قومی اسمبلی: 66 مطالبات زرمنظور، بلوچستان پر پارلیمانی کمیٹی بنانے کی قرارداد متفقہ منظور
اسلام آباد(خبر نگار+ وقائع نگار خصوصی)قومی اسمبلی نے مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں کے30 جون 2020ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے347 ارب 95 کروڑ 30 لاکھ روپے سے زائد کے 66 مطالبات زر کی منظوری دے دی۔ اپوزیشن کی جانب سے ان مطالبات زر پر کٹوتی کی کوئی تحریک پیش نہیں کی گئی تھی۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں انچارج وزیر حماد اظہر نے یہ مطالبات زر ایوان میں پیش کئے جس پر سپیکر نے ایوان سے رائے لی اور کثرت رائے سے یہ مطالبات زر منظور کرلئے گئے۔ جن وزارتوں کے مطالبات زر پر کٹوتی کی تحریکیں جمع نہیں کرائی گئیں ان میں وزارت اطلاعات و نشریات‘ وزارت ریلوے‘ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان‘ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی‘ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ وزارت بین الصوبائی رابطہ‘ وزارت قومی تاریخ و ادبی ورثہ‘ وزارت سیفران‘ وزارت کامرس‘ وزارت ٹیکسٹائل‘ وزارت دفاعی پیداوار‘ وزارت تعلیم‘ وزارت ہائوسنگ‘ وزارت انسانی حقوق‘ وزارت صنعت و پیداوار‘ وزارت میری ٹائم‘ وزارت انسداد منشیات‘ وزارت منصوبہ بندی و ترقیات‘ وزارت پارلیمانی امور‘ وزارت اوورسیز پاکستانیز‘ وزارت پوسٹل سروسز‘ وزارت صحت‘ وزارت مذہبی امور‘ نجکاری ڈویژن‘ سرمایہ کاری بورڈ‘ قومی اسمبلی‘ سینٹ شامل ہیں۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے 9 ارب 32 کروڑ 26 لاکھ 16 ہزار روپے کے 6 مطالبات زر کی ایوان سے منظوری لی گئی۔ وزارت ہائوسنگ کے 12ارب 34 کروڑ 75 لاکھ 4 ہزار روپے کے 6 مطالبات زر کی قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظوری دی۔ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے 18 ارب 44 کروڑ 79 لاکھ روپے کے 4 مطالبات زر کی منظوری قومی اسمبلی نے دی۔ وزارت ریلوے کے 112 ارب روپے کے 2 مطالبات زر کی قومی اسمبلی سے منظوری لی گئی۔ وزارت بین الصوبائی رابطہ کے 2 ارب 5 کروڑ 29 لاکھ 58 ہزار روپے کے 2 مطالبات زر کی قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظوری دی۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے 11 ارب 47 کروڑ 46 لاکھ 17 ہزار روپے کے 2 ‘ قومی تاریخ و ادبی ورثہ کے 1 ارب 29 کروڑ 90 لاکھ 16 ہزار روپے کے 2‘ وزارت سیفران کے ایک ارب 99 کروڑ 40 لاکھ روپے کے دو مطالبات زر قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے جن کی کثرت رائے سے ایوان نے منظوری دے دی۔ وزارت دفاعی پیداوار کے دو ارب 35 کروڑ 10 لاکھ روپے کے 2‘ وزارت ٹیکسٹائل کے 35 ارب 58 کروڑ 78 لاکھ 28 ہزار کے 3‘ وزارت تجارت کے 16 ارب 18 کروڑ روپے کے 3‘ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے 8 ارب 8 کروڑ 12 لاکھ روپے کے 2‘ وزارت تعلیم کے 18 ارب 50 کروڑ 57 لاکھ 62 ہزار کے دو‘ وزارت انسانی حقوق کے 65 کروڑ 59 لاکھ کے دو‘ صنعت و پیداوار کے 10 ارب 59 کروڑ 52 لاکھ 93 ہزار روپے کے تین‘ وزارت میری ٹائم کے 4 ارب 51 کروڑ 12 لاکھ 43 ہزار کے دو‘ انسداد منشیات کے 2 ارب 82 کروڑ 62 لاکھ 40 ہزار کے دو‘ وزارت منصوبہ بندی و ترقیات کے 11 ارب 69 کروڑ 95 لاکھ 17 ہزار روپے کے دو‘ وزارت پوسٹل سروسز کے 19 ارب 63 کروڑ 48 لاکھ 88 ہزار روپے کے دو‘ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے 15 ارب 59 کروڑ 93 لاکھ 61 ہزار کے تین‘ وزارت قومی صحت کے 24 ارب 15 کروڑ 5 لاکھ 58 ہزار کے دو‘ وزارت مذہبی امور کے 2 ارب 10 کروڑ 40 لاکھ روپے کے تین‘ نجکاری کے 16 کروڑ 10 لاکھ‘ اوورسیز کے ایک ارب 54 کروڑ 10 لاکھ‘ وزارت پارلیمانی امور کے 41 لاکھ روپے کے ایک‘ قومی اسمبلی کے 2 ارب 64 کروڑ 52 لاکھ 92 ہزار کے ایک‘ سینٹ کے 1 ارب 34 کروڑ 79 لاکھ 26 ہزار ‘ سرمایہ کاری بورڈ کے 60 لاکھ کے ایک‘ سابق حکمرانوں کے استقراری الائونسز کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 2 کروڑ 4 لاکھ 51 ہزار روپے کے ایک مطالبہ زر کی منظوری دی۔ قومی اسمبلی میں 434 کھرب 77 ارب 83 کروڑ 42 لاکھ 65ہزار کے لازمی اخراجات کی تفصیلات پیش کردی گئیں جبکہ اس پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کہ جب تک اصلاحات اور نظام بہتر نہیں ہوتا معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ ریلوے میں اب تک 45 سے زائد حادثات اس دور میں ہو چکے ہیں تاہم کوئی وزیر مستعفی نہیں ہوا‘ آئی ایم ایف سے پیکج ڈیل کی وجہ سے سٹیٹ بنک سے قرضہ نہیں لیا جاسکتا۔ مسلم لیگ (ن) کی رکن ڈاکٹر عائشہ غوث نے کہا کہ یہ مطالبات زر کا 99 فیصد حصہ قرضوں کی واپسی کے لئے ہے‘ پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت نے قرضہ لے کر ہی کام چلانا ہے اور یہ قرض اس بجٹ سے واپس کرنا ہے اور سود کی ادائیگی بھی اس بجٹ میں سے ہوتی ہے۔ ا آئی ایم ایف سے پیکج ڈیل ہوئی ہے مسلم لیگ (ن) کے رکن قیصر احمد شیخ نے راجہ پرویز اشرف نے مسلم لیگ (ن) کے رکن چوہدری ریاض الحق جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن شاہدہ اختر علی پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری محسن رانجھا نے حکومتی پالیسیوں پر شتید تنقید کی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پھر مطالبہ کیا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔ اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ اس بارے میں قانونی رائے لی جارہی ہے، جو بھی فیصلہ ہوگا،آگاہ کردیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان ایوان میں مطالبات زر کی منظوری کے وقت آئے اراکین نے کھڑے ہوکر ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاںقومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعرات کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔ اس سے قبل بلوچستان کے مسائل پر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی قائم کرنے کیلئے علی محمد خان کی تحریک متفقہ طور پر منظور کر لی گئی خصوصی کمیٹی سپیکر کی سربراہی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل ہو گی علی محمد خان نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کا انتخاب کریں گے۔ بلوچ رہنما اختر مینگل نے کہا ہے کہ ہم بلوچستان کے مسائل کا جمہوری انداز میں حل چاہتے ہیں ارکان قومی اسمبلی عوام کو جاننا چاہئے ان مسائل کے اصل ذمہ دار کون ہیں نہیں چاہتے کہ اس کمیٹی کا بھی حال حمود الرحمن کمشن کی طرح ہو دو ماہ بعد کمیٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ہم دن رات بیٹھنے کو تیار ہیں۔ علاوہ مزیں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قومی اسمبلی میں دو ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے جا رہے جمہوریت پر حکومت نے حملہ کیا ہے دو ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر اب تک نہیں نکلے ایوان نامکمل ہے دھاندلی سے بجٹ پاس کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