سیاحت کو ترجیح بنانا
پرانے وقتوں میں انسان کی بنیادی ضروریات مختلف اور محدود تھیں۔ پہلے صرف خوراک سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ تھا پھر سر چھپانے کے لئے محفوظ جگہ اور تن ڈھانپنے کے لئے پتوں سے لے کر پٹ سن تک اس کی جدوجہد شامل تھی۔ پھر وقت بدلا اور ضروریات بڑھنے لگیں۔ صرف کھانا پینا، گھر اور لباس مقصد حیات نہ رہا۔ اولین زمانے کا انسان فطرت سے جڑا ہوا تھا۔ اس کے اوقات کار سورج، چاند اور ستاروں سے بندھے ہوئے تھے۔ وہ فطرت کی قوتوں سے استفادہ کر کے زندگی کرتے تھے مگر انسان کی ضروریات بڑھنے سے اس کی مصروفیات میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ وہ مشین بن کر رہ گیا خصوصاً شہری زندگی میں لوگ گھروں اور دفاتر کی چار دیواری میں قید رہنے کے باعث عجیب گھٹن کا شکار رہتے ہیں۔ مغرب میں ہفتہ وار چھٹی کے دنوں میں ہر فرد سیر سپاٹے کا پروگرام بناتا ہے۔ اسی وجہ سے ان لوگوں کے مزاج میں برداشت اور خوش مزاجی پائی جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں لوگ چھٹیاں سو کر اور کمرے میں بند ہو کر گزار دیتے ہیں جس سے طبیعت میں بے چینی اور اضطراب بندھ جاتا ہے۔
مشہور قول ہے کہ اگر کچھ کر نہیں سکتے تو باہر نکلو دنیا کو دیکھو،اس سے سیکھو، کائنات کی بنائی ہوئی چیزوں پر غوروفکر کریں اور اپنے اِردگرد غیر معمولی چیزوں کو دریافت کریں۔ شکر ہے کہ سیر و سیاحت کا شوق نوجوان نسل میں کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے ملک میں دلفریب مقامات کو دریافت کر کے اپنی توانائی میں اضافہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں اس لئے وہ زیادہ چوکس ہیں کیوں کہ سیر و سیاحت سے نہ صرف دماغ تروتازہ ہو جاتا ہے بلکہ معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ سیر و سیاحت ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارتی ہے ہمیں اظہار کی ترغیب دیتی ہے وہیں ہماری صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی سے ہمیں دوسرے علاقوں کی ثقافت کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملتا ہے، چیزوں اور مقامات سے آگاہی انسان کے اندر خوداعتمادی کوبڑھاتی ہے۔ اگر سیاحت نہ ہوتی تو ہم کبھی بھی آسمان سے آگے دنیا کو تسحیر نہ کر پاتے۔ ہم کبھی نہ جان پاتے کہ سمندر کے نیچے بھی کوئی زندگی ہے۔ ہم کبھی نہ جان پاتے کہ سات سمندر پار کوئی ملک ہو گا۔ جی ہاں امریکہ کو بھی ایک سیّاح نے دوران سیاحت ہی دریافت کیا تھا۔ ان تمام باتوں سے سیاحت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں سیاحت ایک صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے اور مصنوعی مقامات تعمیر کرتے ہیں جب کہ پاکستان قدرتی مناظر سے مالامال ملک ہے۔ خاص طور پر اسکے شمالی علاقہ جات سیر و سیاحت کے لئے دنیا بھر میں بہت مشہور تصور کئے جاتے ہیں۔ ان علاقہ جات کی خوبصورتی کی وجہ بلند و بالا پہاڑ، سرسبز وادیاں اور خوبصورت جھلیں ہیں۔ اسی اعتبار سے سوات،ناران کاغان، وادیٔ نیلم اور وادیٔ ہنزہ اہم سیاحتی مراکز مانے جاتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں سیاح ان مقامات کی طرف رخ کرتے ہیں لیکن اکثر لوگ مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔ پھر یہ علاقہ جات بھی ہمیشہ حکومت کی عدم توجہ کا شکار رہے۔ پاکستان میں سیاحت ایک بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔2018ء میں ایک سروے کے دوران برطانوی لوگوں نے پاکستان کو سیاحت کے لئے پسندیدہ جگہ قراردیاہے۔ موجودہ حکومت نے اس معاملے کی طرف نظرکرتے ہوئے نہایت اہم قدم اٹھایا ہے جوملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لئے خوشی کی خبر ہے۔ سیاحوں کو ان مقامات کی طرف کھینچنے کے لئے پنجاب بھر میں مختلف مقامات پر ٹورسٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے اور اسی مقصد کے حصول کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پہلی مرتبہ کوہ سلیمان میں تین روزہ میلے کا اعلان کر کے سب کے دل جیت لئے ہیں۔ اس میلے میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو شرکت کی دعوت بھی دی گئی ہے اس لئے انتظامیہ کو بہترین انتظامات کے لئے متحرک رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات کی کوششیں بھی تعریف کے لائق ہیں۔ انہوں نے عید کی چھٹیوں کے دوران سیر و سیاحت کے لئے جانے والوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اکثر ہر تہوار کے موقع پر لاکھوں لوگ پارکوں اور شمالی علاقوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسلام آباد کی سڑکوں پررش بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور ٹریفک کی بد انتظامی کی وجہ سے لوگ گھنٹوں رَش میں پھنس جاتے ہیں لیکن اس دفعہ عید کے موقع پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے ٹریفک کے مسئلے کو ختم کرنے اور لوگوں کو اس تکلیف سے بچانے کے لئے نہایت اہم اقدامات کیے۔ ٹریفک کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بھرپور ایکشن لیا گیا جس کی وجہ سے پہلی مرتبہ اسلام آباد کی سڑکوں پرگاڑیوں کی لمبی قطاریں دکھائی نہ دیں۔ اگرہم اسی طرح سیاحوں کو بہترین سہولیات دیں گے اور انہیں ہر قسم کا تحفظ فراہم کریں گے تو یہ حکمت عملی ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہو گی اور حکومت سیاحت کی جاندار پالیسی کے ذریعے 2025ء تک ملکی معیشت میں 1 ٹریلین امریکی ڈالرز کا اضافہ کر کے ریکارڈ قائم کر سکتی ہے۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار عوامی نمائندہ ہیں اس لئے وہ وزیراعظم کی ہدایت پر ہمیشہ ایسی پالیسیاں لاتے ہیں جو دورِ حاضرکے لوگوں کے لئے بہت ضروری ہوتی ہیں۔