• news
  • image

نظریاتی تھنک ٹینک کا قیام اور ایوان قائداعظم

مرشد و محبوب مجید نظامی نے ایوان اقبال بنوایا پھر ایوان قائداعظم بنوایا۔ ان کے خوابوں کی تعبیر ان دونوں جگہوں پر ایک فکری تقدیر بنتی ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی توسیع ہے کہ ان دونوں اداروں میں اسی آواز کے راز منکشف ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں جو نظامی کی نظریاتی میراث ہے۔ آج کل شاہد رشید نظریاتی ثمر سکول کی رونقوں میں رہتے ہیں۔ یہ پہلے ثمر سکول تھا۔ اسے نظریاتی ثمر سکول کا نام مجید نظامی نے دیا۔ پورے ملک میں آج کل نظریہ پاکستان کی بات صرف یہاں ہوتی ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ جہاں قائداعظم‘ علامہ اقبال اور مادر ملت کی باتیں ہوتی ہیں۔
مجید نظامی نوائے وقت روزانہ جاتے تھے اور پہلے وہ نظریہ پاکستان آتے تھے۔ کچھ دیر شاہد رشید کے پاس بیٹھتے جبکہ آفس چیئر پر شاہد رشید کو ہی بٹھائے رکھتے ۔ وہ ایوان قائداعظم میں کئی دفعہ آئے کئی تقریبات کی صدارت بھی کی مگر اس کا باقاعدہ افتتاحی اجلاس ہوا۔ جس میں کنوینئر ایوان قائداعظم مہناز رفیع نمائندہ اجلاس کی میزبان تھیں اور کمپیئر بھی کر رہی تھیں۔ شاہد رشید بھی ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ مہناز رفیع نے اس خصوصی اجلاس کو بہت سلیقے سے آگے بڑھایا۔
صدارت خورشید محمود قصوری نے کی اور اپنی آواز کی طاقت سارے ماحول میں پھیلا دی۔ وہ سارے ماحول پر خود ہی چھائے رہے مگر چالیس پچاس دوستوں نے بھی یہاں اپنی موجودگی کا پوری طرح احساس دلایا۔ ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی نے قاضی حسین احمد کی یاد تازہ کی قاضی صاحب کی شفقتوں کی ٹھنڈک ہم نے محسوس کی۔ مجھے یاد ہے اور یہ میرا فخر ہے کہ میری پیاری بیٹی تقدیس نیازی کا نکاح عزیز اشراق نیازی کے ساتھ قاضی صاحب نے پڑھایا تھا۔ وہاں بھی ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی موجود تھیں۔ ایڈیٹر روزنامہ ’’دنیا‘‘ سلمان غنی‘ قیوم نظامی‘ آصف بھلی‘ ضیا الحق نقشبندی‘ کرنل (ر) فرخ صاحب‘ برادرم بریگیڈئر فاروق حمید‘ سلمان عابد‘ حامد ولید‘ خالدہ جمیل‘ جسٹس خلیل الرحمن‘ ڈاکٹر اجمل نیازی اور دوسرے احباب نے شرکت کی۔
مہمان خصوصی خورشید محمود قصوری نے کہا کہ قائداعظم پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے خواہشمند تھے۔ ایک ایسی ریاست جہاں عوام کو صحت و تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولتیں میسر ہوں۔ ہمیں قائداعظم کی تقاریر سے رہنمائی لیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے خیالات میں کوئی تصادم نہیں۔
ایک بات ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی نے بتائی کہ میرے آغا جان (قاضی حسین احمد مرحوم) کہا کرتے تھے کہ مسائل کے حل کیلئے برف کے دماغ سے سوچو۔ انتہائی سوچ بچار کے ساتھ جذبات سے عاری ہو کر مسائل کا حل نکالو۔ آج ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم نے قائداعظم کے فرمودات پر کس حد تک عمل کیا ہے۔ سلمان غنی نے کہا کہ پاکستان کو انتشار سے بچانے کیلئے تھنک ٹینک کا قیام ناگزیر ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی کلچر ختم ہو رہا ہے۔ نئی نسل کی نظریاتی بنیادوں پر تربیت ہونا چاہئے۔
