قومی اسمبلی : حکومتی ارکان کی شدید نعرے بازی، شہباز شریف تقریر مکمل نہ کر سکے
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی، وقائع نگار خصوصی) قومی اسمبلی میں گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی طرف سے شدید نعرہ بازی اور ہنگامہ آرائی کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف ایوان میں پیر کو دوسری بار بھی اپنی بجٹ پرتقریر مکمل نہیں کر سکے، سپیکر قومی اسمبلی حکمران جماعت کے ارکان کی ہنگامہ آرائی کو روکنے کی کوشش کرتے رہے اور بار بار نعرہ بازی کرنے والے ارکان کو ایوان میں نظم وضبط رکھنے کی تاکید کرتے رہے تاہم ان کی کسی نے نہ سنی، ایون میں شور وغوغا کا سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہا، اپوزیشن لیڈر نے پی ٹی آئی کے ارکان کی مخالفانہ نعرہ بازی کو نظر انداز کر کے خطاب جاری رکھنے کی کوشش بھی کی تاہم شور کے باعث کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، سپیکر نے ایک یہ کہہ کر ہنگامہ فرو کرنے کی کوشش کی کہ وہ اجلاس ملتوی کر دیں گے تاہم اس کا اثر نہیں ہوا اور سپکر نے آخر کار اجلاس کو منگل کی صبح تک ملتوی کر دیا اور اپنی نشست سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس سے قبل بلاول کی قیادت میں پی پی پی کے ارکان سپیکر کے دفتر کے باہر سے ’’پروڈکشن آرڈر جاری کرو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان کے اندر آئے اور فلور آف دی ہائوس پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور نعرہ بازی کرتے رہے، تاہم اپوزیشن لیڈر کے خطاب کے آغاز پر وہ چپ ہو گئے اور یہ کام حکمران جماعت کے ارکان نے سنبھال لیا، اجلاس کے التواء کے بعد مسلم لیگ کے ارکان سپیکر ڈائس کے پاس جمع ہوئے اور وزیراعظم کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں گزشتہ روز اپوزیشن لیڈر نے بجٹ پر اپنی تقریر کر کے بحث کا آغاز کر نا تھا، اس سے قبل بھی جمعہ کو وہ ایک بار تقریر کا آغاز کر چکے تھے تاہم وہ ہنگامی آرائی کے باعث خطاب نہیں کر سکے تھے اور اجلاس ملتوی کر دیا گیا تھا۔ پیر کو اجلاس کے آغاز سے قبل ہی حالات ناخوشگوار تھے، پی پی پی کے ارکان سپیکر آفس کے پاس بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں جمع تھے اور آصف علی زرداری اور دیگر گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے نعرے لگا رہے تھے، اور پھر وہ نعرے لگاتے ہوئے ایوان میں آئے، تلاوت قران پاک، نعت اور قومی ترانہ کے فوری بعد پی پی پی کی جانب سے آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر احتجاج کیا گیا، اس دوران سردار اختر مینگل بھی اپنی نشست پر کھڑے نظر آئے، حکومتی بنچز میں سے کسی نے قومی ترانہ کے بعد پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی لگایا، اسد قیصر نے بارہا اپوزیشن لیڈر کو بجٹ پر تقریر کا آغاز کرنے کا کہا لیکن شہباز شریف نے کہا کہ آصف علی زرداری، خواجہ سعد رفیق اور دیگر گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں، سپیکر قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بات کا آغاز نہیں کریں گے تو سیشن کیسے شروع ہوگا جس پر شہباز شریف نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ یہ بجٹ سیشن ہے، تمام منتخب ارکان کا استحقاق ہے کہ وہ آکر اپنے مطالبات پیش کریں۔ انہوں نے دوبارہ کہا کہ بلا تاخیر پی پی پی شریک چیئرمین آصف زداری اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق سمیت دیگر اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں، سپیکر نے کہا کہ آپ بحث کا آغاز کریں میں نے زیر حراست ارکان کے بارے میں قانونی رائے مانگی ہے۔ اس دوران حکومتی بنچز سے کہا گیا کہ پروڈکشن آرڈر نہیں ملے گا، اور حکومتی ارکان نشتوں پر کھڑے نظر آئے، سپیکر نے کہا کہ اسمبلی چلانا صرف سپیکر کا کام نہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ بجٹ پر شہباز شریف کی تقریر سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے اظہار خیال کی اجازت طلب کی اور بارہا اصرار پر سپیکر نے انہیں صرف ایک منٹ تک بات کرنے کی اجازت دی۔ راجا پرویز اشرف نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایوان کا رول 108 اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ایوان کا جو بھی رکن کسی بھی وجہ سے موجود نہ ہو تو سپیکر کو لازمی طور پر اس کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رول 108 کے تحت اسپیکر کو آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے ہیں، اگر آپ ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو آپ کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ ہمارے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جارہا، پیپلزپارٹی کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جارہا ہے۔ جس کے بعد شہباز شریف نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی بجٹ عوام کی ضروریات اور ترجیحات کو پیش نظر رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند دن قبل وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا اور خطاب میں دھمکیاں دیں لیکن انہوں نے دو اہم باتیں کیں، ریاست مدینہ کا ذکر کیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ریاست مدینہ میں وہ وقت بھی آیا تھا جب مدینہ میں کوئی زکوۃ لینے والا نہیں تھا، خلفائے راشدین کے زمانے میں حضرت عمر فاروق ؓ خود ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ریاست مدینہ میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ شہباز شریف کی تقریر کے دوران قومی اسمبلی اجلاس میں ایک بار پھر شور شرابا شروع ہوا، سپیکر اسمبلی ارکان کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے رہے،وفاقی وزیرغلام سرور خان اور وزیر داخلہ اعجاز شاہ اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور ڈیسک بجائے ،اس دوران اذان ہوئی تو تمام ارکان چپ ہو گئے مگر اذان کے مکمل ہوتے ہی پاکستان تحریک انصاف کے عقبی نشست پر بیٹھے ایک رکن نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فرنٹ پر آئے اور میان شہباز شریف کے خلاف شدید نعرہ بازی کی، پی ٹی آئی کے چیف وہیپ عامر ڈوگر نے ارکان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ،یہ ارکا ن پلے کارڈ بنا کر لائے تھے اور ان کو لہراتے رہے، انہوں نے چور مچائے شور کا نعرہ لگایا ،سپیکر کی طرف سے ان ارکان کو بار بار اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی تاکید کی گئی تاہم اسے نظر انداز کر دیا گیا اور ایوان میں حکومتی ارکان کے باعث افرا تفری رہی، اگرچہ میاں شہباز شریف کی تقریر کے الفاظ سنائی نہیں دے رہے تھے تاہم سپیکرنے ان کے کچھ الفاظ کو حذف بھی کرایا، اپوزیشن کے رکن شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ ن کی بعض دیگر خواتین ارکا ن اور پی ٹی آئی کے احتجاج میں شریک ارکان جو ایک دو مواقع پر میاں شہباز شریف کے بہت قریب بھی آئے موبائل فون پر فلم بناتے بھی دیکھے گئے ،جس پر سپیکر نے منع کیا، انہوں نے اپنے عملہ کو ایک رکن کا نام لے کہا کہ ان سے موبائل لے لیں، مسلم لیگ کی خواتین ارکان بھی اپنی نشستوں سے اٹھ کر پی ٹی آئی کے نعرہ بازی کرنے والے ارکان کے مقابل کھڑی ہو گئیں، سپیکر نے ہنگامہ فرو نہ ہوتا دیکھ کر اجلاس ملتوی کر دیا ،ان کی روانگی کے فوری بعد مسلم لیگ کے ارکان پی ٹی آئی کے نعرہ باز گروپ کے سامنے جمع ہوئے اور گلی گلی میں شور ہے عمران خان چور ہے کا نعرہ مسلسل لگایا۔ پیپلزپارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے سپیکر چیمبر میں سپیکر کا گھیرائو کرلیا اور نصف گھنٹہ تک چیمبر کے باہر دھرنا دیا۔ آصف علی ز رداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے نعرے لگائے اور قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل سپیکر چیمبر میں احتجاج کیا۔ پیر کو پاکستان پیپلزپارٹی کے سینٹ اور قومی اسمبلی سے تعلق رکھنے والے ارکان سپیکر چیمبر میں جمع ہوگئے، سپیکر اسد قیصر اپنے دفتر میں موجود تھے ان کے چیمبر میں آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرو کے نعرے لگائے، شدید احتجاج کے بعد پیپلزپارٹی کے ارکان واپس چلے گئے۔ پارلیمانی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن نے سپیکر چیمبر میں جاکر سپیکر کے گھیرائو کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمنٰ نے سپیکر اسد قیصر سے ملاقات کی اور ان سے آصف علی زرداری کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا، سپیکر نے انہیں بتایا کہ انہوں نے پروڈکشن آرڈر کے بارے میں وزارت قانون سے رائے مانگی ہے۔ شہبازشریف کی زیرصدارت پارٹی کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی شریک ہوئے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے کہا کہ یہ عوام دشمن بجٹ ہے، پورا زور لگائیں گے کہ عوام دشمن بجٹ منظور نہ ہو، پارلیمانی تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت خود بجٹ پر بحث شروع نہیں ہونے دے رہی، حکومت جان بوجھ کر بجٹ پر بحث نہیں ہونے دے رہی۔ اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ میرے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلانے کی کوشش کی جاتی رہی، نواز شریف سے میری ملاقات ہوئی، ان کا جذبہ بہت بلند تھا وہ ملکی حالات پر بہت پریشان ہیں۔آئی این پی کے مطابق شہباز شریف نے پی ٹی آئی ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چور تمہارا لیڈر عمران خان ہے اور ڈاکو اس کی بہن علیمہ خان ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران تحریک انصاف کے ارکان نے احتجاج کیا اور چور، چور، ڈاکو اور قاتل کے نعرے لگائے۔ جس پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف برہم ہو گئے اور پی ٹی آئی ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چور تمہارا لیڈر عمران خان ہے اور ڈاکو اس کی بہن علیمہ خان ہے۔
قومی اسمبلی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ)مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اگر حکمران جماعت سپیکر اسمبلی کی نہیں سنتی تو وہ استعفیٰ دیں اور باعزت طریقے سے گھر چلے جائیں۔ حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے احتجاج کے باعث قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سپیکر صاحب ایوان سنبھالنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ جو سپیکر اپوزیشن کو بولنے نہ دے وہ ایوان کیسے چلائے گا اور آج ان کی اپنی جماعت جس نے انہیں منتخب کیا تھا سپیکر کے خلاف ہے اور وہ ان کی سنتی نہیں ہے۔ یہ آج کی حقیقت ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کو وزیراعظم اور حکمران جماعت روک رہی ہے اور یہ پاکستان کی بدنصیبی ہے۔ مقصد صرف ایک ہے کہ اس عوام دشمن اور آئی ایم ایف کے بجٹ سے توجہ ہٹائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا ایک دن لگے، ایک ہفتہ، ایک مہینہ، ایک سال لگے اپوزیشن لیڈر تقریر کریں گے، پاکستان کے عوام کی بات کریں گے اور اس حکومت کا کھوکھلا پن، عوام دشمن پالیسیاں قوم کے سامنے رکھیں گے۔38 سال میں پہلا ایوان دیکھا ہے جس میں بولنے کی اجازت نہیں ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت نے پہلے 100 دن مانگے، پھر 3 مہینے مانگے اب 10 مہینے ہونے کو آئے ہیں اور ان کی ناکامیوں کے ملبے تلے پاکستان کے عوام دب چکے ہیں۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ حکمران جماعت اسمبلی چلنے نہیں دینا چاہتی، اگر اسمبلی نہیں چلے گی تو ان کا نقصان تو ہوگا ہی لیکن قوم کا، آئین کا اور جمہوریت کا نقصان بھی ہوگا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ہماری تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جب بھی سویلین طاقتیں ناکام ہوئی ہیں تو کوئی نہ کوئی ایسا اقدام ہوا ہے جو غیر آئینی ہو۔ خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم خود ہدایات دیتے ہیں کہ اسمبلی نہ چلنے دیں، وزیروں کی مایوسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ صحافیوں کو تھپڑ مار رہے ہیں۔فرسٹریشن کا اظہار ہے کہ ان کے قابو میں چیزیں نہیں رہیں، کوئی 5 ہزار کوئی 6 ہزار لوگوں کو مارنے کی بات کررہا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ فرسٹریشن کا یہ حال ہے کہ یہ لوگ جن عہدیداروں کے خلاف لکھتے اور عدالتوں میں جاتے تھے کہ ان کی تعیناتی غیر قانونی ہے آج خود انہی لوگوں کو ملازمت دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی کم مائیگی اور دیوالیہ پن دیکھیں، آج نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمی کے دوران جو لوگ ہم نے تعینات کیے یہ ان لوگوں کی مدد سے اپنی حکومت چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئو ٹرتھ کمشن بناتے ہیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا، ہم بھی انسان ہیں ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ چیئرمین نیب کیلئے جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نام خورشید شاہ نے دیا تھا۔ نیب کو ختم کرنا چاہئے، کرپشن پکڑنی ہے تو ایف آئی اے کے قوانین موجود ہیں، اگر ہم نے حکومت میں ایک غلطی کی تو موجودہ حکومت سو غلطیاں کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت میں ایک رائے تھی کہ ثاقب نثار کیخلاف ریفرنس دائر کیا جائے لیکن ہماری حکومت نے فیصلہ کیا کہ ثاقب نثار کیخلاف ریفرنس دائر نہ کیا جائے۔ ثاقب نثار کیخلاف ریفرنس دائر نہ کرنے کا فیصلہ بہتر تھا۔ کمشن اس چیز کا بنتا ہے جس کا علم نہ ہو قرضوں کا سارا ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ وزیراعظم سے پوچھیں کہ وہ انکوائری کمشن کیوں بنا رہے ہیں، جسے گرفتار کرنا ہے کرلیں، میں نے پہلے بھی ضمانت نہیں کرائی۔ مجھے گرفتاری کا کوئی خوف نہیں ہے۔
شاہد خاقان