گھونسے، ٹھڈے مارے اور کہا غلط فہمی پر اٹھایا تھا: حیدر بلوچ گوادر سے لاپتہ نوجوان گھر واپس
کوئٹہ (بی بی سی)بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے جبری گمشدگی کے بعد رہائی پانے والے نوجوان علی حیدر بلوچ کا کہنا ہے کہ انہیں رہا کرتے وقت ان سے کہا گیا کہ 'تمھیں غلط فہمی کی بنیاد پر اٹھایا تھا، جاؤ اب شکایت نہ کرنا۔'علی حیدر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں 5 روز حراست میں رکھا گیا۔بقول ان کے گزشتہ اتوار کو تقریباً دوپہر 12 بجے گوادر میں وہ اپنے گھر کے باہر تھے کہ دو پک اپ میں سوار افراد نے انہیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور وہ کسی مزاحمت کے بغیر ان کے ساتھ چل پڑے۔'میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور بعد میں ہاتھ بھی پیچھے باندھ دیے گئے۔ پہلے روز دار تھپڑ، لاتیں اور گھونسے مارے گئے اس کے بعد کوئی تشدد نہیں ہوا تاہم ایک کمرے میں اکیلا رکھا گیا۔'علی حیدر کے مطابق ان سے 2013 کے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کی تفصیلات کے بارے میں پوچھا گیا، مثلاً یہ کہ ساتھ کون کون تھا کہاں رکے وغیرہ۔ کچھ دیگر بھی سوالات تھے جو وہ پوچھتے رہے 'کیونکہ گوادر کا ماحول ہی ایسا ہے اس لیے انہیں شک و شبہات تھے۔'علی حیدر نے بتایا کہ انہیں گوادر میں گوادر ڈولپمنٹ اتھارٹی کے دفاتر کے قریب آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھوڑا گیا اور کہا گیا کہ پیچھے نہیں مڑنا۔ وہ پانچ منٹ تک چلتے رہے جب بعد میں آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو وہ لوگ غائب ہوچکے تھے جس کے بعد وہ گھر لوٹ آئے۔علی حیدر نے بتایا کہ ان سے والد کی گمشدگی کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی گئی کہ کب اور کہاں سے لاپتہ ہوئے تھے۔ 'جو پوچھ گچھ کے لیے آتے تھے وہ طبیعت کا معلوم کرتے اور کھانا وغیرہ بہتر دیا جاتا تھا۔ چھوڑتے وقت کہاکہ آپ کو غلط فہمی کی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا جاؤ اب جاکر پڑھو اور اچھے انسان بنو۔'