لیڈز میں جھگڑا!!!
پاکستان کی افغانستان کے خلاف کامیابی کے بعد سیمی فائنل میں جانے کی امید باقی ہے۔ اس کامیابی پر پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ بالخصوص شاہین شاہ آفریدی، وہاب ریاض اور عماد وسیم نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیم کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہاب ریاض ہیئر لائن فریکچر کے باوجود کھیلے انہوں نے اچھی باؤلنگ بھی کی۔ ابتدا میں شاہین آفریدی کی وکٹ ٹیکنگ باؤلنگ کی وجہ سے افغانستان کی ٹیم زیادہ رنز سکور نہ کر سکی۔ عماد وسیم نے مشکل وقت میں ناٹ آؤٹ انچاس رنز سکور کیے۔ وہ جس وقت باؤلنگ کے لیے آئے افغانستان کا پلڑا بھاری تھا ان کے سپنرز کو کھیلنا مشکل تھا لیکن عماد وسیم نے مشکل وقت میں اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور نیچے سے اپنی ٹیم کو اٹھایا۔ ٹیم پاکستان مبارکباد کی مستحق ہے۔ عماد وسیم کا تعلق اسلام آباد ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن سے ہے۔ موجودہ دور میں وہ پاکستان کے واحد کرکٹر ہیں جو پرکشش معاوضے کو انکار کرتے ہوئے قائد اعظم ٹرافی میں اپنے ریجن کی نمائندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ان کی اپنے ریجن اور ڈائمنڈ کرکٹ کلب سے لگاؤ کی واضح مثال ہے۔ انڈر نائنٹین ٹیم کے کپتان روحیل نذیر کا تعلق بھی اسی کلب اور اسلام آباد ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن سے ہے۔ یوں دونوں سطح پر اس ایسوسی ایشن کی نمائندگی بہت اچھے انداز میں نظر آتی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ملک میں کھیل کے فروغ کے لیے حقیقی معنوں میں میرٹ پر کام کرے۔ تجربہ کار لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے۔ جو اچھا ہے اس سے کام لیا جائے، چہروں کی ناپسندیدگی پر انہیں باہر نکالنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کرکٹ ہمارے ملک کا بہت قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ ملک کو متحد رکھنے والی بہت بڑی طاقت ہے اس کو پسند ناپسند کی بنیاد پر چلانے کے بجائے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ احسان مانی کو وزیراعظم نے کھیل کو بہتر کرنے کا ٹاسک دیا تھا لگ بھگ دس ماہ میں ان کے کریڈٹ پر کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی کہ وہ اپنے انتخاب کو درست ثابت کر سکیں یا ان کی موجودگی سے کوئی فرق پڑا ہو۔ ہمیں سننے کو ملتا ہے کہ ایوان وزیر اعظم میں احسان مانی کے حوالے سے ہونے والی گفتگو زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی کارکردگی وہاں بھی زیر بحث آتی ہے اور یہ بحث بتاتی ہے کہ ایوان وزیراعظم میں احسان مانی کے حوالے سے پائی جانے والی مثبت رائے بدل رہی ہے۔
پاکستان کی ٹیم فتح حاصل کرتی ہے تو کراچی سے خیبر تک لوگ خوشیاں مناتے ہیں، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں۔ لوگوں کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ سیاست دانوں کی کرکٹ میچز میں بہت دلچسپی ہوتی ہے کیونکہ کامیابی کے بعد مبارکباد کے بیانات جاری کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اسمبلی کے اجلاس کے دوران، اہم میٹنگز کے دوران بھی میچ کی صورتحال پر نظر رکھی جاتی ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی ٹیم سے اچھے نتائج کی توقع ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دنوں جس طرح ہمارے بلے باز آؤٹ ہوتے ہیں جب ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے ایسی شاٹ کھیل کر آؤٹ ہونے کے بعد سزا کے طور پر پورا مہینہ نیٹ میں بھی بیٹنگ نہیں دی جاتی تھی۔ بلے بازوں کو اپنی وکٹ کی پرائس کا بہرحال اندازہ ہونا چاہیے۔
