• news

25 جولائی کو یوم سیاہ، قرض انکوائری کمشن مسترد، چیئرمین سینٹ ہٹائیں گے: اے پی سی

اسلام آباد (محمد نواز رضا/ وقائع نگار خصوصی) اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو ان کے منصب سے ہٹانے کیلئے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئے چیئرمین سینٹ کے لئے امیدوار کا فیصلہ اے پی سی کی ’’رہبر کمیٹی‘‘ میں کیا جائے گا۔ رہبر کمیٹی میں ہر جماعت کا ایک ایک رکن شامل ہو گا۔ رہبر کمیٹی میں سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ارکان شامل کئے جائیں گے۔ آل پارٹیز کانفرنس نے رابطہ عوام مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف متحرک کیا جائے گا۔ تاہم اسلام آباد لاک ڈائون یا لانگ مارچ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ 25 جولائی کو پورے ملک میں یوم سیاہ منایا جائے گا، چاروں صوبوں میں حکومت کیخلاف مشترکہ جلسے بھی منعقد کئے جائیں گے۔ اس بات کا اعلان متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں اے پی سی کے تقریباً 9 گھنٹے طویل اجلاس کے بعد اپوزیشن کے قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں شہباز شریف، راجا محمد ظفر الحق، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، یوسف رضا گیلانی، اسفند یار ولی، پشونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کا 14 رکنی وفد اے پی سی میں شریک ہوا۔ وفد میں راجا ظفرالحق، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، سینیٹر جاوید عباسی، ایاز صادق، سردار مہتاب خان، احسن اقبال، لیٖفٹیننٹ جنرل (ر) قادر بلوچ، رانا ثناء اللہ، شاہ محمد شاہ، ڈاکٹر عباد، مرتضیٰ جاوید عباسی اور مریم اورنگزیب شامل تھے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے شرکت کی جو یوسف رضا گیلانی، رضا ربانی، نئیر بخاری، شیری رحمن اور فرحت اللہ بابر پر مشتمل تھا۔ سینیٹر حاصل بزنجو، سردار اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی اور آفتاب احمد خان شیر پاؤ کو بھی دعوت نامے بھجوائے گئے۔ اے پی سی میں سینیٹر سراج الحق، ساجد نقوی، ساجد میر اور اویس نورانی کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تاہم جماعت اسلامی نے کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ معاشی زبوں حالی، بیرونی ادائیگیوں کا دبائو ملکی سلامتی کیلئے بڑا چیلنج بن چکے ہیں اور حکمرانوں کا ایجنڈا ملکی مفادات کی بجائے کسی گھنائونی سازش کا حصہ ہے، پاکستان کو ملک دشمن قوتوں کی ایما پر معاشی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے، بزنس کے مواقع مشکل بنا دیئے گئے ہیں اور معیشت آئی ایم ایف کے سپرد کر دی گئی ہے، سٹرٹیجک اثاثے اور سی پیک بچانے کے لیے ریاستی اداروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کا دفاع کرنا ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کی انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کے غیر فعال ہونے پر اس سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے گرفتار ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرارداد میں ملک میں آئینی اور سول حکمرانی پر زور دیا گیا اور سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے ریفرنسوں کو عدلیہ پر حملہ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ریفرنس واپس لئے جائیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات کر کے ججوں کی تقرری پر نظرثانی کرنے پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ عوام کے جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے افراد کیلئے قانون سازی کی جائے اور انہیں اداروں کے سامنے پیش کیا جائے۔ اعلامیہ میں 30 جولائی کے انتخابات میں پولنگ سٹیشنوں کے اندر فوج کی تعیناتی اور انہیں سمری ٹرائل کے اختیارات دینے کے فیصلے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات پر پابندی اور ان کے ذاتی معالج کی رسائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذاتی معالج کو فی الفور میاں نوازشریف تک رسائی دی جائے۔ قبائلی علاقوں میں نامکمل عدالتی نظام کو ٹھیک کیا جائے۔ اعلامیہ میں میڈیا پر عائد پابندیوں اور سنسرشپ کی بھی مذمت کی گئی۔ صحافیوں کے لئے قانون سازی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ احتساب کو یقینی بنایا جائے، احتساب کا ایک نیا موثر قانون بنایا جائے۔ ایک ہی قانون احتساب کے اداروں کو سیاست کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اداروں کی سیاست میں مداخلت کو پارلیمان پر حملہ قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی جانب سے غیر ملکی قرضوں کی تحقیقات کے لئے قائم کردہ کمیشن کو غیر آئینی قرار دیا اور حکومت و اپوزیشن پر مشتمل کمشن کے ذریعے 2001 کے بعد ملنے والے قرضوں اور گرانٹ کیلئے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے نیشنل ڈیویلپمنٹ کونسل کو غیر قانونی اور غیر ضروری قرار دیا اور کہا کہ نیشنل اکنامک کونسل کی موجودگی میں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلامی دفعات کیلئے بعض حکومتی اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا گیا کہ ملک کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے اور ملکی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے، ملک دیوالیہ پن کی حدود کو عبور کرنے کی تیاری کر رہا ہے، حکومتی قیادت کے فیصلوں نے ہمارے شکوک و شبہات کو یقین میں بدل دیا ہے اور بیرونی قرضوں کا سیلاب اور معاشی اداروں کی بد نظمی معیشت کو دیوالیہ کرنے کو ہے، غربت و افلاس کی بڑھتی صورتحال پرتشدد عوامی انقلاب کی راہ ہموار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اے پی سی نے حکومتی فیصلوں کو ملکی سلامتی، خود مختاری اور بقا کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ نام نہاد حکمرانوں کو تمام سیاسی جماعتیں مسترد کر چکی ہیں، پاکستان کی نظریاتی شناخت اور قرآن وسنت کے اساسی اعتقادات پر حکومت کے معاندانہ رویوں سے قوم کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے جس پر اسے قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ اے پی سی میں فیصلہ کیا گیا کہ اٹھارویں ترمیم کے خلاف اقدامات کو قبول نہیں کیا جائے گا اور سیاسی معاملات کو چلانے کے لیے کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ جس کا نام مولانا فضل الرحمان کی خواہش پر رہبر کمیٹی رکھا گیا۔ ذرائع کے مطابق اے پی سی نے چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو ہٹائے جانے کی صورت میں چیئرمین سینٹ کیلئے امیدوار کا تاحال فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ڈپٹی چئیرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا مستعفی ہو کر چیئرمین سینیٹ بننا چاہتے ہیں لیکن جب تک پاکستان مسلم لیگ ن نئے چیئرمین کے نام پر اتفاق نہیں کرتی، اس وقت تک چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جا سکے گی۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی کانفرنس میں عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا اور لاپتہ افراد کا معاملہ بھی پوری شدت سے اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اے پی سی میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قانونی راستے اختیار کئے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی سے استعفوں کی تجویز آئی تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس کی حمایت کر دی۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان کی تمام مقتدر اور حزب اختلاف سے وابستہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس اپنے اس مؤقف کا اعادہ کرتی ہے کہ ملک پاکستان پر عوام کی نمائندہ حکمرانی موجود نہیں، ملک پر مسلط نام نہاد حکمرانوں کا ٹولہ جولائی2018کے عام انتخابات میں ملک گیر اور بدترین دھاندلی کے نتیجے میں قوم پر مسلط کیا گیا جسے تمام سیاسی جماعتیں مسترد کرچکی ہیں۔ جبری تسلط کے 11ماہ کے عرصے میں حکومت نے کارکردگی کے اعتبار سے اپنی نااہلی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے، ملک کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، ملکی معیشت کی عمارت زمین بوس ہوچکی ہے اور ملک دیوالیہ پن کی حدود کو عبور کرنے کی تیاری کر رہا ہے، اس حکومت کو قائم ہوئے 11ماہ گزرچکے ہیں اس کی لیڈر شپ کی حرکات و سکنات اور فیصلوں نے ہمارے شکوک و شبہات کو یقین میں بدل دیا ہے کہ ان کا ایجنڈا ملکی مفادات کے بجائے کسی گھنائونی سازش کا حصہ ہے، قومی مفادات کو پس پشت ڈالنے کے علاوہ انتظامی نااہلی، ذاتی انا پرستی، بداخلاقی، بدکردار اور کرپٹ ٹولے کی سرپرستی نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، خاص کر معاشی نظام کو جمود کا شکار بنا دیا ہے، مہنگائی اس قدر کہ غریب عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے، بیرونی قرضوں کا فلڈ اور معاشی اداروں کی بدنظمی معیشت کو دیوالیہ کرنے کو ہے، غربت اور افلاس کی بڑھتی ہوئی صورتحال پرتشدد عوامی انقلاب کا راستہ ہموار کرتی دکھائی دیتی ہے، معاشی زبوں حالی، معاشرتی بے چینی، بیرونی ادائیگیوں کا دبائو سب مل کر ملکی سلامتی کیلئے چیلنج بن چکے ہیں، ایسے میں ملک کے بڑے اداروں پر غیر ملکی مفاداتی اداروں کا کنٹرول ملک کی معاشی خودمختاری کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے، یہ حالات بہت بڑا سکیورٹی رسک ہیں، موجودہ حکومت اور اس کے فیصلے ملک کی سلامتی، خودمختاری اور بقا کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ بیرونی قرضوں اور بیرونی ادائیگیوں کے توسط سے بیرونی طاقتوں پر اتنا انحصار بڑھتا جا رہا ہے کہ آقا جب چاہیں جس مقصد کیلئے چاہیں بازو مروڑ سکیں، بڑھتی شرح سود، کمزور ہوتا روپیہ، بڑھتا ہوا ٹیکسوں کا بوجھ، تین ایسے منفی عوامل ہیں جو پاکستانی برآمدات کو بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلے کے قابل نہیں چھوڑیں گے، برآمدات مزید کم ہوں گے، بیرونی تجارت اور بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بڑھے گا، بیرونی قرضوں پر مزید انحصار بڑھے گا، فارن کرنسی ریزرو کم ہوں گے، قرضوں کی واپسی مشکل ہوتی جائے گی، معیشت کا دیوالیہ سامنے نظر آرہا ہے۔ خاکم بدہن ملک معاشی ڈیفالٹ کی طرف جاتا نظر آرہا ہے، ملک دشمن قوتیں اس حالت کا فائدہ اٹھا کر قومی مفادات پر قدغن لگانے کی سوچ سکتے ہیں۔ اجلاس کی نظر میں یہ حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کو جیوش اور دیگر پاکستان دشمن قوتوں کے ایماء پر معاشی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے، یہ سوچی سمجھی ترکیب اور سٹریٹجی کا حصہ ہے، اس سٹریٹجی کے جذبات کچھ ایسے بیان کئے جا سکتے ہیں کہ معیشت کو اندرونی طور پر تباہ کیا جائے، پیداواری لاگت بڑھا کر بزنس کو مشکل کر کے اس کیلئے شرح سود بڑھا دی گئی، ٹیکسوں سے کاروبار کا سانس بند کردیا گیا، مہنگائی انتہا کو پہنچا دی گئی، بزنس کے مواقع مشکل کردیئے گئے، ایسے حالات میں ملک کی معیشت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اہلکاروں کو سپرد کرنا ایسے ہی ہے کہ معیشت کی گرتی دیوار کو آخری جھٹکا دیا جائے۔ پیشتر اس کے کہ ملک کسی بڑے سانحے کا شکار ہو جائے اور ہم سب تاریخ کے صفحات میں مجرموں کی صف میں کھڑے ہوں ہمیں کسی ایک متفقہ بیانیہ اور لائحہ عمل پر یکجا ہونا ہوگا جس کے ذریعے ہم عوامی حمایت اور طاقت سے پاکستان کی ڈگمگاتی معیشت کو بچانے کیلئے بھرپور عمل کا مظاہرہ کریں۔ ملکی سلامتی نظام، سٹرٹیجک اثاثے، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے عظیم منصوبے کو ملک دشمن قوتوں سے بچانے کیلئے ہمیں اپنے ریاستی اداروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ہر قیمت پر ان کا دفاع کرنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کی طرف سے قومی اور خارجہ امور کے شعبوں میں جس طرح غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا بالخصوص بین الاقوامی کانفرنسز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے کے منافی بغیر تیاری کے شرکت اور بعض جگہوں پر مبہم تشہیر اور کمنٹری کر کے جو طرز عمل اپنایا گیا اس سے پوری پاکستان قوم کی سبکی اور جگ ہنسائی ہوئی اور قوم کے دلوں کو مزید رنجیدہ اور مایوس کردیا۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت اور قرآن وسنت کے اساسی اعتقادات پر حکومت کے معاندانہ رویوں سے قوم کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے جس پر انہیں قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ وزیراعظم کا قرضوں کے خلاف انکوائری کمیشن مستر د کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیدیا گیا ہے۔ رہبر کمیٹی نئے چیئرمین سینٹ کیلئے متفقہ امیدوار لائے گی، پارلیمانی نظام حکومت، 18ویں ترمیم کیخلاف کوششوں کی مذمت کی گئی۔ بجٹ کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج جاری رکھے گی، پہلے مرحلے میں تمام سیاسی جماعتیں رائے عامہ ہموار کریں گی، ججز کے خلاف ریفرنسز ختم کئے جائیں، لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قانون سازی کی جائے، جو لوگ سکیورٹی اداروں کے پاس ہیں ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اجلاس نے مطالبہ کیا ہے عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنس واپس لیا جائے، سوموٹو اختیارات پر قانون سازی کی جائے، قبائلی علاقہ جات اور کے پی کے میں حراستی سینٹرز بند کئے جائیں، میڈیا پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندی کی مخالفت کرتے ہیں، موجودہ احتساب کے عمل کی مخالفت کرتے ہیں، احتساب کا عمل منصفانہ کیا جائے، اجلاس نے انکوائری کمیشن کو مسترد کیا، حقائق سامنے لانے کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے شامل کئے جائیں، انہوں نے کہا کہ این ڈی سی غیر قانونی ادارہ ہے اسے ختم کیا جائے، جے یو آئی ف کے سربراہ نے کہاکہ اے پی سی مشترکہ اجلاس میں مطالبہ کیا ہے کہ اداروں کی ملکی سیاست میں مداخلت بندکی جائے، قرضہ کمشن کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف سمیت تمام اسیران کی زندگی اور بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ جبکہ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ رہبر کمیٹی کا کام آج کے فیصلوں پر عملدرآمد کرے گی اور نئے چیئرمین سینٹ کے نام تجویز کرے گی۔ اے پی سی میں شرکت سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں شہباز شریف کی زیر صدارت میں متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اے پی سی میں میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر رہنمائوں کی شرکت کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میاں شہباز شریف نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اے پی سی میں سربراہوں سمیت وفد شریک ہوں گے۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی اور بلاول کی شرکت کا فیصلہ اب کیوں ہو رہا ہے، کیا کوئی کنفیوژن ہے۔ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ کوئی کنفیوژن نہیں، آپ کو کسی نے غلط خبر دی۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کی قید میں تمام اسیروں کو سیاسی قیدی ڈیکلیئر کیا جائے، عوام کو اپوزیشن سے بہت توقعات ہیں، اگر قابل عمل لائحہ عمل عوام کے سامنے نہ رکھا تو مایوسی بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں ٹھوس فیصلے ہونے چاہئیں، 70 سالوں میں ریکارڈ قرضہ اس حکومت نے 11 مہینوں میں لیا ہے، سینٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیرمین کی تبدیلی پر بھی کوئی متفقہ فیصلہ کرنا چاہیے۔ مریم نواز نے کہا کہ یہ پہلی اینٹ جب سرکے گی تو جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی حکومت کی بنیادیں ہل جائیں گی، تحریک انصاف کے لئے انصاف کا ایک ترازو ہے اور اپوزیشن کے لئے دوسرا۔ ہم ایسے احتساب کے آگے کیوں جھک رہے ہیں، اگر اپوزیشن استعفے دیتی ہے تو اس بارے آئین کیا کہتا ہے؟ اگر مسلم لیگ ن پنجاب سے پیپلزپارٹی سندھ سے، مولانا فضل الرحمٰن اور اے این پی پختونخواہ سے اور بلوچستان عوامی پارٹی اور اچکزئی بلوچستان سے آتے ہیں اور اسلام آباد بند کردیتے ہیں، اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ اے پی سی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی حکمت عملی سے حکومت لرز جائے گی، چیئرمین سینٹ کے استعفے سے مسائل حل نہیں ہونگے لیکن حکومت ہل ضرور جائے گی۔ میاں نواز شریف، شہبازشریف، حمزہ اور میں ایک ہیں، کوئی اختلاف نہیں، پوری پارٹی کا میاں نواز شریف اور شہباز پر بھرپور اعتماد ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف تو کرسکتے ہیں البتہ فیصلہ لیڈر شپ کا ہوتا ہے جو خوش دلی سے قبول ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر روز عوام نئے بجٹ کی وجہ سے پس رہے ہیں، تحریک انصاف کی حکومت خود ہی گر جائے گی ہمیں تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو پاکستان پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائے، یہ حکومت جتنے دن رہے گی پاکستان میں صورتحال دگرگوں رہے گی، میں سمجھتی ہوں اس جعلی حکومت کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ مریم نواز نے کہا کہ ایک دن میں چھ چھ روپے قدر گر رہی ہے، ڈالر بڑھ رہا ہے: صرف جون میں 14 ارب قرضوں میں اضافہ ہوا۔

ای پیپر-دی نیشن