ضرورت سے زائد
حضرت سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : اے آدم کے بیٹے ! اے انسان اگر تو اپنی ضرورت اورحاجت کے زائد مال اللہ رب العزت کی راہ میں خرچ کردے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے اورزائد از ضرورت مال کو روکے رکھنا تیرے لیے نقصان دہ ہے ، بہتر نہیں ہے، اورضرورت کا سروسامان زندگی اپنے پاس رکھنے میں تجھے ملامت نہیں کی جائے گی اورمال خرچ کرنے کی ابتداء ان سے کرو جن کی کفالت تمہارے ذمہ ہے اور(سن لو)اوپر والا (سخی کا)ہاتھ نیچے (مانگنے )والے ہاتھ سے بہترہے۔(مسلم، ترمذی، الترغیب والترہیب ، احمد ، مشکوٰۃ )
حضرت خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جس نے فی سبیل اللہ کو ئی چیز خرچ کی تواس کے لیے سات سوگنا تک اجر لکھا جاتا ہے۔(سنن ترمذی، نسائی، مشکوٰۃ ، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم ، ذہنی )
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں حضور سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا : جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے تواس کے دونوں جانب دوفرشتے بھیجے جاتے ہیں جو ایسی آواز سے ندادیتے ہیں جسے انسانوں اورجنوں کے علاوہ تمام زمین والے سنتے ہیں وہ کہتے ہیں: اے لوگو! اپنے پروردگار کی طرف بھاگو بے شک جو چیز مقدار میں کم ہومگر ضروریات کو کفایت کرنے والی ہو، وہ اس چیز سے بہتر ہے ، جو بہت زیادہ ہو مگر (اطاعت الٰہی سے)غافل کردینے والی ہو، اور جب سورج ہنگامِ غروب میں ہوتا ہے تو اس وقت بھی دو فرشتے اس کے دونوں اطراف میں بھیجے جاتے ہیں اوروہ (بھی)ایسی آواز سے ندادیتے ہیں جسے انسانوں اور جنوں کے علاوہ سب اہل ارض سنتے ہیں ، وہ کہتے ہیں: اے اللہ جل جلالک،خرچ کرنے والے کو اس کا نعم البدل عطاء فرمایا اوربخیل کے مال ومنال کو ہلاک کردے۔ (صحیح ابن حبان ، مشکوٰۃ ، امام احمد بن حنبل ، مستدرک امام حاکم)البانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے محقق شعیب کہتے ہیں اس کی اسناد صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق ہے)
حضرت خالد بن اسلم رحمۃ اللہ علیہ جو سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، ایک اعرابی نے آپ کے سامنے سورۃ توبہ کی آیت تلاوت کی ’’وہ لوگ جو سونا چاندی کو ذخیرہ کرتے ہیں اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے‘‘اورپوچھا اس کا مفہوم کیا ہے، آپ نے فرمایا:
جس نے مال ذخیرہ کیا اوراس پر زکوٰۃ نہ اداکی تواس کے لیے بربادی ہے یہ حکم زکوٰۃ سے پہلے کا ہے جب زکوٰۃ کا حکم آگیا تو اس زکوٰۃ کو اللہ نے مال کے لیے پاک کرنے والی چیز بنادیا ، پھر آپ نے متوجہ ہوکر فرمایا : مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میرے پاس اورپہاڑ جتنا سونا ہو میں اس کی مقدار سے واقف ہوں، اوراس کی زکوٰۃ اداکرتا رہوں ، اوراللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں عمل کرتا رہوں۔ (ابن ماجہ)