• news

قومی اسمبلی: اپوزیشن کا واک آئوٹ‘ سپیکر کو متعصب کہنے پر بلاول کیخلاف مذمتی قرارداد

اسلام آباد (خصوصی نمائندہ+ سپیشل رپورٹ) قومی اسمبلی میں ہفتہ کو مالی سال 2018-19ء کے ضمنی بجٹ کی منظوری دیدی گئی ۔قومی سمبلی میں حکومت کے 222 ارب14 کروڑ روپے کے اضافی اخراجات کیلئے 107 مطالبات زرکی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس پر ایوان میں باقاعدہ ان پر بحث کروائی گئی۔ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ زین قریشی نے سپلیمنٹری گرانٹس 2018-19ء ایوان میں پیش کیا۔ حکومت نے 222 ارب روپے سے زائد کے اضافی اخراجات کر لیے وزیر مملکت خزانہ حماد اظہر کے مطابق گرانٹس میں مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ادوار کی بعض گرانٹس بھی شامل ہیں۔ وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں آگاہ کیا ہے کہ گزشتہ سال کے 600 ارب روپے کے اضافی بجٹ کے مقابلے میں موجودہ حکومت کی سپلیمنٹری گرانٹس 222 ارب روپے کی ہیں کفایت شعاری کرتے ہوئے گزشتہ اضافی بجٹ کو نصف کر دیا ہے ۔وضاحت کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ ایوان میں حقائق بیان کرتا رہوں گا اس لیے تو لوگوں نے یہاں بھیجا ہے مالیاتی نظم و ضبط کے لیے حکومت انتہائی حساس ہے۔ سابقہ حکومت کے آخری سال اضافی بجٹ 600 ارب روپے سے زائد تھی اس سال 222 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس ہیں حکومت کو کفایت شعاری پر خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے گزشتہ چار سال اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس سے قبل اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں جلد منی بجٹ کا خدشہ ظاہر کر دیا ۔ اپوزیشن کے مطابق ڈالر کی اونچی پرواز کی وجہ سے تمام معاشی اعداد و شمار دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ پی ایس ڈی کے منصوبوں کی لاگت ڈالر کی قیمت 120 اور 125 روپے پر تیار کی گئی ۔ بجٹ 2019-20 ء بوسیدہ ہو چکا ہے ۔ اپوزیشن نے الیکشن کمیشن پاکستان کے عام انتخابات کے لیے 20 ارب روپے کے اضافی اخراجات پر اعتراض کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ متنازعہ ترین انتخابات کروائے گئے ۔ بھارت میں 60 کروڑ ووٹرز نے رائے شماری میں حصہ لیا کسی پولنگ سٹیشن کے اندر سیکیورٹی اہلکار تعینات نہیں کیا گیا ۔ پاکستان میں کہاں قبائلی اضلاع کے صاف شفاف انتخابات کو انتخابی مثال دیں ۔ قومی اسمبلی میں ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے رہنماؤں احسن اقبال ، شاہد خاقان عباسی ، شازیہ مری ، مولانا عبد الواسع ، عبد القادر پٹیل دیگر نے 222 ارب روپے سے زائد کے اضافی بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا ۔ احسن اقبال نے کہا کہ ڈالر کی اڑان پر بجٹ 2019-20 ء بوسیدہ ہو گیا ہے ۔ بجٹ کا انحصار غیر ملکی امداد پر بھی ہے ۔ اعداد و شمار اور تخمینہ جات کو دھچکا لگا ہے ۔ جلد منی بجٹ آئے گا ۔ 150 روپے فی ڈالر کی قیمت پر بجٹ تیار کیا گیا 164 روپے پر ریٹ ہے جلد 170 روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے ۔ پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی پر مجبور ہوجائیں گے ۔ سود کے لیے 2900 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ شرح سود 13 فیصد ہے ۔ ڈالر کی اڑان پر شرح سود 15 فیصد تک پہنچ جائے گا ۔ بنکوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور حکومت کو سود کی مد میں ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے ادا کرنے پڑ جائیں گے ۔ مزید بجٹ خسارہ بڑھ جائے گا ۔ پاکستان میں معیار زندگی گر گیا ہے ۔ لوگ مہنگی بجلی کی وجہ سے ہاتھ کے پنکھوں پر آ گئے ہیں ۔ جلد معاشی تخمینے منصوبوں کی لاگت میں رد و بدل کرنا پڑ جائیں گے ۔ بجٹ دھرے کا رھرہ رہ جائے گا ۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 2018 ء میں جو انتخابات ہوئے اس کی وجہ سے ملک میں خرابی ہے ۔ متنازعہ انتخابات کو نہ عوام نہ عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ۔ الیکشن کمیشن نے 20 ارب روپے کے اضافی اخراجات کر دئیے ہیں یہ بد نصیبی ہے کہ صاف شفاف انتخابات نہ ہو سکے ۔ حکومت کو سلیکٹڈ نہیں کہہ سکتے ۔ ترقی کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ 20 ارب روپے کے اضافی اخراجات کے باوجود غیر متنازعہ انتخابات نہ دے سکے ۔ قبائلی اضلاع میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ یہ مسائل دوبارہ سر اٹھانے والے ہیں ۔ پولنگ سٹیشنوں کے اندرکنٹرول الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں تھا ۔ بھارت نے 60 کروڑ لوگوں نے وہاں پر 10-11 روز گنتی ہوگی ۔ کوئی نگران حکومت نہیں تھی ۔ ایک سیکیورٹی اہلکار بھارت میں پولنگ سٹیشن کے اندر تعینات نہیں کیا گیا ۔ حکومت کے لیے سلیکٹڈ کا متبادل لفظ سجائی نہیں دے رہا ہے ۔ بہت سے لوگ جو ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئے اس ایوان کا حصہ ہیں ۔ بجٹ میں اضافی ٹیکسوں ، معاشی بوجھ کے سوا کوئی چیز نہیں ہے ۔ وزارت ڈویژن کی اضافی سپلمنٹری گرانٹس ہیں ۔ عوام نے 1500 ارب روپے کا اضافی ڈالا اس کے باوجود خسارہ 3500 ارب روپے کا ہے ۔ مزید 5 سے 7 ہزار ارب روپے کے قرضے لیں گے ۔ دفاعی بجٹ میں جو کمی شروع کرتے وہ خود مختاری ہے یہ سمجھوتہ کرنا شروع کر دیتی ۔ ہاؤس چلے گا تو سپیکر کی عزت میں اضافہ ہو گا اگر اس ہاؤس سے راہ فرار اختیار کریں گے تو کہاں پر بولیں گے ۔ ہاؤس میں ملکی مسائل پر بحث نہیں ہے ۔ گالم گلوچ وطیرہ بن گیا ہے ۔ صبح سے شام تک ایوان میں بیٹھیں ملکی قیادت یہاں آئے ۔ سابقہ دور میں کئی کئی ہفتے بجٹ اجلاس چلتے رہے ۔ با معنی نتیجہ خیز گفتگو کے بارے میں تیار ہیں ۔ 10 ماہ ہو گئے پارلیمنٹ میں با معنی گفتگو نہیں ہوئی گالیاں دینے کے سوا ہوا کیا ہے ۔ ملکی معاملات حالات پر غور کریں ۔ اس سے قبل ایسے با معنی بحث کریں ۔ سپیکر نے کہا کہ حکومت اپوزیشن موضوعات طے کرے ۔ میں کلیدی کردار ادا کروں گا ۔ ایم ایم اے کے مولانا عبد الواسع نے کہا کہ اہم معاملات پر بشمول خارجہ پالیسی پر ہم تحریک دے چکے ہیں ۔ خدانخواستہ اگر ایران اور امریکا میں جنگ ہوئی تو بلوچستان بھی میدان جنگ بن سکتا ہے۔ اس مسئلے پر بحث کریں۔سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن کی تفصیلات ایوان میں پڑھ کر سنائیں۔ سپیکر کے مطابق 224 ارکان نے بحث میں حصہ لیا۔وفاقی بجٹ پر 58 گھنٹے بحث ہوئی۔ رات بارہ بجے تک اجلاس چلائے گئے حکومت اور اپوزیشن نے بجٹ سیشن میں فعال کردار ادا کیا۔10 جون 2019ء کو قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن شروع ہوا۔موثر حاضری رہی۔قائد ایوان ،قائد حزب اختلاف ،وزراء دونوں اطراف سے ارکان نے فعال کردار ادا کیا گزشتہ روز سپیکر کے اعلان کے مطابق بجٹ پر دس دن بحث ہوئی 224 ارکان نے بحث میںحصہ لیا۔ان میں حکومت کے 123 اپوزیشن کے 101 ارکان شامل ہیں۔40 گھنٹے بحث کے لیے مقرر کیے گئے تاہم 58 گھنٹے بحث ہوئی اسد قیصر نے کہا کہ تاریخی بحث ہوئی ہے۔حکومت ارکان نے 29 گھنٹے 44 منٹ اپوزیشن کے ارکان نے 28 گھنٹے 6 منٹ بحث میں حصہ لیا۔18 گھنٹے اضافی بحث ہوئی اس میں اپوزیشن نے 9 گھنٹے 45 کا اضافی وقت لیا۔10 وزارتوں کے بجٹ پر 1622 کٹوتی کی تحریکیں پیش ہوئیں مطالبات زر پر طویل بحث ہوئی اڑھائی دن لگا۔اس کے علاوہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایوان میں پانچ سالہ پارلیمانی سٹریٹجک پلان پر دستخط کرتے ہوئے اس کی منظوری دے دی ہے ۔ مشترکہ کمیٹی 2019-23 ء پلان تیار کیا ہے ۔ سپیکر نے کہا کہ توقع ہے کہ ہم سب پارلیمان کی عزت توقیر احترام طاقت میں اضافہ کا باعث بنیں گے ۔ عوامی توقعات پر پورا اتریں گے ۔ ہفتہ کو سپیکر قومی اسمبلی نے پانچ سالہ سٹریٹجک پلان کی تیاری سے ایوان میں ارکان کو آگاہ کیا اور کہا کہ قومی اسمبلی کے تمام شعبوں سے ہاؤس کی سائیٹ کمیٹی نے مشاورت کی ہمہ گیر سٹریٹجک پلان تیار کیا گیا ۔ انہوں نے ایوان میں سٹریٹجک پلان 2019-23 ء پر دستخط کئے اور منظوری کا اعلان کرتے ہوئے ارکان کو ان کا حلف یاد دلوایا۔ قومی اسمبلی میں حکومت، اپوزیشن اورسپیکر قومی اسمبلی ایوان میں خارجہ پالیسی ، معیشت ، زراعت ، پانی کے مسائل پر تفصیلی بحث پر متفق ہو گئے ۔ باہمی مشاورت سے قومی اسمبلی کا ان معاملات پر اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ اس ضمن میں سپیکر مرکزی کردار ادا کریں گے ۔ گزشتہ روز سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت پر قومی مسائل پر راہ فرار اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں دن رات بیٹھیں ملکی حالات انتہائی خراب ہیں ۔ معیشت پر خصوصی اجلاس طلب کیا جائے ۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سابق وزیر اعظم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اگر آئندہ اجلاس میں معیشت پر بحث کے لیے تیار ہیں تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے ۔ پارلیمنٹ میں اس حکومت کے دور میں آج تک خارجہ پالیسی پر بحث نہیں ہوئی ۔ عالمی سطح پر اہم واقعات ہوئے ہیں فلسطین پر ڈیل آف سینچری کی بات ہو رہی ہے ۔ اقوام متحدہ میں بھارت کو سٹیٹس دینے کی بات ہو رہی ہے ۔ کشمیر فلسطین کے مسائل ہیں ۔ افسوس کہ آج تک خارجہ پالیسی پر بحث نہ ہو سکی ۔ تین دن کھل کر پارلیمنٹ میں بیٹھیں خارجہ پالیسی پر بات کریں ۔ حساس ترین مسائل پر حکومت ان کیمرہ اجلاس میں بات کر سکتی ہے ۔ خارجہ پالیسی پر بحث میں سب کا بھلا ہے ۔ سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ خارجہ پالیسی ، زراعت ، واٹر اور معیشت پر بحث کے لیے مسلسل اجلاس چلانے کو تیار ہوں ۔ حکومت اپوزیشن مل کر طریقہ کار طے کریں ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خارجہ پالیسی پر بحث کے لیے تیار ہوں ۔ خارجہ پالیسی پر بغیر کسی تقسیم کے اپروچ ہونی چاہیے ۔ عالمی نوعیت کے واقعات ہوئے ہیں جن کے خطے اور پاکستان پر اثرات پڑ سکتے ہیں اس پر بحث کریں ۔ اپوزیشن نکتہ نظر بیان کرے ۔ حکومت جواب دینے کو تیار ہے اسے سنابھی جائے ۔ سننے کی ہمت اور صلاحیت ہونی چاہیے ۔ خندہ پیشانی سے بحث کے لیے تیار ہیں ۔ فنانس بل کی شقوں پر رائے شماری بار بار چیلنج کیا گیا پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ بجٹ پر رائے شماری پر چیلنج کرنے کی بھی حد ہوتی ہے ۔ بجٹ منظوری کے بعد ایک پارٹی سربراہ نے بجٹ کو بلڈوز کرنے کا الزام عائد کر دیا ۔ حکومت کو سننے کا جذبہ ہونا چاہیے ۔ ایوان میں تو تو میں نہیں ۔ گالیاں نہیں پگڑیاں نہ اچھالیں ۔ با معنی بحث کریں ۔ سپیکر نے کہا کہ حکومت اپوزیشن موضوعات طے کرے میں کلیدی کردار ادا کروں گا ۔ ایم ایم اے کے مولانا عبد الواسع نے کہا کہ اہم معاملات پر بشمول خارجہ پالیسی پر ہم تحریک دے چکے ہیں ۔ خدانخواستہ اگر ایران اور امریکا میں جنگ ہوئی تو بلوچستان بھی میدان جنگ بن سکتا ہے اس مسئلے پر بحث کریں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایوان کو آگاہ کیا ہے کہ وزیرستان سے ارکان محسن داوڑ اور علی وزیرخان کے پروڈکشن آرڈر کے معاملے پر انہیں وزارت قانون و انصاف سے رائے آ گئی ہے قانونی مشاورت کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کرلوں گا، ہفتہ کو قومی اسمبلی میں موجودہ حکومت کے اضافی بجٹ پر بحث کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے متذکرہ ارکان کے پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بجٹ میں ان ارکان کو غیر حاضر رکھا گیا سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ انہیں اس معاملے پر وزارت قانون سے رائے مل گئی ہے اپنی مشاورتی ٹیم سے مشاورت کے بعد منگل کو فیصلہ کرلوں گا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا ہے کہ الیکشن غیر شفاف اور حکومت کو سلیکٹڈ بھی نہ کہا جائے ایسے ملکوں کا حال وہی ہوتا ہے جو آج ہمارا ہے۔ عوام حکومتی اقدامات سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اب سلیکٹڈ کو چھوڑ کر کوئی اور لفظ تلاش کر رہے ہیں۔ سابقہ فاٹا میں ہونے والے الیکشن غیرمتنازعہ بنائیں۔ سپیکر نے اجلاس غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا۔قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے بجٹ اجلاس کے دوران تمام ارکان خصوصاً اپوزیشن لیڈر‘ پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں وزراء اوردوسرے ارکان کی شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کی صدارت کے دوران اپنے ریمارکس میں سپیکر نے کہا کہ بجٹ اجلاس میں گزشتہ دس روز میں 101 اپوزیشن ارکان نے بجٹ پر اظہار خیال کیا جب کہ 123 حکومتی ارکان بجٹ پر بحث میں حصہ لیا۔
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ + نمائندہ خصوصی) قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں سابق اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ کوبات کرنے کی اجازت نہ ملنے اور اپوزیشن کی خواتین ارکان کو سخت ڈانٹنے پر اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کردیا۔ قومی اسمبلی میں ہفتہ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے خلاف سپیکر اسدقیصر کومتعصب قرار دینے پر قرارداد منظور کر لی گئی۔ بلاول سے ایوان میں معافی کا مطالبہ کر دیا گیا جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف بھی ایوان میں موجود نہ ہونے پر رولنگ جاری کر دی گئی ہے۔ اپوزیشن کو کورم کی نشاندہی پر دو بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بجٹ سیشن میں اپوزیشن حکومت کو سخت دبائو میں لانے میں بھی نا کام رہی بجٹ سیشن کے آخری روز حکومت نے اپوزیشن کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کر لیا۔ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری نے بلاول بھٹو زرداری کی سپیکر کے خلاف پریس کانفرنس کے معاملے پر قرارداد پیش کی۔حکومت نے سپیکر کا دفاع شروع کر دیا ہے سپیکر پر اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ بجٹ اجلاس کو بلڈوز کرنے پر سپیکر اسد قیصر جانبدار ہو گئے ہیں۔ جس پر بلاول بھٹو کے خلاف حکومتی قرارداد آ گئی قرارداد میں بلاول کی طرف سے سپیکر کومتعصب قرار دینے پر مذمت کی گئی اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں کشیدہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ زرداری تھوڑی دیر ایوان میں آ کر چلے گئے۔ قبل ازیں تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی شیریں مزاری، اسد عمر اور شفقت محمود نے بلاول بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کرائی ہے۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد بلاول بھٹو نے اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف پارلیمنٹ ہاوس کے باہر ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے، بلاول بھٹو زرداری کا یہ اقدام اسپیکر قومی اسمبلی پر حملے کے مترادف ہے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے الفاظ پر ایوان میں معافی مانگیں۔ نائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان کا حکومت کی بلاول بھٹو زرداری کے خلاف قرارداد پر رد عمل دیتے ہوئے کہاہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے خلاف قرارداد کی مذمت کرتے ہیں،تحریک انصاف کی حکومت میں تنقید سننے کا حوصلہ نہیں، تحریک انصاف کی حکومت کا آمرانہ چہرہ سامنے آنے لگا ہے، ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے ساری عمر دوسروں پر تنقید کی ہے، حکومت کرنی ہے تو تنقید سننے کا حوصلہ پیدا کریں،اپوزیشن کا کام ہی تنقید اور احتساب کرنا ہے بلاول بھٹو زرداری نے الفاظ پر پابندی لگائی جا رہی اس طرح کے ہتھکنڈوں سے بلاول بھٹو زرداری کو خاموش نہی کرا سکتے، حکومت بلاول بھٹو کے خدشات دور کرنے کے بجائے قراردادیں پیش کر رہی۔

ای پیپر-دی نیشن