرصہ ہی سہی ضمانت پر حاصل کرنے کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر نیب کی حراست میں چلے گئے ایک روز قبل آصف علی زرداری دھر لیے گئے تھے۔ نیب کو پی پی پی اور ن لیگ نے اپنے اپنے ادوار میں مل بیٹھ کر مضبوط کیا۔ ان پر نیب کا ’’نرم و ملائم،، ہاتھ پڑا تو نیب کے قوانین کو کالا کہہ کر اس حکومت سے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا کڑے احتساب کے سوا کوئی ایجنڈا نہیں۔
شہباز شریف بھی سپریم کورٹ میں پیش ہو رہے ہیں‘ جہاں نعیم بخاری نیب کے وکیل ہیں۔ شہباز شریف کے حمائتی اور مخالفین کہہ رہے ہیں اللہ خیر کرے۔ ’’خیر ،، سے ہر دو کا اپنا اپنا مطلب ہے ۔حامی خیر سے انکی رہائی اور مخالفین گرفتاری مطلب لیتے ہیں۔ کرپٹ لوگوں کے احتساب کا کڑا اور بے رحم سلسلہ چل نکلا ہے اور یہی عوام کی خواہش ہے۔ اپوزیشن اپنے احتساب کو انتقام کہہ رہی ہے۔
احتساب کے حوالے سے انتقام بھی روا ہے۔ آج جو لوگ احتساب کی زد میں ہیں انکے جرائم کی عمر پندرہ بیس سال ہے۔ آج کے حکمران اگر آج محفوظ ہیں اور انہوں نے واقعی کچھ غیر قانونی کیا ہے تو اگلے برسوں میںوہ بھی احتساب کی زد میں آئینگے مگر آج جو انتقام کا واویلا کر رہے ہیں قارئین ذرا سیاسی وابستگی سے بالا اور دل پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں کیا یہ دودھ کے دُھلے ہیں ۔ اگر کوئی کرپٹ کسی وجہ احتساب سے بچ رہا تو یہ دیگر کرپٹ لوگوں کے کرتوتوں سے صرف نظر کا جواز نہیں ہو سکتا۔
بلاول بھٹو کی عمر اور ممکنہ انجام کار پرافسوس ہوتا ہے۔ محترم قیوم نظامی بلاول کی سیاست اور شخصیت کو چمک و دمک قرار دیتے ہیں۔ بلاول کے اکائونٹس بھی ایسی رقوم سے بھرے پڑے ہیں جن کی منی ٹریل نہیں، یہ پیسے اور کاروبار ان کو والد کی طرف سے ملے۔ اَبّا کے پاس پیسہ کہاں سے آیا، جواب ندارد‘ بلاول ایسے اکائونٹس ریاست کے حوالے کر دیں تو شاید وہ سیاست میں بڑا کردار ادا کرنے کیلئے موجود رہ پائیں گے ورنہ انکی سیاست بن کھلے مرجھا اور مک دمک ماند پڑ سکتی ہے۔ وزیراعظم نے ’’تباہی‘‘ کی ذمہ داری کیلئے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ میجر نذیر کہتے ہیں اس کا سربراہ شعیب سڈل کو بنایا جائے۔ وہ 19 ہزار نیٹو اسلحہ کے کنٹینر غائب ہونیوالے کمیشن کے سربراہ بنائے گئے تھے۔ یہ کمیشن جسٹس افتخار نے توڑ دیا۔ 3 ستمبر 2013ء کو میجر نذیر اس حوالے سے ثبوتوں کے ساتھ جسٹس افتخار کی عدالت گئے تو چیف جسٹس نے انہیں ٹرخا دیا۔ انکے پاس کھربوں کی کرپشن کے ثبوت ہیں۔ وہ مطلوبہ پلیٹ فارم بننے کے منتظر ہیں۔ لگتا ہے اللہ کو واقعی پاکستان پر ترس آگیا ہے۔

فضل حسین اعوان....شفق

فضل حسین اعوان....شفق

epaper

ای پیپر-دی نیشن