حکومت ہٹانے کے لئے سیاسی قوتیں آگے آئیں ورنہ کوئی اور آئیگا، زرداری : اربوں کرپشن ہوئی تحقیقات کرانا ہمارا حق ہے: وفاقی وزرا
اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی )پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ میری گرفتاری سے پیپلز پارٹی کوکو ئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اس نوعیت کے اقدامات سے پارٹی اور مضبوط ہو گی،حکومت حساب کتاب بند کرے اور آگے کی بات کرے ، ہماری حکومت نے کسی سیاستدان کو گرفتار نہیں کیا تھاجو حکومت کو سوچنی اور سمجھنی چاہئیںجو طاقتیں انہیں لیکر آئی ہیں ان کو بھی سوچنا چاہیے،خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ کل عوام کھڑی ہو جائے ، پھرہم سنبھال سکیں گے اور نہ ہی کوئی دوسری سیاسی جماعت اور نہ ہی کوئی اور۔حکومت کو نظر نہیں آرہا مگر مجھے نظر آرہا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھ سے بھی گیم نکل جائے پیپلز پارٹی حکومت ساتھ ’’ میثاق معیشت‘‘ کر نے کے لئے تیار ہے ۔ آئیں مل کردیر پا معاشی پالیسی بنائیں،پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی کی شہادت کے بعد سند ھ میں’’ پاکستان نہیں چاہییُُ کے نعرے لگ رہے تھے جس پر میں نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ’’ پاکستان کھپے‘‘ نیب کی وجہ سے سرمایہ کار اور عوام خوف زدہ ہیں ۔ انہوں نے یہ بات جمعرات کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہی انہوں نے پروڈکشن آرڈر کی حمایت پر ایم کیو ایم، اختر مینگل سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سب سے پہلے سپیکر صاحب آپکا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ بجٹ کی بات کریں تو یہ بجٹ کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ ہماری وزارت خزانہ نے بنایا ہوا ہو،مثال کے طور پر سانگھڑ اور خیر پور میں ٹڈی آئی ہوئی ہے جو کپاس کی فصل کو تباہ کررہی ہے، کہیں اور ایسا ہوتا تواب تک توسعودی عرب سے امداد آجاتی ہے، ٹڈی کاٹن کیلئے بہت ہی خطرناک ہے،ہمارا زرعی ملک ہے،اس سے ملک کی برآمدات پر اثر پڑ سکتا ہے ،اس پر فوری نوٹس لیا جائے۔ انہوں نے حکومت کو پیش کش کی کہ ہم حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معاشی پالیسی پر بات کرنے کو تیار ہیں، ملک کی دیر پا معاشی پالیسی کیلئے حکومت کیساتھ مل کر بات کرنے کو تیار ہیں،ملک کے معاشی مسائل سب کے اور مشترکہ ہیں،آئیںہم ملکر ملک کی معاشی پالیسی کی اونر شپ لیتے ہیں،کل ہم حکومت میں تھے ،پھر کوئی اور حکومت میں آیا اور آج یہ لوگ حکومت میں ہیں اور کل کوئی اور ہوگا ،یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ پیپلز پارٹی نے اس ملک کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے، ملک کی ہر انڈسٹری کے بڑے بڑے اشتہارات آرہے ہیں کہ ہمیں بچائو۔اگر اچھا بجٹ ہے اور آئی ایم ایف سے پیسے مل رہے ہیں تو لوگ کیوں رو رہے ہیں ؟اسکا مطلب ہے کچھ تو معاملہ ہے۔حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی ہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ ٹیکس بھی لگا دیا ہے،جب ٹیکس لگتا ہے تو سرکاری ملازم کو اتنی تنخواہ کم ملتی ہے،ہم انہی سے مزید ٹیکس لے رہے ہیں جو پہلے ٹیکس دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں سے میں ابھی آیا ہوں وہاں ایسا ماحول ہے جس سے سرمایہ کاروں کو خوف آتا ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کو تیار ہی نہیں،چیک بک پر اگر 5لاکھ سے اوپر پیسے ہیں تو ایف بی آر کا نوٹس آجاتا ہے کہ آئیں حساب دیں،پورے ملک میں اب کون کون حساب دیگا اور کہاں کہاں تک حساب ہو گا،حساب کتاب بند کیا جائے اور آگے کی بات کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ2008میں جب ہماری حکومت آئی تو اس سے پہلے مشرف کا 10سال کا دور تھا مگر ہم نے کسی سیاستدان کو نہیں پکڑا،میرے پکڑے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،پاکستان پیپلز پارٹی اور مضبوط ہو جائے گی،مگر عام لوگ خوفزدہ ہیں کہ اگر زرداری پکڑا جا سکتا ہے تو ہمارا کیا بنے گا،یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ آج اسمبلی میں آکر پرانی یادیں تازہ ہو گئیں میں پہلے بھی جیل سے اسمبلی آتا رہا ہوں،یہ نئی بات نہیں ہے۔بلوچستان کے دوستوں،بھوتانی صاحب ،بگٹی صاحب ،شازین بگٹی صاحب کا مشکور ہوں،ان سب کا مجھ پر احسان ہے اور میں یہ یاد بھی رکھوں گا۔