بیگم مہناز رفیع نے خوب بات کی کہ تھنک ٹینک میں دانشوروں اور ریسرچ سکالرز کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے قائداعظم کے افکار سے تحقیق لیکر ان تک پہنچانا بہت ضروری ہے مہناز رفیع نے مقررین کے درمیان میں کئی بہت اہم باتیں کیں۔
برادرم ڈاکٹر شاہد مسعود سے ملاقات کم کم ہوتی ہے مگر ان کے ساتھ دوستی بہت ہے وہ بہت دلیر اور دل والے آدمی ہیں بہت کم عرصے میں انہوں نے اپنا ایک مقام بنایا ہے انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف شہبازشریف اور مریم نواز ایک پیج پر ہیں شاہد مسعود سے میری گزارش ہے کہ وہ یہ بھی بتا دیں اس پیج پر لکھا کیا ہے۔
میں نے لائف کلب کے حوالے سے ذکر کیا تھا سرگرم ثقافتی شخصیت عمر انہ مشتاق نے ایک غیر رسمی اجتماع کسی’’لائف کلب کے زیر اہتمام کیا تھا جس میں کوئی کارروائی نہ ہوئی نہ کوئی تقریر نہ کمپیئرنگ اس طرح کی محفلوں میں ہرشخص کمپیئر ہوتا ہے اگرچہ نواز کھرل وہاں موجود تھے مگر وہ گفتگو کرتے رہے کمپئرنگ نہ کی حسین مجروح بھی تھے وہ بہت دوست دار آدمی ہیں جو مرضی کہہ لو وہ ناراض نہیں ہوتے ان کے پاس لطیفوں اور لطیفوں جیسی باتوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔
شہید اعظم کے طور پر یہ برکت کی بات ہے کہ کوئی اپنا نام حسین رکھے مگر وہ عجب ’’غلام حسین‘‘ ہے کہ اپنا نام حسین مجروح رکھا ہوا ہے شہید ہونے کیلئے پہلے مجروح ہی ہونا پڑتا ہے مگر وہ پہلے بھی مجروح ہو اور آخر میں بھی مجروح ہے وہ کہیں یہ تو نہیں چاہتا کہ مجروح کو شہید سے بڑا کر دیا جائے وہ ہنس دیا اور بات کہیں آگے نکل گئی۔
اس محفل میں صارفین کی بات بھی ہوئی فیض کو بھی یاد کیا گیا استاد دامن کا ذکر بھی آیا استاد دامن کا جو ایک کمرہ تھا وہ کسی بڑے سے بڑے مکان سے بڑا تھا اس کمرے میں بڑے بڑے لوگوں کو دیکھا گیا مگر یہ کمرہ استاد دامن نے نہ چھوڑا مجھے کچھ یاد آتا ہے ہم کئی ہم عمر دوست استاد دامن سے کئی بار اس کمرے میں ملنے گئے۔
مولانا عبدالخبیر آزاد آج کل بادشاہی مسجد کے امام ہیں مجھے انہوں نے کئی بار کہا کہ اگر ہمارے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھو اور مسجد میں تقریر بھی کرو مگر مجھے ہمت نہیں پڑتی۔ ایک دفعہ میں نے یہ بات برادرم طاہر رضا بخاری سے کی وہ خاموش رہے نہ مجھے منع کیا اور نہ تاکید کی وہ میرے بہت دوست ہیں مگر اس طرح جیسے دوست نہ ہوں ان سے بڑے دنوں تک ملاقات نہیں ہوتی بعض اوقات تو ان کے بارے میں معلومات بھی نہیں ہوتیں جتنے بھی صاحب قبر پنجاب میں ہیں ان کے دوست ہیں مگر وہ اس دوستی کا پروپیگنڈا نہیں کرتے۔
جیڑیاں تھانواں صوفیاں جا کے لیئاں مل
اوہ اوہناں دے درد دی تاب نہ سکیاں جھل
اک کوک فرید دی سنجے کر گئی تھل

epaper

ای پیپر-دی نیشن