پنجاب اسمبلی : صحت، تعلیم کے 2مطالبات زر منظور، اپوزیشن کی کٹوتی تحاریک مسترد
لاہور (خصوصی نامہ نگار /کامرس رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2019-20کے بجٹ کی منظوری کا مرحلہ شروع ہو گیا، صحت اور تعلیم کے 2کھرب 8ارب 14کروڑ 52لاکھ 68 کے دو مطالبات زر منظور کر لئے گئے، اپوزیشن کی کٹوتی کی تحاریک کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں، وقت ختم ہونے پر اجلاس آج منگل سہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت تین بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 40منٹ کی تاخیر سے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی صدارت میں شروع ہوا۔ صحت کے بجٹ پر جمع کرائی گئی کٹوتی کی تحریک پر بحث کرتے ہوئے ملک وارث کلو،خواجہ عمران نذیر، ملک محمد احمد خان، پیر اشرف رسول، ڈاکٹر مظہر خان ، طارق مسیح گل ، خلیل طاہر سندھو، عنیزہ فاطمہ ،حسینہ بیگم نے آئندہ مالی سال کیلئے مختص صحت کے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کے دور حکومت میں معیاری ادویات مفت فراہم کی جارہی تھیں اور اب یہ حال ہے کہ ادویات بند کر دی گئی ہیں اور ہسپتالوں میں پیرا سٹامول اور ڈسپرین تک نہیں مل رہی۔ وزیر خزانہ نے پنجاب میں 9 ہسپتال بنانے کا ذکر کیا ہے لیکن موجودہ ہسپتالوں کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ ہمارے حکومت کے شروع کئے گئے ترقیاتی کام بند کر دئیے گئے۔ حکومت کے پاس کوئی وژن نہیں الٹا ہمارے منصوبوں کا بھی بیڑہ غرق کردیا ہے۔ ہمارے منصوبوں کے نام تبدیل کر کے اپنے نام سے چلا رہے ہیں۔ سلیکٹڈ حکومت کو ایک روپیہ نہ دیں اور ان سے جان چھڑائی جانی چاہیے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت میلینیم گولز حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ بار بار الزام لگایا گیا کہ گزشتہ حکومت کی سکیموں کو آگے نہیں چلایا جارہا جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ حکومت کی 133جاری سکیموں کے لئے فنڈز فراہم کئے گئے ہیں ،مجھے کہا جاتا ہے کہ نئی اینٹ رکھوں جبکہ میں تو ابھی تک پرانی اینٹوں کو سنبھال رہی ہوں۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کو 2ارب روپے کا بجٹ دیا ہے۔ اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک کو کثرت رائے سے مسترد کر کے صحت کیلئے 1کھرب 41ارب 77کروڑ 16لاکھ 61ہزار روپے حجم کا مطالبات زر منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن کی جانب سے تعلیم پر جمع کرائی گئی کٹوتی کی تحریک میں حصہ لیتے ہوئے گلناز شہزادی ،کنول پرویز ، مہوش سلطان ، وارث کلو، مناظر علی رانجھا اور دیگر نے کہا کہ شہباز شریف کے دور کے منصوبوں کے اوپر اپنے منصوبوں شروع کئے گئے ہیں۔ شہباز شریف نے دوپہر کی شفٹیں شروع کی تھیں جنہیں انصاف کا نام دیدیا گیا۔ موجودہ حکومت کے پاس کوئی وژن نہیں اور یہ تعلیم کے نظام کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔صوبائی وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کے تبادلوں کوآن لائن کر دیا ہے ۔ ہم نے اس مد میں 4سے 5ارب کی کرپشن کا راستہ روکا ہے۔ انہوںنے کہا کہ پرائمری نصاب میںمارچ 2020ئ میں تبدیلی آئے گی اور تعلیم کے معیار کا یکساں فریم ورک بنے گا۔ وزیر ہائیر ایجوکیشن یاسر ہمایوں نے کہا کہ اس سال میٹرک او ر انٹر کے امتحانات میں مارکنگ سے نکل کر گریڈنگ کی طرف جارہے ہیں ، نظام تعلیم کو تبدیل کر کے رٹہ ازم کاخاتمہ کریں گے ۔ انہوں نے اپوزیشن کو دعوت دی کہ وہ اس حوالے سے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے۔ ایسا نصاب لا رہے ہیں جس سے طلبہ کو دو سال بعد نوکریاں ملیں گی۔مذکورہ تحریک کو بھی کثرت رائے سے مستر د کر کے 66ارب37کروڑ36لاکھ7ہزار روپے کے حجم کا مطالبات زر منظور کر لیا گیا۔صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے اہم مسئلہ درست ترجیحات کا تھا جو ہم کر چکے ہیںاور اب عمل کا وقت ہے ،وزیر اعلیٰ کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے ، ہم نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر کفایت شعاری کے تحت اپنے اخراجات کم کئے ہیں۔موجودہ حکومت صرف جنوبی پنجاب کے بجٹ میں اضافہ نہیں کر رہی بلکہ معاشی ترقی کے لئے باقاعدہ ٹھوس منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ہم اپنا کوئی بھی وعدہ نہیں بھولے ، کاش ہمارے پاس دو تہائی اکثریت ہوتی توہم گزشتہ برس ہی جنوبی پنجاب صوبے کا اعلان کر چکے ہوتے لیکن اس پر کام جاری ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن کے بعض اراکین کی جانب سے اگرچہ تنقید برائے تنقید کی روایت قائم رکھی گئی تاہم کئی اراکین نے عوامی دوستی کا بھی ثبوت دیا ۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ اس بار بحث میں انفراسٹر اکچر اور انرجی کے میگا پراجیکٹس کی بجائے پھل فروش، سبزی ، ڈرائیور، موچی اور عام آدمی کی بات ہوئی ۔ یہ ہے وہ تبدیلی جس کے لئے تحریک انصاف نے یہاں تک سفر کیا ۔ میں اپوزیشن سے درخواست کروں گا کہ جس طرح انہوں نے بجٹ پر بحث کے دوران عوام دوستی کا مظاہرہ کیا ۔ مستقبل میں بھی عوامی مفاد کے لئے حکومتی بنچوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ ہم ماضی کی بات نہ کریں لیکن حال ہمیشہ ماضی سے وابستہ ہوتا۔ قائد حزب اختلاف نے اپنی تقریر میں ہمیںجن سنہرے دنوں کی یاد دلائی اور ڈالر کی قیمت پر ایک طویل صفحہ پڑھا ۔ میرا صرف ان سے یہ سوال ہے کہ اپنے دور حکومت میں ڈالر کی سپلائی بڑھانے کیلئے کیا اقدام کیے؟۔طلب اور رسد میں اتنا فرق کیسے آیا۔مجھے بتانا پسند کریں گے کہ ملک میں برآمدات میں اضافہ کے لئے گزشتہ حکومت نے کونسی ایسی پالیسیاں اپنائی جو ایکسپورٹ کی صورتحال کو بہتر کر سکتیں۔ آئندہ بجٹ میں پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن کے تحت تین پراجیکٹس کا آغاز کیا جارہا ہے جن میں کریڈٹ گارنٹی سکیم، لون مارک اپ سکیم او رانٹرن شپ سکیم شامل ہے ۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت تمام اضلاع میں کم از کم ایک انڈسٹریل اسٹیٹ بنانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے اخراجات میں انٹر ٹینمنٹ کے ہیڈ کے تحت جس میں پچھلی حکومت نے سب سے زیادہ شاہ خرچیاں کیں ہم نے اس بجٹ میں 60فیصد کمی کی ہے ۔ تحائف اور مہمان نوازی کی مد میں 11کروڑ روپے کم کر کے 3کروڑ روپے کر دئیے ہیں جس سے سرکاری خزانے کو 8کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کی مرمت کی مد میں اخراجات نصف کر دئیے گئے ہیں۔ سکیورٹی اخراجات میں 66فیصد کمی کی گئی ہے جو 83کروڑ روپے سے کم ہو کر 28کروڑ روپے ہو گئی ہے اس کی بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلی حکومت کی طرح ہمارے وزیر اعلیٰ متعدد کیمپ آفسز پر یقین نہیں رکھتے۔افسوس کہ لاہور کے بیشتر ہسپتالوں میں ڈائیلسز مشینیںناکارہ ہیں یاسرے سے فراہم ہی نہیں کی گئی۔ لاہور جیسے شہر میں پچھلے دس سالوں میں ایک بھی جنرل ہسپتال کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا موجودہ حکومت نہ صرف ہسپتالوں میں ڈائلسز مشینیں فراہم کر رہی ہے بلکہ آئندہ بجٹ میں لاہور میں میں دو نئے ہسپتال قائم کئے جارہے ہیں ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اقلیتوں کی جانب سے بجٹ پر تحفظات کے حوالے سے میں انہیں یہ یاددہائی کرانا چاہوں گا کہ رواں مالی سال میں اقلیتوں کا ترقیاتی بجٹ پچاس کروڑ روپے رکھا تھا جبکہ آئندہ مالی سال میں اسے دوگنا کر کے ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے پور ے پنجاب کی ترقی کو بھی تین مراحل میں تقسیم کیا ہے تاکہ ہر شہری کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ایک اچھی زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