مشکل وقت میں ان لوگوں نے ہمارا ساتھ دیا ان لوگوں نے بھی ساتھ دیا جو سیاسی طور پر ہمارے ساتھ نہیں۔علاوہ ازیں پارلیمنٹ ہائوس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا ہے مجھ پر جتنے مقدمات چلانے ہیں چلائیں میری خیر ہے، پاکستان کا خیال رکھیں،وہ جیلیں بھی دیکھی ہیں جو کسی اور نے نہیں دیکھیں۔ہم جیل جا جا کر نہیں تھکے، یہ باہر رہ کر تھک گئے، میں جیل میں ہوں میرے حوصلے بلند ہیں، باہر والے پتا نہیں کیوں تھک گئے ہیں بلاول کی پالیسی ایگریشن(غصے)والی ہے میری پالیسی ٹھنڈی ہے موجودہ حکومت کو نکالنے کیلئے سیاسی قوتوں کو آگے آنا ہو گا،اگرسیاسی قوتیں آگے نہیں آئیں گی توکوئی اور آئے گا، حکومت چیئرمین نیب کو بلیک میل کررہی ہے۔آصف زرداری نے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ کو حسین اصغر کو انکوائری کمشن کا سربراہ لگانے پر اعتراض ہے؟ تو انہوں برجستہ جواب دیا ’’ ہمیں اوپر سے نیچے تک سب پر اعتراض ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ کہ باہر سے آئے ہوئے وزیرخزانہ کو ملکی معیشت کا علم ہی نہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نیب کی طرف سے ہونی والی تحقیقات سے مطمئن ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ جو اچھا کرے اس کا بھی بھلا، جو اچھا نہ کرے اس کا بھی بھلا، ہم کسی کو دبانے والے نہیں، پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ مجھ سے تو پہلے بھی 13 سال حساب مانگتے رہے ہیں،ہم تو چلیں گے جو چلنا چاہے چلے ہمارا ہمسفر بنے، سابق صدر نے کہا کہ پیپلزپارٹی پر ہمیشہ ہی ظلم ہوتا رہا ہے، اب سوشل میڈیا کی وجہ سے ظلم چھپایا نہیں جاسکتا،باہر سے آنے والوں سے ملک نہیں چل رہا ،ان کو معیشت کا پتہ ہی نہیں ہے۔ پاکستان کو بہت تکلیفیں ہیں،بجٹ کی ہم مذمت کرتے ہیں،ملک اس طرح نہیں چلتے ،ان سے ملک نہیں سنبھلنا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ’’ یہ بابا کی فلاسفی ہے، میری شاید نہ رہے‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں پوری کوشش ہے بجٹ پاس نہ ہو۔جب ان سے چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کے لئے تحریک عدم اعتماد لانے کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کے حوالے سے اے پی سی میں بات ہوگی۔ ہمارا مطالبہ ہے کے محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آڈر جاری کیے جائیں۔ اگر ہر ممبر کو اپنی بات کرنے کا موقع نہیں ملے گا تو یہ بجٹ دھاندلی ہوگی۔
زرداری
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں فاشزم عروج پر تھا، شہباز شریف کے دور حکمرانی میں صرف دس سالوں میں پنجاب میں 2176 لوگوں کو پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کروا دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے لفافہ کی اصطلاح متعارف کروائی۔ کسی میڈیا ہاؤس کو ایک سال میں 86 کروڑ روپے کے اشتہارات جاری کئے کسی کو معمولی۔ انہوں نے غیرمعروف اور ڈمی اخبارات کو جاری اشتہارات کی تفصیلات اور فہرستیں سپیکر قومی اسمبلی کے سپرد کر دی ہیں۔ اخلاقی قدروں کو بھی 30 سالوں میں تباہ کر دیا گیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ٹاپ قیادت کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے۔ ایک لیڈر کو سزا ہو گئی ہے۔ دوسرا جیل میں ہے۔ اتنی اخلاقی گراوٹ ہے کہ کرپشن کے حوالے سے قید سے جب باہر آتے ہیں تو اپنے اوپر غریبوں سے پھول نچھاور کرواتے ہیں۔ عدلیہ پر عملی طور پر حملہ کیا گیا۔ سرکاری فنڈز سے 76 کروڑ روپے سے جاتی عمرہ کی چار دیواری بنائی گئی ان کے دور میں گھروں میں سرکاری کیمپ آفسز بنا دیئے گئے۔ سرکاری خزانے کو شریف برادران نے سیاست کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کیا۔ ان کو مچھر کاٹے تو علاج کے لئے لندن جاتے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم لے کر آئیں گے۔ جو بھی جیل جاتا ہے بیمار پڑ جاتا ہے۔ گرفتار رہنما کرپشن کے لئے پارلیمنٹ کو ڈھال نہ بنائیں۔ پہلی بار سندھ میں سپیکر چیمبر کو سب جیل قرار دے دیا گیا۔ وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہا ہے کہ سابق وزیر خزانہ پنجاب 1300 ارب روپے کا خسارہ چھوڑ کر گئی ہیں اور ہمیں معاشی سبق پڑھا رہی ہیں۔ وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے خرچ کے حوالے سے تحقیقات کا ہم حق رکھتے ہیں‘ تمام میٹرو منصوبے ترکی کی بلیک لسٹ کمپنی البراق کے ذریعے مکمل کئے گئے‘ تمام موٹرویز‘ ہائی ویز ‘ ڈیموں کی تعمیر اور اہم شاہراہوں کے منصوبوں کے ٹھیکے زیڈ کے بی کو دیئے کیونکہ اس کمپنی میں حمزہ شہباز شریف کے شیئرز ہیں‘ سپیکر نے آصف علی زرداری اور سعد رفیق کے اپنی صوابدید کے تحت پروڈکشن آرڈر جاری کئے، مجرموں کا یہاں آنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا‘ جن لوگوں کا کام ہی ملک کو لوٹنا ہے انہیں تو شرم سے ہی یہاں نہیں آنا چاہیے۔ غلام سرور خان نے کہا کہ نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کی زمین کی خریداریوں اور تعمیر میں اربوں روپے کی بدعنوانیاں سامنے آئی ہیں۔ شجاعت عظیم اور میاں منیر جیسے لوگوں نے پاکستان کو لوٹا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 70 ہزار فوجی سول اور سیکیورٹی اداروں کے افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور دہشت گردی پر قابو پالیا گیا۔ تین مسائل اب بھی موجود ہیں جن میں ملکی معیشت‘ توانائی کا بحران اور پانی کی قلت شامل ہیں۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم میٹروز‘ موٹرویز‘ اورنج ٹرین‘ جاتی عمرا‘ رائے ونڈ روڈ پر خرچ ہوا۔ کمیشن لی گئی اور کرپشن کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی علی پرویز ملک نے کہا کہ کوشش کریں گے کہ حکومت کو ایسا مشورہ دیں جن سے ملکی معاشی معاملات میں بہتری آسکے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی قومی قیادت ایک میز پر بیٹھے اور ترجیحات کے لئے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ ملکی معیشت سیاست کی نذر نہ ہو سکے۔ پی ٹی آئی کی رکن عالیہ حمزہ نے کہا ہے کہ دس ماہ پہلے یہ ملک تباہی کے دھانے پر کھڑا تھا اس لئے اللہ کو اس ملک پر ترس آیا اور عمران خان کی صورت میں مسیحا دیا۔ بلاول ہائوس کے صدقے کے خرچے بھی عوام سے آتے تھے۔ وزیر توانائی عمر ایوب خان نے جمعرات کو قومی اسمبلی میں شاہدہ کی رحمانی بجٹ تقریر کے جواب میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جو آرٹیکل ایوب خان کے بارے میں لکھا تھا ایسا میں بھی نہیں لکھ سکتا ۔اس کا ریکارڈ میرے پاس موجود ہے وہ میں پیش کردوں گا۔ اجلاس میں ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے 10 اور 20 پرسنٹ کمیشن کی بات کی گئی تو پاکستان پیپلز پارٹی کی شگفتہ جمانی کی قیادت میں پارٹی کی خواتین ارکان نے شدید احتجاج کیا اور سپیکر ڈائس پر پہنچ گئیں ڈپٹی سپیکر سے انتہائی شور شرابا کرتے ہوئے سخت انداز میں بات کی جس پر وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی قیادت میں تحریک انصاف کی خواتین بھی ارکان تیزی سے سپیکر ڈائس پر پہنچ گئیں ان کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی اور ایک دوسرے سے جھگڑنے لگیں وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی وہ 15 منٹ ایوان میں موجود رہے مخالفانہ نعروں کا سلسلہ شروع ہوا تو عمران خان ایوان سے اٹھ کر چلے گئے وزیراعظم عمران خان جمعرات کو بجٹ اجلاس کی دوسری نشست میں 3 بجکر 48 منٹ پر قومی اسمبلی میں آئے حکومتی ارکان نے ڈیسک بجا کر وزیراعظم کا استقبال کیا۔ وفاقی وزیر غلام سرور خان کی متنازعہ تقریر پر پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان نے حکومت کی خلاف نعرے لگانے شروع کر دیئے، چور ہے چور ہے کا نعرہ بھی لگا۔ تحریک انصاف کے ارکان نے عمران خان تیرے جانثار بے شمار کے نعرے لگائے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ پروڈکشن آرڈر جاری کرنا میرا صوابدیدی اختیار ہے۔ انہوں نے حکومت پر واضح کیا کہ وہ گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر کے معاملے پر کسی کے پابند نہیں ہیں انہوں نے یہ رولنگ جمعرات کو وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے سابق صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر پر کئے گئے اعتراض کے جواب میں کہی۔ بجٹ پر بحث جاری تھی کہ پیپلز پارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے کورم کی نشاندہی کر دی اس وقت ایوان میں اراکین کی تعداد انتہائی کم تھی اس بناء پر ڈپٹی سپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس آج جمعہ کی صبح دس بجے تک ملتوی کر دیا۔
قومی اسمبلی