لاہور میں اہم بجٹ سیمینار
ڈاکٹر اعجاز نبی ملک کے صف اول کے معاشی ماہرین میں شامل ہیں۔ انٹرنیشنل گروتھ سینٹر کی پاکستان شاخ کی لاہور میں بنیاد رکھی ہے جو معیشت کے مختلف شعبوں میں اعلی پائے کی تحقیق کر رہا ہے۔ اس سینٹر کے تحت جمعہ کو بجٹ اور آئی ایم ایف پروگرام کے موضوع پر ایک سیمنار کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر حفیظ پاشا ، ڈاکٹر نوید حامد اور راقم نے اس سے جڑے اہم امور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میزبانی کے فرائض اور گفتگو کی نگرانی ڈاکٹر اعجاز نبی نے انجام دی۔ شرکاء سیمنار میں زیادہ تر معاشیات کے استاتذہ ، طالب علم، ریسرچرز، صنعتکار ، بیورکریٹ، بینکرز اور صحافی حضرات شامل تھے۔ سیمینار میں نہایت دلچسپ ، معلومات سے بھرپور اور پرجوش بحث و گفتگو کا سلسلہ دو گھنٹے جاری رہا۔
ڈاکٹر اعجاز بنی نے آغاز میں مقرّرین کے سامنے تین بڑے سوالات رکھے: اول یہ کہ کیا پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر تھا؟، دوم، کیا بجٹ میں کیے گئے اقدامات آئی ایم ایف کے پروگرام کو حاصل کرنے اور مکمل کرنے میں معاون ہونگیِ؟ سوم، کیا یہ آخری پروگرام ہوگا اور آئندہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوگی؟
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے جو وہ خود ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنے تئیں مارکیٹ سے مزید قرضے حاصل کرسکتا ہے لہٰذا آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بارہ ارب ڈالر کے قرضے اگلے سال واپس کرنے ہیں اور اس کے علاوہ حال میں دوستوں سے حاصل کیے گئے سات ارب ڈالر کے قرضے جو بصورت ڈپازٹ مرکزی بینک میں رکھے گئے ہیں وہ بھی اگلے سال واجب الادا ہونگے۔ ان قابل ادا قرضوں کے مقابل مرکزی بینک میں صرف سات ار ب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جو ان ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے نہایت قلیل ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کی گئی ہے، جس سے سے معاشی صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا ہوا ہے۔
راقم نے اپنی گذارشات میں پاشا صاحب سے اتفاق کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ بیرونی ادائیگیوں کے مسائل دراصل نتیجہ ہیں اس ناقص مالیاتی پالیسی کا جو ہم نے گذشتہ تین سالوں میں جاری رکھی ہے۔ ان سالوں میں بجٹ کا خسارہ تیزی سے بڑھا ہے، جو ملک میں ایک ایسی اضافی مانگ کا سبب بنا ہے جس کو ہم نے قرضوں سے پورا کیا ہے۔ اس مانگ کا لا محالہ ایک بڑا حصہ درمدآت کی مانگ میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور یوں وہ حالات پیدا ہوتے ہیں جن کا ذکر پاشا صاحب نے کیا ہے۔ جب تک ہم اس مسئلے پر قابو نہیں پائینگے ہم بیرونی ادائیگیوں کی مشکلات کا شکار رہیں گے۔ مزید براں ہمارے حکمران قرضوں کے ذریعے ہونے والے اخراجات کی ذرا پروا نہیں کرتے۔ مقامی کرنسی میں یہ معاملہ دور تک جاسکتا ہے لیکن درآمدات کیلئے زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک حد کے بعد بصورت قرض بھی ملنا بند ہوجاتا ہے اور یوں اس بند گلی میں آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتا۔
ڈاکٹر نوید حامد نے متذکرہ خیالات سے اتفاق کیا لیکن اس سوچ اور بحث سے بھی شرکاء کوآگاہ کیا جو اکنامک ایڈوائزری کمیٹی میں ہوئی تھی جس کے وہ رکن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے متعلق کچھ ممبران کا خیال تھا کہ فوری مدد کی درخواست کو سخت شرائط کا سامنا کرنا ہوگا اور کچھ تاخیر کے بعد ان میں نرمی کی توقع کیجاسکتی ہے۔ اس دوران دوست ممالک کی مدد فوری ضرورت کو پورا کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات اب ثابت ہوگئی ہے کہ یہ تاخیر بے جا تھی اور اس سے قیمتی وقت بھی ضائع ہوا اور مشکلات میں بھی اضافہ ہوا۔
دوسرے سوال کا جواب ڈاکٹر پاشا نے نفی میں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرائمری خسارے (یعنی سود کی ادائیگی کے علاوہ) کو کم کرنے سے مالیاتی ڈسپلن واپس نہیں آئیگا کیونکہ ایک بڑا خسارہ جو سات فیصد تک ہوسکتا ہے باقی رہے گا اور اس کی موجودگی میں معاشی بحران جاری رہیگا۔ راقم کا یہ کہنا تھا کہ سود کی ادائیگی اور دیگر اخراجات میں ایک جوہری فرق ہے۔ پرائمری خسارہ اگر ختم ہوجاتا ہے ، جو دوسرے سال ہوجائیگا، تو ہمارے وسائل کا ایک حصہ سود کی ادائیگی میں صرف ہوگا اور یوں ہم قومی قرضے میں اضافے کا رجحان میں اعتدال پیدا کرسکتے ہیں جو بصورت دیگر بے لگام ہوگا۔ لہذا پرائمری خسارے کی اس معروف خصوصیت کیوجہ سے یہ گمان کہ یہ مالیاتی ڈسپلن کو بحال نہیں کریگا درست نہیں ہے۔پاشا صاحب نے بعد ازاں چند اہم اخراجات میں کمی، خصوصاً دفاع اور سول حکومت کو سراہا اور سماجی شعبوں میں اضافے کی تعریف کی، لیکن ساتھ ہی اس بات پر تشوش کا اظہار کیا کہ محصولات میں اضافہ بہت زیادہ ہے اور اس کا حصول آسان نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر نوید حامد نے راقم کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے بجٹ کو امید افزاء قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ موجودہ حالات کو سنوارنے میں معاون ہوگا اور اگر اس پر عملدرآمد کیا گیا تو یہ آئی ایم ایف کے پروگرام کو آگے بڑھانے میں کامیاب ثابت ہوگا۔
تیسرے سوال کے جواب میں پاشا صاحب کا کہنا تھا کہ چند بنیادی اصلاحات ( reforms structural ) ابھی نہیں کی گئیں جو اس بات کا اعتماد پیدا کریں کہ آئندہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔ انہوں نے خصوصاً طرز حکمرانی کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا پھیلاؤ اور اس کے اخراجات بے لگام ہیں، سول سروس اصلاحات اور کفایت شعاری (austerity) کے بارے میں قائم کمیٹیوں کی سفارشات سامنے نہیں آئیں لہذا اس اہم محاذ پر کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ راقم کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ بار بار ابھرتا رہیگا جب تک ہم اپنے اخراجات اور وسائل میں توازن پیدا نہیں کرینگے۔ ڈاکٹر نوید حامد نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے مزید اضافہ کیا کہ اس بجٹ میں یہ اہم کوشش کی گئی ہے کہ حکومت کا ایک اکاؤنٹ مرکزی بینک میں قائم ہو اور دیگر بینکوں میں پڑے حکومتی ڈپازٹ اس میں منتقل کیے جائیں، یوں قرضوں کی ضرورت کم کیجاسکتی ہے۔
ڈاکٹر اعجاز نبی نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ماسوائے معمولی اختلاف کے مقّررین نے زیادہ تر تینوں سوالات کے جوابات اثبات میں دیے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ خوش آئند بات ہے کہ یہ تعلیم اور تجربے سے بھرپور پینل اس بجٹ کو عموماً درست اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کو ناگزیر قرار دے رہا ہے۔ ایک اور اہم اتفاق یہ ہے کہ مستقبل میں آئی ایم ایف کا راستہ روکنے کیلئے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ بنیادی اصلاحات کے بغیر جس میں سر فہرست حکومت کا حجم اور اس کے اخراجات میں کمی یہ خام خیالی ہوگی کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ بعد ازاں انھوں نے شرکائ سیمنار کو اس بحث میں شرکت کی دعوت دی اور سوال جواب کا سلسلہ بھی ہوا۔
نامور صنعتکار جناب طارق سعید سہگل صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس امید افزاء تجزیے سے اتفاق کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کے متمنی ہیں کہ یہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں، لیکن ان کا تجربہ بتا تاہے کہ ہمارے پاس وہ صلاحیت موجود نہیں ہے جو اس کو مستعدی سے نافذ کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے ساتھیوں کی رائے کے برخلاف وہ اس بات کے حق میں ہیں کہ جی ایس ٹی اپنی صحیح شکل میں نافذ ہو اور اس میں موجود استثنات کا خاتمہ ہو لیکن یہ کوشش پہلے بھی کئی دفعہ ہوچکی ہے لیکن ٹیکس مشینری اس قابل نہیں تھی کہ وہ اس کو نافذ کرسکتی لہذا اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک بڑی وجہ اس ناکامی کی وہ ابتدائی شرح ہے جو سترہ فیصد ہے اور بہت زیادہ ہے۔ اگر کمتر شرح سے آغاز کیا جائے تو شائد کامیابی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔
لاہور چیمبر کے صدر جناب الماس حیدر کا کہنا تھا کہ مقرّرین کے خیالات قابل احترام ہیں لیکن یہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر کی جانیوالی گفتگو ہے۔ میں اس پینل کو چیمبر میں مدعو کرنا چاہتاہوں تاکہ وہ اس مایوسی اور بے اعتمادی کا اندازہ لگا سکیں جس سے کاروباری طبقہ گذر رہا ہے۔ ان کہنا تھا کہ صنعتکار اور تاجر دونوں اس بجٹ میں اٹھائے گئے اقدامات کو مسترد کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کی مزاحمت کرینگے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنا کاروبار کم از کم دو سال کیلئے بند کردیں گے لیکن ان اقدامات کو قبول نہیں کرینگے۔ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کو اپنی آمدنی کا حصہ سمجھتے ہیں اور ہر تھوڑے عرصے کے بعد اس کے حصول میں سرگرداں ہوجاتے ہیں۔ اپنی معیشت میں اصلاحات کا کام نہیں کرتے اور جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ہم یونہی اس جنجال میں پھنسے رہیں گے۔
مقررین نے مختصراً ان خیالات کے جواب میں تائیدی اور وضاحتی کلمات کہے۔ بعد ازاں اعجاز نبی نے مقرّرین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور یوں یہ سیمنار اختتام کو پہنچا۔ (نوٹ: ہمارے گذشتہ مضمون میں پرائمری خسارے کی تعریف میں سہواً خطا ہوگئی تھی۔ اس کا خاتمہ یہ اہتمام کرتا ہے کہ ہمارے محصولات غیر سودی اخراجات کو پورا کرتے ہیں اور سود کی ادائیگی میں بھی ایک حصہ لگ جاتا ہے اور یوں قرضے میں بے لگام اضافہ رک جاتا ہے)