منصفانہ انتخابات ہی افغان مسئلہ کا دیرپا حل ہیں: گل بدین حکمت یار
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) حزب اسلامی کے سربراہ اور صدارتی امیدوار گل بدین حکمت یار نے کہا ہے کہ شفاف اور منصفانہ انتخابات ہی افغان مسئلہ کا دیرپا حل ہیں۔ ایک بار پھر افغانستان پر کوئی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو خونریزی جاری رہے گی۔ ماضی کے نامور گوریلا کمانڈر اور اب سیاست دان گل بدین حکمت یار سے اس نمائندے نے ان کے حالیہ قیام اسلام آباد کے دوران ملاقات کی۔ نسبتاً مختصر ملاقات کے دوران افغانستان میں جنگ بندی، قیام امن، انتخابات کا انعقاد، افغانستان کے دستوری و سیاسی ڈھانچہ، امریکی افواج کے انخلاء اور قطر مذاکرات سمیت اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔ روایتی، کالی پگڑی پہنے، جدید تراش خراش کے مغربی کوٹ اور شلوار قمیص میں ملبوس، نفیس چشمے پہنے اور سلیقے سے تراشی ہوئی کھچڑی داڑھی والے گل بدین حکمت یار، اپنی ظاہری شخصیت کے کسی پہلو سے اس جنگ زدہ ملک کے جنگجو کمانڈر نہیں لگ رہے تھے۔ دھیمے انداز میں ان کی بولی جانے والی پشتو شستہ لہجے کی بدولت، پشتو کے بجائے ’’دری‘‘ محسوس ہو رہی تھی۔ گفتگو ترجمان کی مدد سے ہوئی۔ اس نامہ نگار نے ڈیڑھ دھائی قبل دو بار ان سے ٹیلیفون پر بزبان انگریزی اس وقت انٹریو کیا جب وہ ایران میں مقیم تھے لیکن حالیہ انٹرویو مترجم کی مدد سے کیا گیا کیونکہ حکمت یار زیر زمین قیام کی طویل مدت کے بعد رواں انگریزی بولنے میں دقت محسوس کر رہے تھے چنانچہ پالسی امور پر گفتگو کے ترجمے کیلئے انہوں نے اپنے سیکرٹری ہارون ذخیلوال کو مدعو کیا۔ سوالات اردو اور انگریزی میں پوچھے گئے جو حکمت یار کو بخوبی سمجھ آتے رہے ، جواب پشتو میں تھے، جن کا ترجمہ کیا جاتا رہا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بیرونی افواج کی موجودگی اور مسلط کردہ حکومتیں، افغان جنگ کی بڑی وجہ ہیں۔ سردار دائود سے لے کر، سابق سوویت یونین اور اب امریکہ، سب کا حکومتیں مسلط کرنے کا تجربہ ناکام رہا۔ ایک بار پھر اس ملک پر حکومت مسلط کی گئی تو خونریزی جاری رہے گی۔ امریکہ، افغانستان میں موجود رہ کر پورے خطہ کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ اس کے حریف ملک ایسا نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ان حالات میں افغانستان کیلئے حقیقی راہ یہی ہے کہ وہ ایک مکمل غیر جانبدار ملک بن کر رہے کیونکہ کسی ایک ملک کی طرف جھکائو، دوسرے ملک کو شکایت کا موقع فراہم کرے گا لیکن یہ غیر جانبداری اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کے ذریعہ حقیقی عوامی قیادت برسراقتدار آئے اور قومی امنگوں کو فروغ دے۔ شفاف الیکشن کیلئے یہ بھی لازمی ہے کہ افغان باہم کر بیٹھیں اور اس موضوع پر بات کریں۔ پاکستان میں حالیہ بھوربن کانفرنس کا انعقاد اس لحاظ سے خوش آئند اقدام تھا ۔ افغانستان کے فیصلے کبھی ماسکو میں ہوتھے پھر جرمنی اور امریکہ میں ہونے لگے۔ افغانوں نے اپنے فیصلے خود مل بیٹھ کر کرنے ہیں۔افگانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے سوال پر انہوں نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ انخلاء کا معاملہ امریکہ کے صدارتی الیکشن سے جڑا ہے یا یہ حقیقی خواہش ہے۔ سابق صدر اوبامہ اور اب ٹرمپ نے صدر بننے سے پہلے افغانستان سے انخلاء کے وعدے کئے لیکن صدر بننے کے بعد جرنیلوں ، سی آئی اے اور پنٹاگان کے گھیرے میں آ کر افغانستان میں فوجوں کی تعداد بڑھا دی۔ انخلاء کے بارے میں امریکہ کے اندر دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک حلقہ یہ سوچتا ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کرنے اور فوجی مروانے کے بجائے، افغانستان میں محفوظ قیام، مضبوط حکومت کی تشکیل ، وسط ایشیائی وسائل پر قبضہ ، دہشت گردی کے خاتمہ اور خطہ پر اثرانداز ہونے سمیت کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا چنانچہ اب اس ملک سے نکل آنا چاہیے لیکن دوسری جانب جنگجو جرنیل ، حیلے بہانوں سے یہاں رہنے کے حق میں ہیں۔ ان جرنیلوں نے اپنی قیادت سے جنگ جتوانے کے جھوٹے وعدے کئے۔ ابراہم لنکن اور جان کنیڈی جیسے صدور نے آزدانہ سوچنے کی، موت کی صورت میں سزا پائی۔ قطر مذاکرات کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ اور افغانوں کے درمیان نہیں بلکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں اور امریکہ نے یہ مذاکرات کرنے کا خود فیصلہ کیا تھا۔امریکی فوج کے انخلاء کے شیڈول کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز مل کر مدت انخلاء کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ تکنیکی ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے فوج واپس بلانے اور جنگی سازوسامان سمیٹنے میں کتنا وقت درکار ہو گا۔ افغانستان کے آئندہ دستوری اور سیاسی ڈھانچے کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ میں نے ملک کیلئے دستور بنا لیا اور کتابی شکل میں اسے بانٹ بھی دیا ہے۔ میرا دستور ملک کی ضروریات بطریق احسن پوری کرتا ہے۔ یہ حکومت تو خود موجودہ دستور کی ایک ایک شق کو پامال کر رہی ہے۔