• news
  • image

چیف جسٹس کیلئے ایک اورسچ

ایوب خاں کے پوتے عمر ایوب قومی اسمبلی میں عمران خان کو سلیکٹڈوزیر اعظم کہنے پر اتنے برہم ہو ئے کہ اسی وقت تحریک استحقاق پیش کر دی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے بھی جھٹ سے ایوان میں وزیر اعظم کیلئے اس لفظ کے استعمال پر پابندی لگا دی جیسے وہ اس کیلئے تیار بیٹھے تھے۔ تحریک انصاف عمر ایوب کی تیسری سیاسی جماعت ہے ۔ ملک خدا تنگ نیست ۔ پائے گدا لنگ نیست۔ ابھی اس نو عمر سیاستدان کاسفر بہت لمبا ہے۔ اقتدار کو بھی بلی کی طرح چین نہیں۔ بلی اپنے بلونگڑے اٹھائے سات گھر پھرتی ہے ۔ ادھر سیاسی بلونگڑوں کو بھی اقتدار کیلئے کئی گھروں میں پھرنا پڑتا ہے ۔عمر ایوب کو لگے ہاتھوں ایوان میں لفظ ’لوٹا ‘ کے استعمال پر بھی پابندی لگوا لینی چاہئے تھی۔ کل کلاں کوئی ’’مرادسعید‘‘ان کے منہ لگے گا۔ سیانے کل کی فکر آج کرتے ہیں۔ اک دل جلے نے پوچھا ہے۔جیلیں حوالاتیوں اور قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔ جیل کا لنگر کھانے والے سبھی صحتمند ہیں۔ گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت پانے والے سارے بیمار کیوں ؟ پھر ضمانت کا حق بھی انہی سے خاص ہے ۔ انجم رومانی نے یہی حقیقت بیان کی ہے ۔
انجم غریب شہر تھے اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پر رہا کر دیئے گئے
قانون اندھا ہوتا ہے لیکن ججز نہیں۔ وہ دیکھتے ہیں اور سنتے بھی ہیں۔ اک واقعہ یاد آگیا۔ ایک روز شاعر احمد فراز اسلام آباد اپنے ایک دوست کے ہاں گئے ۔ وہ لان میں کتے سے کھیل رہا تھا۔ مشتاق یوسفی کے لفظوں میں بیشک انسان کتے کا بہترین رفیق ہے ۔ پھر یہ بات بھی ہے ۔ کتا ایک وفادار جانور ہے ۔ یہ جان دے دیتا ہے لیکن اپنے مالک کا در نہیں چھوڑتا۔ وہ جو جھنگ سیال کے صفدر سلیم نے واقعہ لکھا ہے ۔ وہ گلی کوچوں کے آوارہ کتوں کے بارے میں تھا۔
کہہ رہا تھا ایک کتا اپنے ساتھی سے سلیم
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
فیض احمد فیض نے کتوں پر بھی ایک نظم لکھی ہے ۔
یہ گلیوں کے آوارہ بیکار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
کتوں کو اس نظم پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ۔ انگریز دور میں لکھی گئی اس نظم کے مخاطب دراصل غلام ہندوستانی شہری ہیں۔اس نظم میں فیض احمد فیض نے ہندوستانیوں کو بتایا کہ گلیوں کے آوارہ کتوں جیسی حقیر ترین مخلوق بھی اگر جاگ جائے تو وہ اپنے آقائوں کا جینا حرام کر سکتی ہے ۔
انہوں نے اپنی نظم میں انسان کا لفظ انگریزوں کیلئے استعمال کیا ہے ۔ایک آزاد آدمی ہی انسان کہلوا سکتا ہے۔نظم کے آخر میں وہ اپنی قوم کو آزادی کا درس دیتے ہیں۔ انہیں احساس ذلت کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں کہ بیداری کی راہ میں یہی پہلا قدم ہوتا ہے ۔ علامہ اقبالؒ نے بھی احساس زیاں کو ہی متاع کارواں قرار دیا تھا۔
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقائوں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
ذکر ہو رہا تھا احمدفراز کا۔ فراز نے دیکھا کہ انہیں دیکھتے ہی ان کا دوست قدرے بہتر کمپنی کے لالچ میں اپنے پالتوکتے کو پرے ہٹ جانے کا کہنے لگا۔ لیکن وہ ڈھیٹ جانورمان نہیں رہاتھا۔ وہ دور جانے کے ہر حکم پر سنی ان سنی کئے جا رہا تھا ۔ نوکروں کے پاس حکم عدولی کے بہت بہانے ہوتے ہیں۔ ایک نوکر جب اپنے مالک کے بار باربلانے پر نہ آیا تومالک خود اس کے پاس پہنچ کر پوچھنے لگا۔تم میری آوازیں کیوں نہیں سن رہے ؟ نوکر بولا۔ حضور!میں نے آپکی صرف پانچویں آواز سنی تھی۔ کتے حیوان ناطق نہیں کہ کچھ بول بھی سکیں۔ ورنہ دور پرے نہ ہٹنے کی حکم عدولی پر وہ بھی ایک شاندارسا عذر پیش کر دیتا۔ احمدفراز کے دوست کا اپنے کتے سے اصرار و تکرار جاری تھا کہ وہ ان کے پاس پہنچ گئے ۔ مشورہ دینا اور علاج بتانا ہماری قومی عادت ہے۔ اسی لئے احمد فراز نے اپنے دوست کو مشورہ دینا ضروری سمجھا۔کہنے لگے۔ اپنے کان میں لگی ہوئی اونچا سننے میں مدد دینے والی ٹونٹی اتار کر کتے کے کان میں لگائیں تاکہ آپ کی آواز اس تک پہنچ پائے ۔ یہ واقعہ برسوں پہلے کالم نگار نے اپنے حاکموں کے باب میں لکھا تھا۔ لیکن ایسی سنی ان سنی ہماری عدلیہ میں بالکل نہیں ۔ اگر چیف جسٹس کی بھاگتی دوڑتی گاڑی کے آگے چھلانگ لگا کر انہیں کچھ بتانے کی کوشش کی جائے توگاڑی رک بھی جاتی ہے اور عرض مدعابھی ان تک پہنچ جاتا ہے ۔ ڈرنے کی بالکل ضرورت نہیں ۔ ان کا ڈرائیور بر وقت بریک لگانے میں خاصا ہنر مند ثابت ہوا ہے ۔ہمارے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے تئیں آج کا سب سے بڑاسچ بولاہے ۔’’عدلیہ کے سواکہیں سے اچھی خبر نہیں آرہی‘‘۔کالم نگار حیران ہے کہ کیا واقعی عدلیہ سے بہت اچھی خبریں آرہی ہیں؟بہر حال عدلیہ کے فرمان کو آپ سچ ماننے لکھنے پر مجبور ہیں۔ ویسے لگے ہاتھوں کالم نگار کا ایک سچ بھی سن لیں۔ زوال کے پاتال میں کھڑے کسی سماج کیلئے ممکن ہی نہیںکہ وہ کمال کا کوئی جزیرہ آباد کر سکے۔ معیشت ، سیاست ، عدالت اورعلم و ادب کی دنیا کہیں بھی نہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن