• news
  • image

اتوار‘ 19؍ شوال المکرم 1440ھ‘ 23؍ جون 2019ء

خیبر پی کے کی نرسریوں میں آگ لگنے سے 12 لاکھ پودے جل گئے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے شاید ایسے ہی موقعوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ ابھی تو بلین ٹری منصوبے کی منہ دکھائی تک نہیں ہوئی تھی۔نہ کہیں سرسبز جنگل اُگے تھے۔ نہ دھرتی کی ویرانی کم ہوئی تھی کہ 12 لاکھ پودے لگنے سے پہلے ہی خاکستر ہو گئے۔ یہ آگ لگی کیسے۔ آسمان سے بجلیاں انہی معصوم پودوں پر گریں تو گریں کیوں۔ کس ظالم نے پٹرول چھڑک کر اتنے بڑے پیمانے پر آگ لگا کر بلین ٹری نامی منصوبے کی اگر کمر نہیں تو کم ازکم ایک ٹانگ ضرور توڑ دی۔ کام جس نے بھی کیا نہایت منظم طریقے سے کیا۔ سب سے بڑی آگ بنوں کے ذخیرے میں لگی جہاں رپورٹ کے مطابق لاکھوں جبکہ حقیقت میں ہزاروں پودے جل کر خاکستر ہو گئے یعنی اُگنے سے پہلے ہی پیوند خاک ہو گئے۔ یہی حال دوسرے علاقوں کا بھی ہے۔ خیبر پی کے میں موجودہ اور گزشتہ کو ملا کر 6 سال سے تحریک انصاف کی حکومت ہے جو وہاں کھربوں نہ سہی کروڑوں درخت لگانے کی دعویدار ہے۔ مگر افسوس وہاں اب تک لاکھوں درخت بھی نظر نہیں آتے جونئے لگے ہوں۔ جتنے بھی ہیں پرانے ہی لگے ہیں۔ اب بلین ٹری منصوبے کے نام پر اربوں روپے لوگوں کی جیبوں میں پہنچ چکے ہیں۔ جنگل لگیں نہ لگیں‘ ان کے کرپشن کے جنگل میں منگل کا سماں ضرور پیدا ہو گیا ہے۔ ہے کوئی جو اس طرف بھی توجہ دے۔اور بلین ٹری منصوبے کی بھی تحقیقات کرائے۔
٭…٭…٭
صدر ٹرمپ کی روحانی پیرنی کی انکے مخالفین کے نیٹ ورک کی ناکامی کی بددعا
امریکی صدر ٹرمپ عادات و اطورا سے تو لا ابالی نظر آتے ہیں۔ مگر ان کے حلقہ احباب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اندر سے مذہبی ہیں۔ وہ بھی پیروں فقیروں پر یقین رکھتے ہیں جبھی تو ان کی بھی ایک پیرنی ہے۔ جن سے صدر ٹرمپ دعائیں کراتے رہتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ کی روحانی پیرنی نے گزشتہ دنوں صدر کے مخالف عناصر کے گٹھ جوڑ کے خلاف ایک بدعائیہ تقریب بھی کی جس میں انہوں نے نہایت دلسوزی اور رقت کے ساتھ صدر کے مخالفین کی لٹیا ڈبونے کی دعائیں کیں۔ اب کہیں ٹرمپ جی بھی اپنی پیرنی کے کہنے پر ہاتھ میں انگوٹھیاں گلے میں مالا نہ پہن لیں اور کاروبار سلطنت کے لئے بلائے گئے اجلاسوں میں تسبیح بھی پھرتے نظر آئیں۔ مشرق ہو یا مغرب تمام تر ترقی کے باوجود ابھی تک تو ہمات سے آزاد نہیں ہو سکا۔ کیا ان پڑھ کیا لکھے پڑھے لوگ۔ سب ان دیکھی ماورائی قوتوں سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں اور ان سے بچنے کی راہیں بھی تلاش کرتے ہیں۔ انہی توہمات سے نجات کے لئے مذاہب آئے مگر افسوس ہمارے مذہبی راہنمائوں نے تو ہمات سے نجات دلانے کی بجائے مذہب کے نام پر نیا بیوپار بنا لیا۔ جسکی وجہ سے فلاں بابا فلاں مائی کہیں پروفیسر کہیں عامل سادہ لوح عوام کو لوٹنے کے لئے دکانداری کر رہے ہیں۔ کیا ایشیا کیا یورپ۔ ریا کے یہ کارخانے جاری ہیں کوئی کسی کے در پر جبین نیاز جھکا رہا ہے کوئی کسی در پر سوالی بنا نظر آتا ہے۔ آخر ٹرمپ بھی تو انسان ہیں سو انہوں نے بھی روحانی پیرنی بنائی ہوئی ہے۔ جسکی دعائوں سے ان کی آئی ٹلتی رہتی ہے۔ اب دنیا پر جو ٹرمپ کی شکل میں آئی ہے اسکو ٹالنے کے بھی تو کوئی پیر سامنے آئے تا کہ دنیا امن و شانتی کی راہ پر چل سکے۔
14 اگست سے اسلام آباد میں پلاسٹک بیگ کے استعمال پر پابندی