قارئین کرام کل ایک میچ لیڈز گراؤنڈ میں کھیلا گیا ایک میچ میدان کے باہر تھا جس میں افغانستان کے شائقین کرکٹ نے بہت جارحانہ رویے کا مظاہرہ کیا انہوں نے پاکستان کے صحافیوں کو بھی دھکے دیے، ٹوئٹر پر لکھا گیا ہے کہ ان سے موبائل چھیننے کی بھی کوشش کی گئی، افغانی مل کر پاکستانیوں پر حملہ آور ہوتے رہے۔ گراؤنڈ کے اندر اور باہر جنگ کا ماحول بنا رہا اور یہ حالات افغانستان کے شائقین کے جارحانہ رویے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ ایسے واقعات کی ہر سطح پر مذمت کی ضرورت ہے۔ افغانیوں کا یہ رویہ ان کے مجموعی مزاج کا عکاس ہے۔ اگر ہم اسے سیاسی انداز میں دیکھیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہمارا وہ ہمسایہ جس کے لیے ہم چار دہائیاں قربانیاں دیتے رہے ہیں، لاکھوں افغانوں کو اپنے ملک میں پناہ دی، ان کے لیے زندگی کا سامان پیدا کیا، ان کے لیے کاروبار کے مواقع پیدا کیے، انہیں اپنا ساتھ کھڑا کیا، ان کے ساتھ کھڑے رہے، مشکل وقت میں انہیں سنبھالا، اپنی حیثیت سے بڑھکر انکا خیال رکھا، ہمارا لاکھوں، کروڑوں اربوں نہیں کھربوں کا نقصان ہوا، نقصان کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، جانے اس مصیبت سے کب جان چھوٹے لیکن کسی کی مدد کرنے کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن آج یہ صورت حال ہے کہ وہ ملک دشمن ملک بھارت کے ساتھ مل کر ہمارے امن کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
افغانستان کی طرف سے پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کی ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ کوششیں ہو رہی ہیں۔ انہیں خطے کے دیگر پاور پلیئرز کا ساتھ بھی حاصل ہے۔ چھپ کر وار کرنے والوں نے آج لیڈز میں اپنی اصلیت بھی ظاہر کر دی ہے۔ اس واقعے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا یہ واقعہ افغان قوم کے پاکستان کے حوالے سے سوچ کو ظاہر کر رہا ہے جب وہ دنیا کے سامنے پاکستان کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں تو چھپ چھپ کر شازشیں کرنے کے بارے کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ آج پاکستان کو جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے اسکی وجہ افغانستان ہے۔ افغانیوں کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے ہمارے اپنے بچے بے گھر ہوئے، ان کی دیکھ بھال کی وجہ سے دنیا ہماری دشمن ہوئی اب پاکستان اس مشکل صورتحال سے نکل رہا ہے تو وہ جن کے لیے ہم نے برسوں قربانیاں دیں وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ملکر پاکستان کے خلاف سازشوں اور منظم کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ یہ پی ٹی ایم پاکستان مخالف افغانیوں کی ایک منظم شاخ ہے جسے کے تانے بانے وہیں سے ملتے ہیں انکی ڈوریاں وہیں سے ہلائی جا رہی ہیں۔
لیڈز کا واقعہ دل ہلا دینے والا ہے۔ ایسے واقعات سے قوموں کی سوچ اور فکر کا اندازہ ہوتا ہے پاکستان سپر لیگ کے میچز کے دوران لاہور کے قذافی اسٹیڈیم اور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم سے محبت، امن، دوستی اور مہمان نوازی کا پیغام صرف لاہوریوں اور کراچی والوں کی طرف سے نہیں تھا۔ دوستی، پیار، محبت، امن اور بھائی چارے کا یہ پیغام پورے پاکستان کی طرف سے تھا۔ بالکل اسی طرح لیڈز میں افغانیوں کا رویہ انکی مجموعی سوچ کی عکاسی کر رہا ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کو خبر ہونی چاہیے، دشمنانِ پاکستان یہ جان لیں کہ وہ جتنی مرضی سازشیں کر لیں افواج پاکستان ہر سازش کو ناکام بنانے کے لیے موجود ہے، دشمنان پاکستان جتنا مرضی پیسہ خرچ کر لیں وہ پاکستان کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے کیونکہ اس ملک کا بچہ بچہ افواج پاکستان کا سپاہی ہے۔ لیڈز میں ہونیوالی بدتہذیبی کے بعد ہمارے سیاستدانوں کی بھی آنکھیں کھل جانی چاہییں۔ وہ سیاست دان جو چھوٹے چھوٹے سیاسی فائدے کے لیے ملک دشمنوں کے بیانیے کو مضبوط کرنے نکل پڑتے ہیں۔ آج ہمیں ماضی سے زیادہ متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں خطے میں کسی بھی نئی محاذ آرائی میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہو سکتا ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو متحد ہو کر ملک و قوم کے دفاع کے لیے آگے آنا چاہیے۔