قومی اسمبلی: ڈپٹی سپیکر وزیراعظم کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کہنے پر پابندی لگا دی
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر عمر ایوب خان وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہنے پر برہم ہوگئے، تحریک استحقاق پیش کرنے کا فیصلہ، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ایوان میں وزیر اعظم کے لیے سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی لگا دی۔ ڈپٹی سپیکر نے کہاکہ اس ہائوس کا ہر ممبر ووٹ لیکر آیا ہے، آئندہ پی ایم کے حوالے سے یہ لفظ ’’سلیکٹڈ‘‘ ایوان میں استعمال نہ کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت ایک سال پورا ہونے کے بعد پچھلی حکومتوں کو طعنے دیکر گزارا کررہی ہے، موجودہ حکومت نے پانچ ہزار ارب قرض لیا اور ایک بھی اینٹ نہیں لگائی، تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی کارکردگی کا جواب دینا ہو گا، آپ ڈی چوک کنٹینر پر نہیں، حکومت میں ہیں، حکومت خود پر تنقید کو برداشت کرے۔ اتوار کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کی زیر صدارت ہوا، آئندہ مالی سال کے بجٹ 2019-20 پر بحث کے دوران اپوزیشن اراکین نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے حکومت پر تنقید اور وزیراعظم کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہا۔نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی سپیکر صاحب میں آپ اور ایوان کی توجہ اس اہم نکتہ پر کرانا چاہتا ہوں اسمبلی کے رول 32 اور 95 کے تحت سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان (وزیر اعظم) منتخب نمائندوں کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں اس لئے ان کو سلیکٹڈ کہنا اس ایوان کی توہین ہے۔ ہم حکومتی بینچوں سے تحریک استحقاق پیش کرنا چاہتے ہیں، وزیراعظم کو سلیکٹڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے، اس سے ہمارا اور اپوزیشن استحقاق مجروح ہوا ہے۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے رفیع اللہ نے احتجاج کیا اور سلیکٹڈ سلیکٹڈ کے نعرے لگائے۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کہا کہ منتخب نمائندگان کی تذلیل نہ کی جائے چاہے وہ کوئی بھی ہو، ممبر کا عزت احترام ضروری ہے، الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کرکیا جائے، مسلم لیگ (ن)کے رہنما احسن اقبال نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ میں ایک بھی تقاضا پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے کہاکہ ایک سال پورا ہونے کے بعد یہ حکومت پچھلی حکومتوں کو طعنے دے کر گذارا کر رہی ہے۔ حکومت کو اپنی کارکردگی کا جواب دینا ہو گا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے سادگی کے نام پر ڈرامے کئے۔ گزشتہ حکومتوں کے قرضے لینے کی گردان سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف شرائط پوری کرنا چاہتی ہے چاہے کروڑوں عوام کا گلا گھونٹنا پڑے۔ انہوں نے کہاکہ دوسروں سے قرضوں کا حساب مانگنے والے خود قوم پر پانچ ہزار ارب کا قرضہ چڑھا چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے 10 ماہ میں پانچ ہزار ارب قرض لیا اور ایک بھی اینٹ نہیں لگائی۔ احسن اقبال نے کہاکہ دیکھنا ہوگا ہم پہلے کہاں کھڑے تھے اب کہاں کھڑے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سوچیں ایک سال بعد کہاں ہوں گے ، ہم نے ان کو ایک ہنستا بستا پاکستان دیا تھا۔ دنیا کے ممالک ہم سے سی پیک میں شمولیت کا پوچھتے تھے۔ سلیکٹ وزیراعظم نے اپنے ملک بارے کرپشن کی باتیں شروع کردیں اس کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان ہر حوالے سے پریشان ہے۔ حکومت نئی نویلی دلہن نہیں اسے حساب دینا پڑے گا۔ لیگی رہنما نے کہا کہ ٹیکس ہدف کے حصول میں ناکامی کی ذمے دار موجودہ حکومت ہے، بھینسیں اور گاڑیاں بیچ کر سادگی کا ڈرامہ رچایا گیا، انہوں نے کہا کہ 5 سال میں 10 ہزار ارب کا جواب ہم دیں گے، حکومت بتائے انہوں نے ایک سال میں 5 ہزار ارب کا قرض لیکر کہاں لگایا۔ گائے‘ بھینیس، مرغیاں بیچ کر ملک کے قرضے واپس نہیں ہوسکتے، اگر ہماری پگڑیاں اچھالی گئیں تو دوسروں کی بھی پگڑیاں محفوظ نہیں رہیں گی۔ بجٹ پر بحث کے دوران حکومت نے پاکستان مسلم لیگ (ن ) کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے آئینہ دکھا دیا۔ حکومتی ارکان اسمبلی امجد علی خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرے۔ مسلم لیگ بنائی کیوں گئی اور کہاں کہاں سے فنڈنگ لیتے رہے اب ڈالر کا الزام ہے کہ اوپر چلا گیا جب تک ملک کو لوٹنے والوں کی دولت واپس نہیں آئے گی تو ڈالر بڑھے گا۔ رات کے اندھیرے میں جندال سے ملاقات نہیں کی۔ دوسری جانب راجہ پرویز اشرف نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کونسی ایسی حکومت ہے جب اقتدار میں آئی تو کہا ہو کہ ملک بہترین حالت میں ملا ہے سب نے یہی کہا کہ لوٹ کھسوٹ کی گئی۔ اب تاریخ بدل گئی ہے کہ حکومت خود اپوزیشن بنی ہوئی ہے برداشت تو دکھائی نہیں دیتی تنقید تعمیری ہونی چاہئے۔ سی پیک کا کریڈٹ ہر کوئی لینے کی کوشش کرتے ہیں تو اگر گوادر کو نکال دیں تو سی پیک ہو گا کیا۔ سابق صدر آصف زرداری اپنے دور حکومت میں ہر تیسرے مہینہ چائینہ جاتے تھے اور سی پیک کی ضرب تقسیم کی گئی۔ دوسری جانب سوات اور مالاکنڈ کے پرچم اتارنے کی بات ہوتی تو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گی ادھر ہم نے اپنے دور حکومت میں پنشن تنخواہیں ڈبل کیں نوکریوں کی برسات ہوئی اس پر بھی خسارہ 2.5 چھوڑا۔ راجہ پرویز اشرف نے مزید کہا کہ ہمارے دور میں ڈالر گرا تھا مگر ہم نے ایکسپورٹ بڑھا لی تھی اب بھی حکومت کو ایسے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر پلاننگ کمیشن مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے ارکان آئندہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے معاہدہ پر دستخط کریں جب اس حکومت نے چارج سنبھالا تو خسارہ بیس ارب ڈالر تھا 4300ارب ڈالر مالیاتی خسارہ کا سامنا تھا۔ پاکستان کو ظلم کی انتہا کرتے ہوئے چلایا گیا۔ خسرو بختیار نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے جب آخری بجٹ پیش کیا تو وہ سابق ادوار میں ٹارگٹس کیوں نہ دے گئے وہ اپنے آخری سال کے بجٹ میں کیوں دے گئے ہمیں وہ پالیسی ن لیگ سمجھا دے کہ قرضے آئے اور لگے کہاں؟ منافع کدھر آیا جو بتایا جارہا ہے۔ عمران حکومت نے جو بڑا ٹارگٹ حاصل کیا وہ یہ ہے کہ جیسا پہلے پانامہ پر چوروں کو بے نقاب کیا اب معیشت پر عام دکانوں پر بھی بحث جاری ہے اور اس سے عوام کے ٹیکس چوروںکا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اپنے دور کا حساب دے۔ نواز حکومت بتائے کہ جنوبی اضلاع نے آپ کا کیا بگاڑا تھا کہ لاہور کو پیرس اور ہمیں پانی دینے کو بھی راضی نہیں۔ خسرو بختیار نے مزید کہا کہ میثاق معیشت اس لئے چاہتے ہیں کہ پارلیمان ہی ملک چلائے۔ شاہدہ اختر علی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ موجودہ بجٹ غریب عوام پر سونامی و بربادی بن کر گرا ہے۔ حکومتی رکن قومی اسمبلی علی اعوان کو ڈپٹی سپیکر نے ڈانٹتے ہوئے کہا ہے کہ کھسر پھسر نہ کی جائے خاموشی سے تقاریر سنیں۔ علی اعوان چند ایم این ایز کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے۔قائد حزب اختلاف سمیت اہم رہنمائوں نے اتوار کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری‘ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ سابق سپیکر سردار ایاز صادق‘ سابق سپیکر فہمیدہ مرزا‘ سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ‘ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف‘ سابق پارلیمانی لیڈر رانا تنویر حسین‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی‘ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد‘ وزیر دفاع پرویز خٹک‘ تحریک انصاف کے چیف وہپ ملک عامر ڈوگر‘ بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل‘ جے یو آئی (ف) کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود‘ وزیر مواصلات مراد سعید سابق وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین سمیت دیگر اہم رہنما بھی غیر حاضر رہے۔ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف بھی ایوان میں نہیں آئے۔