شاپرز دنیا بھر میں آلودگی پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ صرف ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتے۔ ان کی وجہ سے بے شمار خطرناک بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مغربی ممالک میںتو چلیں پھر بھی کوئی اصول ہو گا۔ ہمارے ہاں تو ہسپتالوں کے خطرناک جراثیم سے آلود سرنجوں خون کی بوتلوں و دیگر ٹیوبوں اور نلکیوں کو بھی شاپر بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے یہ مضر صحت تھیلا موت بانٹتا پھرتا ہے۔ کئی مرتبہ زوروشور سے اسکے استعمال پر پابندی کے رولز بنائے گئے۔ لوگوں کو خبردار کیا گیا۔ مگر ان پر پابندی کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ اب بھی کہا جا رہا ہے اس پر مکمل پابندی سے ملکی صنعت متاثر ہو گی‘ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوں گے۔ یہ صرف بہانہ ہے پہلے ہمارے ہاں کونسی صنعتیں روز افزوں ترقی کی راہ پر سر پٹ بھاگ رہی ہیں۔ جو اس کی بندش سے کسی پر اثر ہو گا۔ یہ پلاسٹک کا تھیلا تو گلتا بھی نہیں۔ کچرے کے ڈھیروں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ سیوریج میں بندش کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ اسلام آباد ہی نہیں پورے ملک میں اس پر جتنی جلد ممکن ہو پابندی لگانا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ عوام کی صحت اور ماحول کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اس بیماری سے جتنی جلد چھٹکارا پا لیں اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ہمارے پڑوس بھارت میں دیکھ لیں کپڑے کے تھیلے یا برائون کاغذ کے لفافے وہاں استعمال ہوتے ہیں۔ وہاں شاپر نہیں ہیں تو ہم یہ کیوں نہیں کر سکتے۔ شاپرز سے پہلے بھی تو دکاندار سامان لفافوں میںدیتے تھے اب کیوں نہیں دے سکتے۔
٭…٭…٭
فوجی کتوں کو یوگا کرانے پر راہول کی مودی پر تنقید
ویسے بات تو یہ ہے ہی حیرت کی۔ یوگا ایک ورزش ہے۔ جو جسمانی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ روحانی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرتی۔ آج تک ایشیائی ممالک میں صرف انسان ہی یوگا کرتے نظر آئے ہیں۔ دنیا بھر تک یہ ایک فن ہے۔ اس میں ورزش کے ساتھ ساتھ ذہنی ارتکاز پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس فن کے بڑے بڑے استاد بھی موجود ہیں۔ جن میں آج تک کوئی کتا نہیں گزرا۔ آج تک کسی نے کتوں کی جسمانی اور روحانی ترقی کے لئے اسے ضروری قرار نہیں دیا۔ ۔ خود مودی جی بھی جو یوگا کے بڑے شیدائی ہیں۔ انسان ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ یوگا بھی ان کے اندر چھپے بھیڑیئے کو تبدیل نہ سکا۔ اس لحاظ سے وہ اس بڑھاپے میں بھی اقلیتوں کی جان کے درپے ہیں۔ ان کے اردگرد بھی جو ٹولہ نظر آتا ہے وہ بھی انسانی خون کا پیاسا ہے۔
اب راہول گاندھی بڑے لکھے پڑھے جوان ہیں۔ انہیں مودی کی یوگا ایکسرسائز پر تو اعتراض نہیں البتہ یہ اعتراض ضرور ہے کہ فوجی کتوں کو کس کھاتے میں یوگا کرائی جا رہی ہے۔ کیا ا نہوں نے بھی یوگی سنت بننا ہے۔ حالانکہ اعتراض راہول جی کو یہ کرنا چاہیے تھا کہ بھارتی جنتا بھوکی مر رہی ہے۔ ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے اور نریندر مودی آر ایس ایس والوںکے ساتھ یوگا کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ پہلے انہیں جنتا کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے پھر اپنی فٹنس کا سوچیں۔ جہاں کروڑوں لوگوں کو بھوکا سونا پڑتا ہے وہاں کے پر دھان منتری کو ایسی نوٹنکی شوبھا نہیں دیتی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن