پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھاــ
ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ ہم جنس ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتی ہے۔ جب منزل اور مقصد ایک ہو تو پھر قُربتیں بڑھ ہی جاتی ہیں۔ رائے ونڈ محل آج کل ایک سازش گاہ کا نقشہ پیش کرتا نظر آ رہا ہے اور مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے باقاعدہ گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ آج شہباز شریف کی غیر موجودگی ایک سوالیہ نشان تھی جو بظاہر شریف خاندان کے اندر اختلافات پارٹی پر قابض ہونے کی افواہوں کو تقویت دینے کے لیے ایک خبر ضرور تھی۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے مفادات اپنے ٹارگِٹ کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ آدھا خاندان پیپلز پارٹی کے ساتھ دوستیاں بڑھا کر اور آدھا خاندان ملکی اداروں کے ساتھ کھڑا ہونے کا ڈرامہ کر کے اپنی خواہش اقتدار کی تکمیل میں تمام اداروں کو شاید کہہ سکتا ہوں کہ ’’جاگدے رہنا، ایہناں تے نہ رہنا‘‘۔آج رائیونڈ کا سٹیج کیا ہوا ڈرامہ جس کے کچھ کردار بلاول اور مریم کے ساتھ موجود تھے۔ وہ شاید بھول گئے کہ میاں نواز شریف اس قوم کے لیڈر بنے ہی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان کی نفرت اور بھٹو کی پاکستان دشمن کہانیاں جن میں کہانی کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ جناب بھٹو نے اِدھر تم اُدھر ہم کا نعرہ لگا کر پاکستان کو دولخت کیا تھا۔ کبھی سرے محل پر سیاست کی زرداری کی لوٹ مار کر کے قصے جلسوں میں سنا کر پاکستانی قوم کو بے وقوف بناتے رہے۔
پاکستانی قوم ان پر اعتبار کرتی رہی اور ایک لمبا ٹائم پاکستان پر حکمرانی کا حق دار شریف خاندان کو سمجھتی رہی۔ دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی قوم کے ساتھ جو انتہائی جذباتی قوم ہے‘ انہیں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ان کے جذبات سے کھیلتے رہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان البتہ ملک کے اندر کرپشن، لوٹ مار کے لیے پاکستان کو زردری دے گئے۔ بلکہ ماشاء اللہ بھٹو اور زرداری ہونے کے ساتھ مجھے شک ہے کہ کہیں بلاول ’’میاں بلاول بھٹو زرداری‘‘ کا اضافہ نہ کر لیں۔ میں حیران ہوں کہ بلاول کی والدہ جب وزیراعظم تھیں اور مریم نواز کے والد وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو وزیر اعظم کے لاہور دورے پر وزیراعلیٰ لاہور شہر ہی چھوڑ جاتے تھے تاکہ وزیراعظم کو خوش آمدید نہ کہنا پڑے جو کہ نفرت کی انتہا تھی۔مجھے یاد ہے کہ جب بلاول کی والدہ اور والد نے مریم نواز شریف کے دادا جان کو گرفتار کروایا اور اسی دوران ہمارے تحریکی ساتھی جناب جاوید اختر اشرف شہید کو مال روڈ پر شہید کروایا اور ہمارے بہت سے ساتھی نواز شریف کی محبت اور پیپلز پارٹی کی نفرت میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ظلم و جبر کا نشانہ بنے جسے بیان کرنے لگوں تو شاید بہت وقت درکار ہے۔ جناب بلاول صاحب! آپکی والدہ صاحبہ اور والد نے اقتدار حاصل ہی نواز شریف کی دشمنی میں کیا اور محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ! آپکے والد کے ساتھ آپکے چچا حضور شہباز شریف نے اقتدار کے مزے‘ بھٹو خاندان کو پاکستان کا دشمن اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے کا ذمہ دار ثابت کر کے ہی لوٹے تھے۔شاید آج پاکستان کے لوگ یہ سمجھنے میں کامیاب ہو گئے کہ جو اِدھر اُدھر سے آوازیں آتی تھیں کہ یہ ایک سکّے کے دو رُخ ہیں مریم صاحبہ آپ کو زرداری اور عمران خان کو ایک سکّے کے دو رُخ بیان فرماتی تھیں۔ آج آپ نے خود بتا دیا کہ عمران خان نہیں بلکہ نواز شریف اور زرداری بلکہ میرم اور بلاول ایک سّکے کے دو رُخ ہیں۔ یاد رکھو قوم آج تک غلام حسین انہڑ کی ٹانگ کے ساتھ بم باندھ کر بھتہ لینے کے واقعات نہیں بھولے۔ شاید یہ ٹکٹیں بیچنے والوں کی فیملیوں کا اتحاد ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کے اداروں کے دشمن اب باقاعدہ جمہوریت کے دشمن بن چکے ہیں۔ میثاقِ جمہوریت کرنے والے اب پاکستان کے اداروں کی دشمنی میں اتحاد کر چکے ہیں۔ مگر یاد رکھو پاکستانی قوم کو آپکے اتحاد سے کوئی غرض نہیں ہے۔ آپکے اصل چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ پاکستانی قوم پاکستان اور افواج پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ قوم اس نازک مرحلہ پر آپکی سازشوں کو ناکام بنا کر پاکستان سے دوستی کا حق ادا کرے گی۔ وزیراعظم صاحب اب آپ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے آپکو پاکستان پر حکمرانی کا جو حق ملا ہے اُسے پاکستان اور پاکستانی قوم سے محبت میں نبھائیں۔ پاکستانی قوم کے مظلوم کو اپنے سَر پر بٹھائیں۔ اپنی ٹیم میں صاحب کردار لوگوں کو شامل کریں اور اپنی جماعت کے اندر مراد سعید جیسے مزید لوگ تلاش کریں۔ پاکستان تحریک انصاف کی شناخت کو برقرار رہنا چاہے۔ اپنے جذبات پر کنٹرول کریں۔ آپ کسی عام ملک کے نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ جس کے بنیادوں میں ہمارے بزرگوں کا خون ہے۔ اور یہ ملک پاکستان آقا کریمﷺ کے ایجنڈے پر بنا ہے۔ بلاوجہ کسی مسئلے کو ایشو نہ بنائیں حکومت کی رٹ ہر صورت بحال رکھیں۔ اداروں کے تقدس کو پامال کرنے والے کسی صورت معافی کے حق دار نہیں ہیں۔ پاکستانی قوم اور آپ کے درمیان کمیونیکیشن گیپ کسی صورت نہیں آنا چاہیے۔ آپکے ناشتے کی میز پر روزانہ کسی نہ کسی شعبے کے لوگوں کو ہونا چاہیے اور اسے اپنی ذمہ داری اور روزمرہ کی مصروفیات کا حصہ بنا لیں۔ چاہے آپکی جماعت کے کارکن ہوں، پاکستانی یوتھ، مزدور، چھٹے کسان، علمائے کرام، آرٹسٹ، میڈیا، اقلیتوں کے لوگ، شہدائے پاکستان کے وارثین، گوہا ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں سے آپ کا ڈائریکٹ رابطہ رہنا چاہیے۔ بلکہ صدر پاکستان سے بھی درخواست کریں کہ ہفتے میں کم از کم دو دن پاکستان کی کسی بڑی یونیورسٹی میں ’’موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری‘‘ کے موضوع پر بات کریں۔
پاکستان کے اداروں کو مزید مضبوط کرنے کا وقت ہے۔ پاکستانی قوم پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے بس کچھ اقتدار کے پُجاری پاکستان سے دشمنی پر اُتر آئے ہیں۔ جناب عمران خان صاحب یاد رکھیں پاکستانی قوم نے سابقہ حکمرانوں کی لُوٹ مار اور اداروں سے دشمنی کے جُرم میں آپکو ووٹ دیا ہے۔ آج تک پاکستانی قوم آپکو مسّیحا سمجھتی ہے ان دونوں ں پارٹیوں کی غلط پالیسیز اور لُوٹ مار آپکو وزیراعظم ہائوس تک لے آئی ہے۔ غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ آپکی کوئی غلطی پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے اور اس کا سارا فائدہ خاص طور پر ان دونوں سابقہ جماعتوں کو جائے گا۔
"Keep it up"
پاکستان کو لے کر آگے بڑھیں یہ جعلی اتحاد آپ کا اور پاکستانی اداروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بقول شاعر:
عُرفی تو می اندیش ز غوغہائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رِزقِ گدارا